Tuesday, March 27, 2012

فسانہ آزاد::باب ہفتم:: بجھا جو روزنِ زنداں

باب ہفتم۔فسانہ ء آزاد
بجھا جو روزنِ زنداں
محمد خلیل الر حمنٰ

موجودہ پاکستان اور افغانستان کے قبائیلی علاقے یاغستان، باجوڑ ، ڈبراور خار وغیرہ اباجان کے لیے ایک دوسرے گھر کی حیثیت رکھتے تھے، جہاں وہ تبیلغ کے لیے ہر چند ماہ بعد پہنچے ہوے ہوتے تھے اور جم کر کئی ماہ قیام کے بعد واپس حیدر آباد پہنچتے اور پیر صاحب کے پاس حاضری دیتے۔ جون ۷۴۹۱ءمیں وہ ایسے ہی ایک دورے پر اس علاقے میں موجود تھے اور میرا جان سیال کے ہاں قیام تھا۔ سیال صاحب خود تو پختونستان کے حامی تھے لیکن ابا جان سے دوستی اور ان کی بے پناہ عزت کرنے کے ناتے، ابا جان کے مسلم لیگی خیالات کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔ علاقے میں ایک ہی ریڈیو تھا جو سیال صاحب کے گھر پر ایک اونچی جگہ پر موجود ہوتا تھا۔ایک گھنٹہ کی نشریات سننے کے لیے کم از کم دو گھنٹے ڈاینامو کا پہیہ چلا کر بیٹری کو چارج کرنا پڑتا۔ اہم نشریات کے پیشِ نظر سیال صاحب نے اباجان کو خاص اجازت مرحمت فرمائی تھی کہ وہ علاقے کے لڑکوں کو پکڑ کر ان سے بلا جھجک ڈائنامو کا پہیہ چلوائیں اور وقت پر خبریں سنیں۔ آخر کار ۳ جون ۷۴۹۱ء کا تاریخ ساز دن بھی آیا جس دن قائد اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنی پہلی اور آخری تقریر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔پہلے متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی آخری نشری تقریر میں ہندوستان کی آزادی کا اعلان کیا، پھر کانگریس کی طرف سے بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے تقریر کی اور سب سے آخر میں مسلم لیگ کی جانب سے مسلم لیگ کے صدر، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور بر صغیر کے کروڑوں مسلمانوں کے قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی تقریر میں پاکستان کے قیام کا اعلان کیا اور پاکستان زندہ باد کے ایک نعرہ مستانہ پر اپنی تقریر ختم کی۔

ابا جان نے شوق اور عقیدت کے ساتھ قائد اعظم کی تقریر سنی اور اور فوراً ہی واپسی کا قصد کرلیا اور سیال صاحب کے لاکھ روکنے پر بھی مزید رکنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہوچکا تھا، حیدر آباد ریاست کی تقدیر ہندوستان اور انگلستان کے لیڈروں کے رحم و کرم پر تھی اور اب عمل کا وقت آگیا تھا۔ پاکستان جس کے لیے اباجان نے ان پٹھان علاقوں میں اپنے زورِ بیان سے جادو جگایاتھا، اب اللہ کے فضل و کرم سے ایک حقیقت بننے جارہا تھا۔ اب اباجان کے لیے حیدرآباد میدانِ عمل بن چکا تھا اور میدانِ عمل سے زیادہ دور رہنا اب انکے لیے ناممکن تھا۔

وہاں سے واپسی پر اباجان نے حالات کے پیشِ نظر دو عدد رائفلیں بھی خریدیں اور انھیں لے کر کشاں کشاں حیدرآباد پہنچے اور وہاں پر پہنچ کر باقاعدہ جہاد کی تیاری شروع کی۔ سب سے پہلا مرحلہ ساتھیوں کی ٹریننگ کا تھا جسے بلا تاخیر شروع کروایا گیا۔ابتک تو ساتھی پرانے ہتھیاروں یعنی تلواروں پر ٹریننگ پاتے تھے اور اب اس نسبتاً نئے ہتھیار’ رائفل ‘کی ٹریننگ بھی شروع کرنی پڑی تاکہ وقت پڑنے پر وہ اس کے استعمال کے لیے بھی تیار ہوں۔

ہتھیاروں کی لوکل سپلائی کے لیے ایک مقامی لوہار کی خدمات حاصل کی گئیں اور اسے سرحد سے درآمد شدہ رائفل دکھا کر اسی نوع کی رائفل تیار کرنے کا کہا گیا جو اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ قبول کیا۔اس نے پہلی رائفل بنائی اور اسے ٹسٹ کرنے کی خاطر پہلا فائر کیا تو اس کی نالی پھٹ کرخود اسے بری طرح زخمی کرگئی۔

غرض جہاد کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں کہ انھی دنوں خبر ملی کہ حیدرآباد کے سرحدی علاقوں میں ایک ہندو غنڈے نانا پٹیل عرف پتری سرکار نے اندرونِ ریاستِ حیدرآبا دکن میں کے مسلمانوں پر عرصہحیات تنگ کر رکھا ہے۔ مسلمان اس کی آئے دن کی لوٹ مار اور قتل و غارت گری سے عاجز تھے۔ ابا جان اور ان کے جانثاروں کے گروہ نے طے کیا کہ اس علاقے میں جاکر قسمت آزمائی کی جائے۔ شاید قسمت ساتھ دے اور اس غنڈے کے ساتھ زور آزمائی اور ہاتھاپائی کی نوبت آ ہی جائے۔


ان سب نے اپنی تلواریں تیز کیں، اپنی رائفلوں کی نالیوں کو صاف کرکے ان میں تیل وغیرہ ڈالا ،کارتوس سنبھالے اورابا جان کی سربراہی میں رات کی تاریکی میں منزلیں مارتے ہوئے روانہ ہوئے۔اس علاقے میں ان دنوں جاوید جبار صاحب کے والدعبدالجبارصاحب حیدرآباد کے ضلع بیڑکے ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز تھے جو حیدرآباد کی سرحد پر ہندوستان کے ساتھ واقع تھا، اور ہندوں کے ان غنڈہ گردی کے واقعات سے حقیقتاًپریشان تھے۔ اباجان کا گروہ جب جاکر ان سے ملا اور اس غنڈے نانا پٹیل کی سرکوبی کے لیے اپنی خفیہ خدمات پیش کیں تو ان کی باچھیں کھل گئیں۔ان سب کو اپنے گھر میں بٹھایا، ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوکر ان سے تفصیلی گفتگو کی اور ایک باقاعدہ پلان بنا کر اگلی رات انھیں گھر سے رخصت کیا۔ رات میں پہاڑی راستے کا سفر اور اس پر طرہ یہ کہ لوگوں اور بستیوں سے بچ کر چلنا، کوئی مشکل سی مشکل تھی، لیکن ان اصحاب نے ہمت نہ ہاری اور تایکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس غنڈے کے گاں میں داخل ہوئے۔

ایک ساتھی نے تنہا جاکر محلے کی دکانوں سے اس کے گھرکا پتہ دریافت کیا اور پھر سب نے مل کر اس کے گھر پر ہلہ بول دیا۔وہ اس پہاڑی گھر کا گھیراکر کے جب اس کے اندر داخل ہوئے تو گھر بھر میں سناٹا تھا۔ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے پورا گھر چھان مارا۔ گھر میں

ایک لڑکی کے سوا کوئی نہ تھا۔یہ نوجوان لڑکی ابھی ابھی زچگی کے مرحلے سے گزری تھی ، اس عورت کی گود میں ایک بچہ تھا جو رو رہا تھا۔وہ بیچاری رو رو کر اپنی جان کی بھیک مانگنے لگی۔ابا جان نے بچے کو گود میں لے کر چمکارا اور اس کے ساتھ ہی اس نوجوان عورت کوبھی بڑی مشکل سے چپ کرایا اور یہ یقین دلایا کہ

” ہمیں عورتوں سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں صرف نانا پٹیل سے غرض ہے، ہمیں اس کے بارے میں بتا۔ تم میری بہن ہواور تم دونوں محفوظ ہو۔ سچ بولو گی تو تمہاری جان کو کوئی خطرہ نہیں۔ہمیں صرف یہ بتا دو کہ نانا پٹیل یہاں آیا تھا؟

اس لڑکی نے کہا، ” ہاں ! آیا تھا۔

” کہاں گیا؟“ اباجان نے پوچھا۔

” میں اس حالت میں کہاں جاسکتی تھی کہ مجھے علم ہوتا۔ بس اتنا جانتی ہوں کہ اسے تم لوگوں کے آنے کی خبر ہوچکی تھی، اس لیے وہ نکل گیا۔

گویا کہ اسے سرِ شام ہی مشکوک لوگوں کی نقل و حرکت کا پتہ چل گیا تھا اور اس نے ان لوگوں کو گھیرنے کا پلان بنایا تھا۔دکانوں پر جو لوگ نظر آئے تھے اب وہ بھی وہاں نہیں ہوں گے اور پورا علاقہ سنسان ہوگا۔ باہر جھانک کر دیکھا تو واقعی ایسا ہی تھا۔ گویا یہ لوگ نانا پٹیل کے جال میں بری طرح پھنس چکے تھے۔

اس لڑکی سے تعارض کرنا بیکار تھا، اس لیے اس سے یہ کہ کر کہ ” تو نے سچ بولا ہے اس لیے ہم تجھے کچھ نہیں کہیں گے“ سب باہر نکلے۔اباجان اور ان کے ساتھیوں نے پلان بنایا کہ اب پھنس تو چکے ہی ہیں، کیوں نہ چھا پا مارر کارروائی کے ذریعے اچانک حملہ کرتے ہوئے نکلنے
کی کوشش کی جاے۔

چوری چھپے باہر نکلنے کا پلان یوں ناکام ہوا کہ جوں ہی پہلا ساتھی گھر سے باہر نکلا، پہاڑی پر سے ایک بہت بھاری پتھر آکر ان کے عین سامنے گرا اور فوراً بعد ہی ایک شخص کا جسم لہراتا ہوا گرا۔ وہ شخص جو یقیناً ایک ہندو تھا اور اس پتھر کو گرا چکا تھا، زمیں پر گرتے ہی ایک لمحے کو تڑپا اور ٹھنڈا ہوگیا۔ اوپر سے اباجان کے ایک ساتھی سیف اللہ صاحب نے جو گھر کی چھت پر نگرانی کے لیے چھپے تھے، اوپر سے جھانک کر پہلے تودانت نکال کر باقی ساتھیوں کو کچھ موٹی موٹی گالیاں عنایت فرمائیں اور پھر احتیاط کا تقاضا کرتے ہوئے دوبارہ اپنی پوزیشن پر ڈٹ گئے۔اس ہندو کو پتھر گراتا دیکھ کر انھوں نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر اسے ٹانگ سے پکڑ کر نیچے پھینک دیا تھا۔
گھر سے نکلے تو دیکھا کہ وہ چاروں طرف سے گھیر لیے گئے ہیں۔ ہر طرف پہاڑیوں پر لوگ ہی لوگ نظر آتے تھے ، جن میں سے اکثر کے ہاتھوں میں آتشیں اسلحہ موجود تھا۔گاں سے نکلنے والے واحد راستے پر وہی غنڈا یعنی نانا پٹیل مبینہ طور پر اپنے ساتھیوں سمیت موجود تھا۔عبدالغنی صاحب نے رائفل کندھے پر رکھی ، نشانہ لیا اور ایک فائر داغ دیا۔ گولی تو اللہ جانے کدھر گئی لیکن عبدالغنی صاحب فو راً پلٹے اور ساتھیوں پر برس پڑے۔” یہ مجھے دھکا کس نے دیا؟
ان سب نے بیک وقت نشانہ لے کر اس طرف فائرنگ شروع کی اور لاشیں گراتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے۔دشمنوں میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ اپنے لیڈر سمیت کئی لاشیں چھوڑ کر بھاگے تو اِن لوگوں نے بخیر و عافیت اس علاقے سے نکل جانے ہی میں بہتری سمجھی اور واپس ڈپٹی کمشنرعبدالجبار صاحب کے بنگلے پر آکر ہی دم لیا۔
اگلی صبح ناشتے پر ڈپٹی کمشنر صاحب اور انکی بیگم خورشیدصاحبہ مہمانوں کی خاطر تواضح میں مصروف تھے کہ ملازم نے سرحد پار علاقے کے ہندو وفد کی آمد کی اطلاع دی۔ انھیں اس کمرے میں چھوڑ کر ڈپٹی کمشنر صاحب اس وفد سے ملاقات کے لیے ڈرائینگ روم میں تشریف لے گئے۔
ہندو وفدکے افراد نے جو ملحقہ ہندوستانی ضلع کے ڈپٹی کمشنر صاحب کی معیت میں آئے تھے، نہایت پراثر انداز میں تقریریں کیں اور مسلمان غنڈوں کی اس کارروائی سے ڈپٹی کمشنر کو آگاہ کیا جس میں اس گاں کے کئی معزز افراد بشمول نانا پٹیل نامی ایک شخص ہلاک و متعددزخمی ہوئے تھے۔ عبدالجبار صاحب نے کہا، ” تبلیغی جماعت کے لوگ ادھر نہیں آتے ۔ جو حلیہ آپ نے بتایا ہے ، وہ مجھے ان سکھ شرنارتھیوں کا لگتا ہے جنھیں حکومتِ ہند نے اس علاقے میں آباد کیا ہے ۔ یہ وہی لوگ ہو سکتے ہیں۔ بہر حال میں تحقیقات کروںگا۔
اس طرح ڈپٹی کمشنرصاحب نے ان لوگوں کو یقین دلایا کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جائے گی اور ملوث افراد کو قانون کی گرفت میں لے کر قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ ادھر یہ باتیں ہورہی تھیں اور ا دھر دوسرے کمرے میں محترمہ خورشید پلو اٹھا اٹھا کر اباجان اور ان کے ساتھیوں کو دعا یئںدے رہی تھیں۔ بقول ان کے ہر مرتبہ ان ہندوں کی حرکتوں سے تنگ آئے ہوئے مسلمان ان کے خلاف شکایت لے آتے تھے۔
آج پہلی مرتبہ یہ ہندو مسلمانوں کی شکایت لے کر آئے تھے۔
ادھر ہندو وفد رخصت ہوا اور ادھر اباجان اور ان کے ساتھیوں نے دونوںاشکبار میاں بیوی سے اجازت لی اور ڈھیروں دعائیں اپنے دامن میں سمیٹے حیدرآباد روانہ ہوئے۔
خاکسار تحریک کے کئی اصحاب اباجان کے گہرے دوست تھے اور ان کی دل سے عزت کرتے تھے ۔ وہ انھیں اپنے جلسوں میں خاص طور پر تقریر کے لیے دعوت دیا کرتے تھے۔ خاکساروں کے ایک جلسے میں اباجان نے حیدر آباد کی موجودہ حکومت کو بوجوہ آڑے ہاتھوں لیا اور وزیر اعظم صاحب جناب میر لائق علی کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوے کہا” میر لائق علی ! تم لائق نہیں ہو بلکہ نالائق ہو
جلسے سے فارغ ہوکر ابھی گھر بھی نہ پہنچنے پائے تھے کہ ’ گرفتا ر ہم ہوئے ‘کے مصداق دھر لیے گئے۔ پولیس نے فوراً پکڑ کر نقضِ امن کے الزام میں جیل پہنچادیا۔
جیل میں اس سیاسی قیدی کو اے کلاس دینے کے بجائے سی کلاس دی گئی اور اخلاقی قیدیوں کی طرح قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ گھر سے کھانا
منگوانے یا ملاقات جیسی تمام سہولیات سے محروم رکھا گیا۔ جیل میں پہنچتے ہی انھوں نے جو کپڑے زیب تن کیے ہوے تھے اتروا کر جیل کے
کپڑے پہنادیے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ تمام سامان بحقِ سرکار ضبط کرلیا گیا، یہاں تک کہ گردوں کی تکلیف سے بچنے کے لیے اباجان
نے جو چمڑے کی بیلٹ پہنی ہوئی تھی اسے بھی اتروالیا گیا کہ اجازت نہیں ہے۔
جیلر حیران تھا، اس نے کئی بار اباجان سے پوچھا کہ وہ کون ہیں ۔ کیا وہ کوئی بڑے سیاسی لیڈر ہیں جو انہیں اس قدر سخت قسم کی قیدِ تنہائی کا مستحق سمجھا گیا ہے۔ جواب نفی میں ملنے کے باوجود وہ حکم کا بندہ، اوپر سے ملے ہوئے احکامات بجا لایا اور یوں ابا جان کی قیدِ تنہائی کا آغاز ہوا۔
ابا جان نے مطالعے کے لیے کچھ کتابوں کا مطالبہ کیا لیکن وہ بھی مسترد کردیا گیا۔ یہ سیاسی قیدی اس قدر خطرناک تھا کہ اسے ہر قسم کی سہولیات سے محروم رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔
جیلر نے ابا جان کا صبر و استقامت کے ساتھ حالات کا سامنا کرنا دیکھا تو اسے یقین ہوگیا کہ ہو نہ ہو، یہ کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ اسی اثناءمیں ایک دن اسے انتہائی شدید سر درد ہوا تو اس نے اباجان سے اسکا ذکر کیا ۔ اباجان نے فوراً اسے اپنے دستِ خاص سے ایک مجرب و تیر بہدف تعویز لکھ کر دیا۔ اللہ کی کرنی اس جیلر کا سر درد ختم ہوگیا اور وہ اسی وقت سے اباجان کا مرید اور بے دام کا غلام ہوا۔ پھر کیا تھا ۔ جیلر کے گھر سے جو کھانا آیا کرتا تھا وہ اسے باصرار اباجان کو کھلاتا اور ان کے لئے آنے والے جیل کے کھانے کو خود زہر مار کرتا۔
اس جیلر نے ایک اور کام یہ کیا کہ ابا جان سے ان کتابوں کے نام لکھوالیے جو انھیں چاہیے تھیں اور ایک سپاہی کو خاص طور پر ان کے گھر بھیج کر کتابیں منگواکر اباجان کو مہیا کیں۔ پھر کیا تھا، اندھا کیا چاہے ، دو آنکھیں۔ ابا جان کو تنہائی میں کھانے کا آرام ہو ا اور کتابیں میسر آیئں تو انھوں نے اس صورتِ حال سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور اپنی من پسند کتابوں کا سکون سے مطالعہ کیا اور نوٹ بنایا کئے۔
میر لائق علی کی وزارت زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکی اور ہندوستان و ریاست حیدر آباد کی آزادی کے تقریباً ایک ہی سال بعد یعنی ۸۱ ستمبر ۸۴۹۱ءکو سردار والا بھائی پٹیل کی نگرانی میں پولیس ایکشن کے نام پر ہندوستان کی باقاعدہ فوج ”آپریشن پولو“ کرتی ہوئی حیدر آباد میں داخل ہوگئی۔رات کے تقریباً دس بجے ہوں گے کہ جیلر گھبرایا ہوا اباجان کے سیل میں داخل ہوا اور اباجان سے کہنے لگا۔
” مولوی صاحب! آپ ابھی فوراً یہاں سے چلے جائیے۔ آپ کی رہائی کے احکامات آچکے ہیں۔
ابا جان نے کہا۔” اس وقت رات کو میں کہاں جاں گا۔ اس وقت رہنے دیجئے “
لیکن آپ کی رہائی کے احکامات آچکے ہیں اور اب میں آپ کو یہاں پر مزید نہیں رکھ سکتا۔
لیکن اس وقت آدھی رات کوتو میں کہیں بھی نہیں جارہاہوں۔
اچھا تو پھر ٹھیک ہے۔ آپ رات بھر یہاں رہیئے اور صبح روانہ ہوجائیے۔

صبح ایک اور مسئلہ درپیش ہوا۔ اباجان نے ناشتہ کیے بغیر وہاں سے جانے سے صاف انکار کردیا۔ بے چارے جیلر نے ابا جان کے گھر ایک آدمی بھیج کر ناشتہ منگوایا اور یوں ابا جان نے سکون سے ڈٹ کر ناشتہ کیا ، اپنا سامان وصول کیا اورجیل سے رہا ہوکر باہر نکلے۔


باہر عجب حال تھا، ہر شخص ڈرا ڈرا سہماسہما سا نظر آیا۔ کوئی بھی آنکھیں ملا کر بات کرنا نہیں چاہ رہا تھا۔ یہ صورت ریاستِ حیدرآباد کے لیے نئی تھی۔ وہ شہر جہاں ہر شخص تلوار لگائے گھوما کرتا تھا، آج کسی شخص کی کمر میں تلوار نظر نہیں آرہی تھی۔ لوگوں کا لباس تک بدل گیا تھا، شیروانی اور ٹوپی غائب تھی۔ لوگ ابا جان کی کمر سے لٹکتی ہوئی تلوار کو کنکھیوں سے چوری چوری دیکھ کر فوراً ہی نظر ہٹا لیتے۔ ابا جان نے کئی رکشا والوں کو روکا لیکن وہ کنی کترا گئے۔ جو رکے انھوں نے اباجان کی تلوار کو دیکھتے ہی جانے سے صاف انکار کردیا۔ بالاآخر ایک ر کشے والے کو زبردستی پکڑ کر اباجان گھر کے قریب اترے اور قریبی پان کی دکان پر پہنچے تواصل صورتِ حال کا پتا چلا۔ ہندوستان سرکار نے راتوں رات حیدرآباد ریاست پر فوج کشی کی تھی اور آن کی آن میں پورے حیدرآباد پر قبضہ جما کر اسے اپنے اندر ضم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ ہرچند کہ نظام حیدرآباد آصف جاہ ہفتم میر عثمان علی خان اور تمام رضاکار ریاست حیدر آباد کا پاکستان سے الحاق یا کم از کم حیدرآباد کو ایک آزاد ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے لیکن ان کی ایک نہ چلی اور حیدرآباد جو1724ءسے ایک آزاد آصف جاہی ریاست کے طور پر موجود تھا ہندوستان کے توسیع پسندانہ عزائم کا بالآخر شکار ہوگیا۔

اباجان پیر صاحب کے کمپاونڈ میں اپنے گھر پہنچے ۔ ایک دن پہلے تک وہ ایک قیدی تھے، آج وہ ایک غلام ریاست کے نام نہاد ’آزاد‘شہری تھے ۔ ابا جان کے والدین کمپاونڈ کے باہر ایک گھر میں رہتے تھے۔اباجان نے اپنے والدین سے ملاقات کی اور پھر کمپانڈ میں اپنے گھر چلے آئے۔ دونوں چھوٹے بھائی سرور اور ہاشم، کمپاونڈ میں موجود مسجد ہی میں نماز پڑھنے آیا کرتے تھے۔ اباجان سے ملاقات کے بعد دونوں رات کو واپس اپنے گھر چلے گئے ، اس امید پر کہ کل صبح پھر وہ چھوٹے بھائی کو دیکھ سکیں گے۔

اگلے دن اباجان فجر کی نماز کے لیے اٹھے تو فضاءاور ہی تھی۔ کمپاونڈ کو چاروں طرف سے فوج نے گھیر لیا تھا۔ وہ خوش ہوئے کہ سرور اور ہاشم رات ہی کو واپس چلے گئے تھے، لیکن ان کی یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی اور سرور اور ہاشم دونوں دوڑتے ہوئے کمپاونڈ کے اندر داخل ہوئے۔ اباجان کے پوچھنے پر کہنے لگے۔

” باہر فوجی ہمیں اندر آنے سے روک رہے تھے۔ ہم نے انھیں کہہ دیا کہ مسجد میں نماز پڑھنا ہمارا حق ہے اور وہ ہمیں اس حق سے محروم نہیں کرسکتے۔

پھر انھوں نے کیا کہا؟

وہ ہمیں اندر آنے سے نہیں روک سکے ، اور کیا۔

نماز کے بعد گرفتاریاں شروع ہوئیں اور تمام لوگوں کو پکڑ کر جیل پہنچا دیا گیا۔اور یوں اباجان کی بیس ماہ طویل قید کا آغاز ہوا۔ قید میں اباجانکے ساتھ تمام اصحاب، ریاست حیدرآباد کے دسیوںرضاکار اور دونوں چھوٹے بھائی بھی شامل تھے۔ اس مرتبہ سب لوگوں کو ایک ہی کھلے وارڈ میں رکھا گیاتھا۔ یہ قید ایک انتہائی دلچسپ اور شرارتوں بھری قید ثابت ہوئی جس کا احوال قاری کو درج ذیل تفصیل سے معلوم ہوگا۔

اباجان کے پیر بھائیوں میں سے چار سو مرد گرفتار ہوئے۔ ان سب کو ایک ہی وارڈ میں رکھا گیا تھا، اور یہ خاص رعایت دی گئی کہ اس ایک وارڈ کے تمام قیدی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل سکتے تھے، انھیں اپنے سیل ہی تک محدود نہیں رکھا گیا تھا۔ یہ وارڈ جیل کی سی کلاس میں تھا۔ صرف چند لوگوں کو اے کلاس دی گئی تھی جن میں ان کے پیر صاحب یا وہ حضرات جو بی اے پاس تھے وغیرہ شامل تھے جوتعداد میں تقریباً دس تھے۔ اباجان کے ساتھ ان کے تحریکی ساتھیوں کے علاوہ دو ہزار کے لگ بھگ رضاکار بھی تھے۔ مذہبی لوگ ہونے کے ناطے ان سے جیل کی کوئی مشقت وغیرہ بھی نہ لی گئی اور نہ انھیں قیدِ تنہائی جیسی عقوبتیں دی گئیں۔

شروع شروع میں جو پہلا جیلر انھیں ملا وہ ذرا سخت قسم کا تھا۔جیل کا جوپہلا وارڈ انھیں نصیب ہوا، اس میں روشنی کا مناسب انتظام نہیں تھا، بہت کم بلب لگے ہوئے تھے اور ان کے فیوز ہوجانے پر تبدیل بھی نہ کیے جاتے۔ پڑھنے لکھنے کی آزادی حاصل نہیں تھی۔ یہ وارڈ جیل کےصدر دروازے کے قریب تھا اور یہاں کی کھڑکیوں سے صدر دروازہ نظر آتا تھا۔ ساتھیوں نے اس بد تمیز جیلر سے انتقام لینے کی ٹھانی۔ جوںہی وہ بے چارہ جیلر اپنی ڈیوٹی ختم کرکے گھر جانے کے لیے صدر دروازے سے باہر نکلتا، سب ساتھی کھڑکیوں پر جمع ہوجاتے اور اس پرجی بھر کر آوازے کستے ، لعن طعن کرتے اور اسے گالیوں سے نوازتے۔کچھ دن تو وہ یہ ہیت کذائی برداشت کرتا رہا،آخر کار جب نہ رہا گیا تو اس نے سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کرلیا۔ ان تمام شرارتی قیدیوں کا تبادلہ ایک دوسرے وا رڈ میں کردیا گیا ۔

قیدی بھی اس صورتحال کے لیے تیار تھے۔ انھوں نے نئے وارڈ میں پہنچتے ہی وہاں کے دو کے علاوہ تمام اچھے بلب نکال کر ایک سوکھے گٹر میں چھپادیے اور رات ہوتے ہی ہنگامہ کردیا کہ روشنی ہی نہیں ہے۔ اگلی صبح اس وارڈ میں کچھ نئے بلب لگا دئےے گئے۔ ایک دن اس طرح گزرا ۔ اگلے دن انھوں نے دواچھے بلبوں کی جگہ دو خراب بلب لگا دیے ۔ اسی طرح کرتے کرتے ان لوگوں کے خفیہ خزانے میں کئی اچھے بلب جمع ہوگئے۔ اب یوں ہوتا کہ دن کے وقت تو کسی بھی معائنے کے پیشِ نظر خراب بلب لگے ہوئے ہوتے اور رات کو جب وارڈ کو تالا لگا دیا جا تا تو ان لوگوں کی کارروایاں شروع ہوتیں، خراب بلبوں کی جگہ اچھے بلب خفیہ خزانے سے نکال کر لگا دئیے جاتے اور وارڈ میں گویادننکل آتا۔ اب ان کی ادبی اور تہذیبی سرگومیاں شروع ہوتیں۔ کہیں شطرنج اور چوسرکی محفل جمتی تو کہیں ادبی و سیاسی گفتگو کی بیٹھک ہوتی۔ اباجان چونکہ عربی ، فارسی اور انگریزی سمیت کئی زبانوں کے عالم تھے، انھوں نے زبان دانی اور درسِ قرآن کے سبق دینے شروع کردیئے جن میں ان کے دونوں چھو ٹے بھائیوں سرور ا ور ہاشم کے علاوہ کئی اور شاگرد موجود ہوتے۔ رفتہ رفتہ شاگردوں کی تعدادمیں اضافہ ہوتا چلا گیا، اوردرس و تدریس کا یہ سلسلہ ایک مستقل مدرسے کی شکل اختیار کرگیا۔

ادھر دن کے وقت ان قیدیوں نے ’بیکار مباش کچھ کیا کر‘ کے مصداق، کمپاؤنڈ میں کھیتی باڑی کا پروگرام بنایا اور آپس میں محتلف قطعے تقسیم کرکے ان میں سبزی اور دیگر اشیاءاور پھول دار بوٹے کاشت کرنے شروع کردیئے۔ آپس میں بہتر سبزی کاشت کرنے کا مقابلہ ہوتا اور اس کام کے لیے محتلف قسم کی ترکیبیں لڑائی جاتیں۔

سب سے بڑا مسئلہ کھاد کی عدم دستیابی کی صورت میں سامنے آیا۔پانی تو بہر طور دور سے بالٹیوں کے ذریعے لالا کر ڈالا جاسکتا تھا۔ ہر چند کہ سبزیوں اور پھولوں کی نہ صرف خاطر خواہ دیکھ بھال کی جاتی بلکہ ان کی نشو و نماءکے لیے دیگر جتن بھی کیے جاتے مگر کچھ خاطر خواہ نتیجہ نکلتاہوا نظر نہ آیا۔ جیلر سے کھاد کی درخواست کی گئی لیکن یہ درخواست کسی گونگی بہری بھینس کے سامنے بین بجانے کے مترادف ثابت ہوئی تو قیدی کونسل کا اجلاس بلایا گیا کھاد کی پیداوار اور دستیابی کے لیے متبادل ذرائع اختیار کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کیا گیا۔لیکن کوئی نتیجہ خیز بات پھر بھی سامنے نہ آسکی۔

رات آئی تو اباجان کے ایک بزرگ قسم کے ساتھی نے اپنے تیئں ایک فیصلہ کرلیا اور رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے باہر سے مٹی کاایک ٹھیکرا اٹھا کر لائے، منہ اور ہاتھوں پر کپڑا لپیٹ کر اس کے اوپر ٹاٹ کی تھیلی چڑھائی اور ایکشن کے لیے تیار ہو گئے۔لیٹرین کے اندر پہنچے اور مٹی کے ٹھیکرے کو بھر کر کیاریوں تک پہنچایاہی چاہتے تھے تھا کہ بدبو نے ارد گرد کے ساتھوں کا ناک میں دم کردیا اورساتھیوں کے شور مچانے پر انھیں اپنا مشن ادھورا ہی چھوڑکر باتھ روم بھاگنا پڑا۔ ہاتھ منہ دھوکر معصومانہ انداز میں باہر نکلے گویا کچھ ہوا ہی نہ تھا، لیکن ایک اور ساتھی ر وشن دین یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے انھوں نے بھرے بازار میں گویا بھانڈا پھوڑ دیا۔

” حضرات ! ایک ضروری اعلان سماعت فرمائیے۔“ اُنھوں نے ان بزرگ کی طرف دیکھتے ہوئے نہایت بلند آواز میں کہنا شروع کیا ہی تھا کہ وہ بزرگوار ان کا عندیا سمجھ گئے اور لٹھ لیکر ان کے پیچھے دوڑے۔ باقی لوگ جو بدبو سے ویسے ہی پریشان تھے یہ منظر دیکھ کر خوب محظوظ ہوئے لیکن بزرگوار کا غصہ کئی دن بعد ان کی سمجھ میں آیا جب روشن دین صاحب نے پٹتے ہوئے ان کا راز فاش کردیا۔

بزرگ ساتھی نے، گو روشن دین کو خوب پیٹا ،جی بھر کر پیٹااور اپنے دل کی بھڑاس نکالی لیکن ان کاپول کھل چکا تھا،اور یہ واقعہ آنے والے کئی دنوں تک ساتھیوں کے لئے دل لگی کا باعث بنا رہا۔
انھی دنوں قیدیوں کی طرف سے چوہوں کی اکثر شکایات سننے میں آرہی تھیں۔ لہٰذہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کافیصلہ کیا گیا ۔دن ہی دن میں وارڈ کی تمام آبی گزر گاہوں اور دیگر سوراخوں کا جائزہ لیا گیااور ان کے لئے مناسب رکاوٹیں تلاش کر کے رکھ لی گئیں۔ رات ہوتے ہی ان تمام سوراخوں کو نہایت احتیاط کے ساتھ بند کر دیا گیا۔تمام مجبور و مقہور قیدیوں نے ہاتھوں میں ڈنڈے، لکڑی کے ٹکڑے اور جوتے چپل وغیرہ سنبھال لیے اور پھر اسی احتیاط کے ساتھ ایک سوراخ کو کھولا گیا اور تمام لوگ الرٹ ہوگئے۔
کچھ ہی دیر میں ایک چوہا باہر سے اندر آیا ، ادھر ادھر گھوما کیا اور کچھ دیر بعد باہر چلا گیا۔ شکاری دم سادھے ہوے تیار کھڑے تھے لیکن ایک خاص حکمتِ عملی کے تحت اس اکیلے چوہے کو کچھ نہ کہا گیا۔ تھوڑی دیر میں وہ چوہا دلیرانا انداز میں دوبارہ اس سوراخ سے اندر داخل ہوا، اب اس چوہے کے پیچھے دوسرے چوہوں کی ایک لمبی قطار نظر آئی۔ان سب چوہوں کوبھی اندر آنے سے نہ روکا گیا۔جب ایک اچھی خاصی تعداد ان بد نصیب چوہوں کی اندر داخل ہوچکی تو اس واحد سوراخ کو بند کر دیا گیا اور شکاری اپنے اپنے ہتھیار سنبھالے ان چوہوں پر پل پڑے۔ اب کیا تھا۔ مار مار کر ان چوہوں کا بھرکس نکال دیا گیا اور ان سب چوہوں کی لاشیں پودوں کی کھاد میں استعمال کرنے کے لیے سنبھال لی گئیں۔اس رات وارڈ میں وہ دھما چوکڑی مچی کہ الامان و الحفیظ۔ اگلے دن صبح ہوتے ہی گارڈ فورا ًاندر داخل ہوئے اور ایک ایک
قیدی کا بغور معائنہ کرنے لگے۔ ان کے خیال میں رات اچھی خاصی سر پھٹول ہوئی تھی اور اس وقت وہ زخمیوں کو جمع کرنے کے لیے آئے
تھے۔ وہ زخمی قیدیوں کے بجائے مردہ چوہوں کی ایک اچھی خاصی بڑی تعداد دیکھ کر حیران رہ گئے اور بغیر کچھ کہے واپس چلے گئے۔
وہ دن ان قیدیوں کے لیے ایک بہت مصروف دن تھا۔ سارا دن سب مل کر کیاریوں کو کھودا کیے اور چوہوں کو دبایا کیے۔لگتا تھا کہ وہ ساری زندگی مالی کاکام ہی کرتے چلے آئے ہیں۔ دن ڈھلا تو کیاریاں ایک بار پھر سے صاف ستھری ہوچکی تھیں اور ان میں دور سے بالٹیوں کے ذریعے پانی بھی لاکر ڈالاگیاتھا۔
ان کی محنت رنگ لائی اور کچھ ہی دنوں میں کیاریاں رنگ برنگے پھولوں اور مزے مزے کی سبزیوں سے سج گیئں۔ جنگل میں منگل کا سا سماں تھا۔ جیلر اور گارڈز نے جو ساری زندگی قاتلوں چوروں اور عادی مجرموں کو ان وارڈوں میںاپنی قید کے دن گن گن کر گزارتے دیکھا تھا، کب اس طرح کے خوبصورت مناظر دیکھے تھے۔وہ اس باد بہاری سے ناآشنا تھے۔انھیں یہ سب کچھ بہت اچھا لگا۔ رفتہ رفتہ ان قیدیوں
کی طرف سے انھیں اطمینان ہوتا چلا گیا کہ یہ لوگ عادی مجرم ہرگز نہیں ہیں بلکہ سیاسی حالات کے پلٹا کھانے کی وجہ سے ان کال کوٹھریوں میں آن پڑے ہیں۔ انھیں ان سیدھے سادھے مذہبی لوگوں پر ترس آنے لگا اور یوں ان کی جیل کی زندگی نسبتاً آسان ہوتی چلی گئی۔
انھی دنوں انسپکٹر جیل خانہ جات اس جیل کے معائینے کے لئے تشریف لائے۔ہر وارڈ سے ایک ایک شخص کو چنا گیا تاکہ انسپکٹر صاحب اس سے انٹرویو کرسکیں۔ اس وارڈ سے’ قرعہ فال بنامِ منِ دیوانا زدند‘یعنی ساتھیوں کے مشورے کے ساتھ اباجان کے نام نکلا۔اباجان نے پہلے ہی سے اپنے تمام ساتھیوں کو اسپیشل ھدایات دیدیں تاکہ معائنے کے وقت کام آوے اور خود کشاں کشاں ایک گارڈ کی معیت میں انسپکٹر صاحب کے حضور میں پہنچے۔
انسپکٹر نے سلام کلام کے بعد طبیعت پوچھی اور پھر اس رسمی گفتگو کے بعد بر سرِ مطلب آیا اور اباجان سے ان کے اور انکے حوالاتی ساتھیوں کے ماضی سے متعلق سوالات کرنے شروع کیے۔ جوابات پہلے ہی سے تیار تھے۔ اباجان نے اپنے تبلیغی مشن کو دل کھول کر بیان کیا اور بڑھ چڑھ کر اسکی وکالت کی۔ اسلحہ کی نمائش، تخریب کاری، ہلڑبازی، قتل و غارت گری ؟ایں چہ معنی دارد؟ بقول شاعر
عشق کی بات بیسوا جانیں
ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں
اباجان نے اس بات پر زور دیا کہ وہ سب لوگ ایک اسلامی تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا کام لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیناہے۔ بس اور کیا۔
معائنے کے لیے انسپکٹر کے ساتھ اپنے وارڈ میں پہنچے جہاں پر ایک طرف کچھ ساتھی شطرنج اور چوسر کی بازی لگائے ہوئے تھے تو کچھ لوگ دوسری طرف فرشی نشستوں پر بیٹھے ، موٹی موٹی کتابیں درمیان میں رکھے ہوئے ، دینی و تہذیبی قسم کے مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔ اُدھر تیسری طرف اباجان کا لگایا ہوا مدرسہ اپنی آن بان کے ساتھ جاری و ساری تھا۔
انسپکٹر اس مظاہرے سے بہت مرعوب ہوا ، ادھر وہ ان قیدیوں کے لگائے ہوئے باغ،خوشنماسبزیوں اوررنگ برنگے پھولوں سے لدی ہوئی کیاریوںکو بھی دیکھ چکا تھا۔ اس نے خاطر خواہ اپنی سفارشات مرتب کیں اور ان میں لکھا کہ یہ سب سیدھے سادھے قسم کے، مذہبی جنونی
لوگ ہیں جن کا بادی النظر میںاخلاقی جرائم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رہی ارد گرد کے علاقوں کی یہ شکایات کی یہ لوگ ان پر حملوں میں ملوث ہیں تو اس بارے میں پولیس کی تفتیش جاری ہے اور اس کے مکمل ہونے پر ہی کوئی کارروائی کی جائےگی۔اس اثناءمیں یہ لوگ شریف قسم کے پر امن شہری ثابت ہورہے ہیں، جن کے بارے میں حکومت کی طرف سے نرم رویہ اختیار کیا جانا چاہیئے۔
ان سفارشات کو بالاآخر جسٹس پنٹو نے درخور اعتناءجانا اوران قیدیوں کے متعلق فیصلہ سنایا کہ ان کے اچھے رویہ کے نتیجے کے طور پر ان لوگوں کے ساتھ بہتر برتاکیا جائے، انھیں کھانے پینے رہنے اور مطالعہ وغیرہ کے لئے بہتر ماحول مہیا کیا جائے۔ ساٹھ سال کی عمر تک کے قیدیوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔ ان کے علاوہ جن قیدیوں پر فوجداری مقدمات نہیں ہیں انھیں بھی جلد از جلد رہا کرنے کے انتظامات کئے جائیں۔
جسٹس پنٹو کے احکامات پر فی الفور عمل کیا گیا اور نتیجتاًقیدیوں کو کھانے کے لئے بہتر ا نتظام کیا گیا۔ انھیں مفت چائے کی پتی، خشک دودھ اور چینی وغیرہ فراہم کی گیئں تاکہ وہ اپنی بیرک ہی میں چائے بنا سکیں۔ پڑھنے کے لیے قیدیوں کو کتابیں فراہم کی گئیں اور ان کی کھیتی باڑی کے کھاد بھی مہیا کی گئی۔ یہاںتک کہ ان قیدیوں کو اپنی اگائی ہوئی سبزیاں پکانے اور کھانے کی بھی اجازت دیدی گئی۔ادھر قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی بھی شروع ہوئی۔
اباجان اور ان کے ساتھیوں پر سرحدی علاقے میں لوٹ مار اور قتل وغارت گری کا مقدمہ قائم تھا، لہذہ ان کی رہائی خارج از امکان تھی۔ انھی دنوں پولیس نے ان قیدیوں کی شناختی پریڈ کروائی۔نانا پٹیل کے گاںمیںحملے کے وقت گھر میں موجود ایک مرہٹی لڑکی نے ان ڈاکوں کو بہت اچھی طرح سے دیکھا تھا اور وہ ہی انھیں پہچان سکتی تھی، لہٰذہ اس گاں سے اس لڑکی کو بلا کر ان قیدیوں کا سامنا کروایا گیا۔
یہ وقت بہت اضطراب کا تھا۔ اباجان کو یقین تھا کہ وہ لڑکی انھیں ضرور پہچان لے گی۔ جب آمنا سامنا ہوا تو اس کی آنکھوں میں شناسائی کی جھلک بھی نمایاں تھی۔ اس نے انھیں پہچان لیا تھا اور عین اس وقت جب اباجان کو یقین ہوگیا کہ اب وہ انھیں پہچان لینے کا اعلان کرے گی، اس نے پیچھے مڑکر کہا
” نہیں ! یہ وہ نہیں ہیں
تین مرتبہ شناختی پریڈ ہوئی اور تینوں مرتبہ اس نے اباجان کو پہچاننے سے صاف انکار کردیا۔ یہ یقیناً اس احسان کا بدلہ تھا جو اباجان نے اس اس کی جان بخشی کرتے ہوئے اس پر کیا تھا۔اس لڑکی نے یقیناًاحسان کا پاس رکھاتھا، وہ کیسے کہہ دیتی کہ اس رات اس کا بھائی اسکے گھر آیا تھا اور اسکی اور اسکے بچے کی جان بخشی کرتے ہوئے انھیں تسلیاں دی تھیں ۔انھیں دلاسا دیا تھا کہ وہ محفوظ ہیں اور انھیں کچھ نہیں ہوگا۔کس طرح وہ جانتے بوجھتے ہوئے اپنے بھائی کو موت کے منہ میںدھکیل دیتی۔ اس نے وہی کیا جو اسے کرنا تھا۔ اس نے صاف صاف جھوٹ بول کر اپنے احسان کا بدلہ چکا دیا ۔اباجان اور ان کے ساتھی موت کے منہ سے نکل آئے تھے۔

فسانہ آزاد :: باب ششم:: او غافِل افغان

باب ششم۔فسانہ آزاد
او غافل افغان
محمد خلیل الر حمٰن

موجودہ پاکستان اور افغانستان کے قبائیلی علاقے یاغستان، باجوڑ ، ڈبراور خار وغیرہ اباجان کے لیے ایک دوسرے گھر کی حیثیت رکھتے تھے، جہاں پر اباجان نے ۱۹۴۰ء سے جانا شروع کیا اور ۱۹۵۵ءتک جاتے رہے۔ ۱۹۵۰ءمیں ہندوستان سے پاکستان پہنچے اور پشاور میں قیام کیا تو یہاں سے بھی علاقہ غیر کے کئی چکر لگائے۔یاغستان ، ڈبر اورخار میں تویہ وہاں کے سرداروں، نوابوں اور خانوں کے خاص مہمان بن کر رہتے تھے۔

گو ہندوستان پر مسلمانوں کاسب سے پہلا حملہ اور آمد تو محمد بن قاسم نے سندھ کی طرف سے کیا تھا لیکن اس کے بعد کے تمام حملوں میں مسلمان حملہ آور بادشاہوں یا اسلام کی تبلیغ کے لیے آنے والے صوفیوں اور دیگر بزرگانِ دین کا واحدراستہ افغانستان ہی رہا، لہٰذہ مغلوں کی شکست اور انگریزوں کی آمد کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد امید افغانستان کی طرف سے آنے والے مسلمانوں سے بندھی رہی تاکہ وہ آکر انھیں ان انگریزوں اور ہندو ¾وں سے نجات دلا سکیں۔ اباجان کے پیر صاحب نے بھی کچھ پیشن گوئیاں کر کھی تھیں اور ان پیشن گوئیوں کے مطابق اس باربھی ہندوستان کو فتح کرنے والا لشکر افغانستان کی جانب ہی سے آنے والا تھا، جسکی کمانڈ پیر صاحب ہی کرنے والے تھے ، اور نتیجتاً تمام ہندوستان مسلمان ہونے والا تھا۔مسلمانوں اور خاص طور پر اسلامی مجاہدوں کو ترپتی اور ہمپی کا والی بھنڈار کے مندروں سے دستیاب ہونے والاسارا سونا اور دیگر قیمتی نوادرات مالِ غنیمت میں ملنے والے تھے، لہٰذہ ان کے تمام مریدوں کی خاص توجہ کا مرکز یہ سرحدی علاقہ ہی تھا جہاں سے مجاہدوں کی آمد متوقع تھی۔ وہ اس علاقے میں پہنچ کر لوگوں کوخوابِ غفلت سے جگانا اور جہاد کے لیے تیار کرنا اپنا فرضِ عین تصور کرتے تھے۔اکثر و بیشتر ان مبلغین کی جماعت حیدرآباد سے ان علاقوں میں پہنچی ہوئی ہوتی تھی اور ان سوئے ہوئے افغانوں کو جگانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہوتی تھی۔

اباجان باسم سے پیر صاحب کے پاس حیدرآباد پہنچے اور وہاں رہائش اختیار کی تو ان کے والدین اس وقت باسم ہی میں تھے لہٰذہ اباجان کے لیے حیدرآباد میں قیام یا ہندوستان کے کسی اور علاقے میں قیام ایک ہی بات تھی۔انھیں سرحد کچھ اتنا پسند آیا کہ انھوں نے اس علاقے کے بہتیرے چکر لگائے اور ہر مرتبہ کئی کئی ماہ وہاں قیام کیا۔ وہاں قیام کے دوران انھوں نے نہ صرف پشتو سیکھی اور اس میں بول چال میں مہارت حاصل کی بلکہ ان کا رہن سہن اور کپڑے پہننے کا انداز بھی اپنا لیا اود دیگر یہ کہ ان علاقوں کے علماءکے ساتھ بیٹھ کر ان کی شاگردی اختیار کی اورنہ صرف دینی مسائل اور علومِ دینیہ میں مہارت حاصل کی بلکہ اسی اثناءمیں ان استادوں سے بہترین عربی اور فارسی بھی سیکھ لی۔

علاقائی زبان سیکھنے اور وہاں کی بول چال، رہن سہن اور طورطریقے اختیار کرنے اور پٹھانوں کی نفسیات کا قریب سے مطالعہ کرنے کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں پر اباجان نے بہت سے دوست بنا لیے اور ان میں گھل مل گئے۔اباجان کے ان قابلِ قدر دوستوں میں مولوی امیر الدین صاحب، میرا جان سیال صاحب، ڈبر کے نواب صاحب اور خار کے نواب صاحب خاص طور پر شامل ہیں۔

بھابی ( زوجہ امین بھائی مرحوم ) فرماتی ہیں کہ ایک دن اباجان نے انھیں اس علاقے میں اپنے ساتھ گزرا ہوا ایک عجیب و غریب واقعہ سنایا۔ کہنے لگے۔

” بہو بیگم! اس علاقے میں ایک مرتبہ میرے ساتھ ایک بہت عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ایک دن میں اپنے بنائے ہوے ان نئے پٹھان دوستوں میں سے ایک کے ساتھ بیٹھا تھاا ور اس علاقے کے پہاڑوں اور اس میں سے نکلنے والے قیمتی پتھروں عقیق یاقوت اور لاجورد وغیرہ کے متعلق بات چیت ہو رہی تھی ۔ یہ شخص جو کچھ مخبوط الحواس سا دکھائی دیتا تھا ، گاؤں والوں میں لیونئی ( یعنی دیوانہ) کے نام سے مشہور تھا ۔ ا س شخص نے دورانِ گفتگو ایک موقعے پراپنا ذہن بناتے ہوئے کچھ سوچا اور پھراچانک مجھے مخاطب کیا اور کہنے لگا کہ وہ مجھے ایک نرالی شے دکھانا چاہتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور اپنے گھر کی جانب چل دیا ، کچھ دیر بعد وہ اپنے گھر سے واپس پہنچا تو اس کے ہاتھوں میں ایک گٹھری تھی جسے اس نے میرے سامنے بہت احتیاط سے کھولا تو اس میں قیمتی یاقوت کے کئی بڑے بڑے ٹکڑے موجود تھے۔ اب اس نے ان ٹکڑوں کو آپس میں جوڑنا شروع کیا ۔ جب وہ انھیں جوڑچکا تو اس نے یہ شاہکار میرے سامنے کردیا۔ میں اس پتھر کو دیکھ کر حیران رہ گیا جو دراصل ایک نوزائیدہ بچے کی لاش تھی جو ہزاروں سال پتھروں میں دبے رہنے کی وجہ سے خود بھی نادر الوجود قیمتی یاقوت میں تبدیل ہوگئی تھی۔“

اباجان نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس لاش کے ٹکڑے دراصل مکمل انسانی اعضاءتھے جس طرح سائنسی ماڈل میں ہوتے ہیں اور اس بچے کے جسم میں اسی طرح فٹ ہورہے تھے ۔جب اباجان اچھی طرح اس لاش کو دیکھ چکے تو اس مخبوط الحواس شخص نے اطمینان کے ساتھ اپنی گٹھری کو سمیٹا اور گویا سلسلہ گفتگو ختم کرتے ہوئے وہاں سے اپنے گھر روانہ ہوگیا۔ یہ ایک ایسا نظارہ تھا جسے دیکھ کر اباجان حیران رہ گئے اور کچھ لمحوں کے لیے حواس باختہ ہوکر اس شخص کو جاتے ہوئے دیکھا کیے جو ان کی حیرت سے بے نیاز وہاں سے جاچکا تھا۔

یہ علاقے ان دنوں سرحدی گاندھی جناب عبدالغفار خان صاحب کے زیر اثر انڈین نیشنل کانگریس کا گڑھ سمجھے جاتے تھے اور وہاں پر آل انڈیا مسلم لیگ کی دال گلنی مشکل تھی۔وہاں پر ہر طرف پختونستان کا بول بالا تھا۔ ادھر اباجان اپنے خیالات کے اعتبار سے پکے مسلم لیگی تھے اور جہاں اسلام کی تبلیغ اپنی زندگی کا نصب العین بنائے ہوئے تھے وہیں تحریکِ پاکستان کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ اس سلسلے میں سرحد کے جس علاقے میں بھی جاتے، تحریکِ پاکستان کے لیے اپنے طور پر کام کرنے سے نہ چوکتے۔ گو انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیارتو نہیں کی، لیکن قائدِ اعظم کے ایک ادنیٰ کارکن کے طور پر کام کرنے کو ہمیشہ باعثِ افتخار سمجھا۔

چونکہ ان علاقوں میں اباجان کے اسلامی تشخص اور علمی و دینی لحاظ سے ان کے اعلیٰ مرتبے کی وجہ سے ان کی بڑی عزت کی جاتی اور کہیں بھی جانے پر پابندی یا روک ٹوک نہیں تھی، بلکہ ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے اور علاقے کے نوابوں کے مہمان خانے میں قیام ہوتا، لہٰذہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے کام کرنا بھی ان کے لیے نسبتاً آسان ہوتا۔مہمان خانے میں ان کے علاوہ اور بھی مہمان ٹھہرتے تھے جن سے اباجان کی ملاقات رہتی اور اباجان چپکے چپکے ان لوگوں تک مسلم لیگ کا پیغام پہنچاتے رہتے ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے، اباجان اپنے اسی قسم کے ایک دورے میں پچھلے کئی ماہ سے ریاست خار کے نواب صاحب کے مہمان خانے میں ٹھہرے ہوئے تھے اور اپنا تبلیغی مشن جاری رکھے ہوئے تھے کہ ایک دن انھیں مہمان خانے میں کچھ خاص قسم کی ہلچل کا اندازہ ہوا۔ یکبارگی بہت سارے مہمانانِ گرامی تشریف لے آئے۔ پتہ چلا کہ علاقے میں انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے خاص طور پر جرگہ بلایا گیا ہے۔اباجان خاموشی کے ساتھ یہ سب کچھ دیکھتے رہے اور اس دوران میں انھوں نے سب سے معمر مہمان کو تاڑ لیا۔رات آئی تو اباجان نے انھی بزرگ مہمان کے بستر کے ساتھ ڈیرہ جمالیا اور ان حضرت کے ساتھ علیک سلیک کے بعد باتیں شروع کیں۔

اباجان ساری رات ان بزرگ کے ساتھ کھسر پسر کرتے رہے اور اس دوران میں انھوں نے ان بزگوار پر واضح کر دیا کہ انڈین نیشنل کانگریس کتنی ہی اچھی جماعت سہی مگر اس کے کرتا دھرتا گاندھی جی ہیں اور گاندھی جی ایک متعصب قسم کے ہندو ہیں جب کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سب سے بڑے اور مرکزی لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح ہیں جو کتنے ہی برے سہی مگر ایک مسلمان ہیں اور ایک مسلمان ایک ہندو سے لاکھ درجے بہتر ہوتا ہے، لہٰذہ تمام ہندوستان کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایک ہندو کو ایک مسلمان پر ترجیح نہ دیں بلکہ ایک ہندو کے مقابلے میں ایک مسلمان کا ساتھ دیں ۔ بات سمجھ میں آنے والی تھی لہٰذہ انھوں نے اسے تسلیم کیا۔ ادھر انھیں پکا کرنے کے بعد ہی اباجان سوئے، لیکن سکون کی نیند کہاں۔ انھیں تو اس تمام کارروائی اور نفسیاتی طور پر ان بزرگ کی برین واشنگ کے باوجود ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا کہ جانے کل کیا ہو۔ پاکستان مسلم لیگ اور خود پاکستان کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا تھا ایسے میں انھیں سکون کی نیند بھلا کیسے آتی۔ وہ رات انھوں نے خدا خدا کرکے آنکھوں میں کاٹ دی۔ صبح ہوئی اور فجر کی نماز کے بعد جرگہ کی کارروائی شروع ہوئی تو اباجان بھی دور ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئے۔ بھس میں چنگاری تو وہ لگا ہی چکے تھے ، اب انھیں نتیجے کا انتظار تھا۔ تقریریں شروع ہوئیں تویکے بعد دیگرے کئی سرداروں اور سربرآوردہ اشخاص نے اپنی تقریروں میں کھل کر انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت میں بیان دیئے۔

آخر میں ان بزرگ کی باری آئی۔ بڑی مشکل سے وہ کھڑے ہوئے اور ایک نہایت دھیمی آواز اور پر اثر انداز میں یوںگویا ہوئے۔ 

” گاندھی مسلمان ہے یا ہندو ہے؟“ لوگوں نے جواباً کہا کہ وہ ہندو ہے۔ آپ پھر یوں گویا ہوئے۔

” محمد علی جناح مسلمان ہے یا ہندو ہے؟“ لوگوں نے جو ان کے اس اندازِ تخاطب سے بہت کچھ سمجھ چکے تھے ، مجبوراً جوب دیا کہ وہ ایک مسلمان ہیں۔

” تو پھر ایک مسلمان ایک ہندو سے لاکھ درجے بہتر ہے اور ہم ایک مسلمان کے مقابلے میں ایک ہندو کی کبھی بھی حمایت نہیں کر سکتے۔“

اس مختصر تقریرکے بعد وہ بیٹھ گئے۔دیگر لوگوں کی کئی گھنٹوں پر مشتمل تقریروں کا اثر منٹوں میں زایل ہوچکا تھا۔ اس معمر ترین بزرگ کی مخالفت کرنے کی ہمت کسی میں نہ تھی۔گومحفل پر سناٹا چھایا ہوا تھالیکن لوگوں کے دلوں میں ایک طوفان برپا تھا۔اباجان کی اس چھوٹی سی شرارت نے انتہائی سوچ بچار کے بعد بلائے ہوئے اس جرگے کا ستیاناس کردیا تھا۔

ادھر نواب صاحب خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ اس حادثے کا ذمہ دار کون ہے۔ کس شخص میں اتنی جرات اور اتنی سمجھ تھی کہ وہ سوچ سمجھ کر ان بزرگ کے ذہن میں یہ باتیں ڈال سکتا تھا۔ انھوں نے اباجان کو بلایا اورمختصر انداز میں اپنے تاثرات کا اظہارکچھ یوں کیا۔

” مولوی صاحب آپ نے یہ اچھا نہیں کیا“ ۔

بعد میں کھانے پر نواب صاحب نے اباجان کو مدعو نہیں کیا اور اس طرح گویا اپنی انتہائی ناراضگی کا بھی بر ملا اظہاربھی کردیا۔ ایک مہمان کی اس سے زیادہ بے عزتی ممکن نہیں ہوتی کہ میزبان اسے اپنے دستر خوان پر نہ بلائے۔ اباجان نے اپنا بوریا بستر سنبھالا اور بغیر میزبان سے ملاقات کیے وہاں سے نکل آئے، کبھی نہ واپس لوٹنے کے لیے۔ اس واقعے کے بعد اباجان نے زندگی بھر خار کے نواب صاحب سے ملاقات نہیں کی۔

مولوی امیر الدین صاحب بھی اباجان کے روحانی استادوں میں سے تھے جن سے اباجان نے اکتسابِ علم کیا۔ مولوی صاحب ان تبلیغیوں کی جد و جہد میں بھی ان کے ہم خیال تھے اور وقتاً فوقتاً انھیں اپنے مفید و قیمتی مشوروں سے نوازتے رہتے تھے۔ ادھر صورتحال یہ نظر آرہی تھی کہ ایک طرف تو انگریز بہادر سے چھٹکارہ حاصل کرنا مشکل نظر آرہا تھا اور دوسری طرف ہندو جو مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور حکومت کا ڈسا ہوا تھا اور اب پورے ہندوستان پر بلاشرکتِ غیرے حکومت کرنا چاہتا تھا۔

پٹھان بھی اپنے طور پر کچھ تیاریوں میں مصروف تھے اور انھوں نے امیر الدین صاحب کے مشورے سے علاقے کے عمائدین اور سرداروں کا ایک وفد ترتیب دیا جو ہندوستان بھر میں دورے کرکے جہاد کے لئے روپے پیسے اکٹھا کرنا چاہتا تھا۔ اباجان چونکہ پشتو بھی بہت اچھی طرح بول اور سمجھ سکتے تھے لہٰذہ ریاست حیدرآباد کے سفر میں ترجمان کا کام ان کے سپرد کیا گیا۔

وفد ہندوستان کی ریاست حیدرآباد پہنچا اور اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان صاحب سے ملاقات کی ٹھہری۔ ملااقات کے لیے پہلے سے وقت لیا گیا اور اس طرح ریاست حیدرآباد کے آخری فرمانروا میر عثمان علی خان نے شمال مغربی سرحدی صوبہ سے آئے ہوئے اس وفد کو شرفِ باریابی بخشا۔ وفدکو نظام حیدرآباد آصف جاہ ہفتم میر عثمان علی خانصاحب کے ڈرائینگ روم میں بٹھایا گیا اورانھوں نے ادب سے بیٹھ کر اعلیٰ حضرت کا انتظار شروع کیا۔ڈرائینگ روم پرانے دور کے فرنیچر سے بھرا ہوا تھاجو آصف جاہی جاہ حشمت اور عظمت کے منہ بولتے ثبوت کے طور پر آج بھی موجود تھا لیکن اس وقت اس فرنیچر پر منوں ٹنوں دھول مٹی جمع تھے اور یہ حال سرحد سے آئے ہوئے وفد نے بھی دیکھا اور ناک بھوں چڑھائی۔

اعلیٰ حضرت ڈرایئنگ روم میں جلوہ افرز ہوئے تو اس حال میں کہ انتہائی سادہ لباس زیبَ تن کیا ہوا تھا۔ ویسے بھی اعلیٰ حضرت کی کنجوسی مشہور تھی اور ان کی یہ شہرت وفد کے کانوں تک بھی پہنچ چکی تھی۔ جب سب حاضرین محفل اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تو باقاعدہ بات چیت شروع کرنے سے پہلے وفد کے سربراہ نے پشتو میں اباجان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حالات کے پیشِ نظر انھیں تو یہ لگتا ہے کہ اس ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ یہ بڈھا انھیں کوئی دیالو قسم کا نہیں لگتا۔

اعلیٰ حضرت جنھیں پشتو نہیں آتی تھی انھوںنے دلچسپی لیتے ہوئے وفد کے سربراہ کی طرف دیکھا تاکہ معلوم کریں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ادھر اباجان نے فوراً بات بنائی اور سردار کی طرف سے اچھی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

اعلیٰ حضرت نے اس پر خوشی کا اظہار فرمایا اور معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔سربراہ نے اب اپنی تقریر شروع کی اور موجودہ حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے جہاد کی ضرورت پر روشنی ڈالی اور اس سلسلے میں اپنے محدود وسائل کا حال بیان کیا اور اعلیٰ حضرت سے مالی امداد کی درخواست کی۔ اباجان نے فوراً کسی ماہر ترجمان کی طرح اس پشتو تقریر کا اردو ترجمہ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں پیش کردیا۔

اعلیٰ حضرت نے جواب میں کہا کہ اگرچہ موجودہ حالات میں خود ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں تاہم اس وہ اس درخواست کو رد بھی نہیں کرسکتے اس لیے کہ ان کے یہ مہمان بڑی دور سے چل کر ان کے پاس پہنچے ہیں، لہٰذہ سردست وہ انھیں صرف ایک لاکھ روپے ہی دے سکتے ہیں۔قارئین کرام کی توجہ کے لیے عرض ہے کہ یہ آج سے کوئی لگ بھگ ستر سال پہلے کا واقعہ ہے جس وقت ایک لاکھ روپے خاصی اہمیت رکھتے تھے۔ 

یہ سننا تھا کہ وفد کے سربراہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انھوں نے فرطِ جذبات میں اعلیٰ حضرت کے ہاتھ چوم لیے اور معافی کے طلبگار ہوئے کہ ملاقات کے شروع میں انھوں نے کچھ گستاخانہ کلمات کہے۔اباجان نے اس کا ترجمہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت کاشکریہ ادا کیا اور ان کی بہتر صحت کے دعا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اعلیٰ حضرت نے ان حضرات کی تشریف آوری کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کیا اور اس طرح سے یہ ملاقات اپنے انجام کو پہنچی۔

ادھر پٹھان گروپ تو میر عثمان علی خان سے خوش و خرم واپس روانہ ہوا ادھر اباجان اور ان کے گروہ نے بھی اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں۔ ان کی جماعت کا اصل مقصدہندوستان کے تمام ہندووﺅں کو مسلمان کرنا تھا اور اس کے دو طریقے نظر آتے تھے۔ ایک تو تبلیغ کے اس کام کے ذریعے سے جو اباجان اور ان کے ساتھیوں نے ایک عرصے سے جاری رکھا ہوا تھا اور دوسرا جہاد کا راستہ تھا۔ قومی اور بین الاقوامی حالات کو دیکھ کر یہی اندازہ ہورہا تھا کہ جہاد کا وقت قریب سے قریب تر آتا چلا جارہا ہے۔ اس کے لیے ایک طرف تو مسلمانوں یعنی بر صغیر کے مسلمانوں کو عمومی طور پر اور افغانوں کو خاص طور پر خوابِ غفلت سے جگانا، انھیںجذبہ جہاد سے سرشار کرنااور ایک لشکرِ عظیم تیار کرنا تھا جو ایک طرف تو انگریزوں کا مقابلا کرسکے اور دوسری طرف ہندوﺅں کو مات دیکرپورے ہندوستان میں غلبہ اسلام کی راہ ہموار کرسکے۔اس کے علاوہ اس عظیم لشکرکی تیاری اور اس کے لیے اسلحہ کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج تھا جو اس وقت ان مجاہدوں کو درپیش تھا۔ اباجان نے مولوی امیر الدین صاحب کے ساتھ مل کراس سرحدی علاقے میں اسلحے کا ایک کارخانہ لگانے کا پلان بنایا۔مولوی امیر الدین کے ذہنِ رسا کا بنایا ہوا یہ پلان بہت خوب تھا لیکن اس میں ایک معمولی سا سقم تھا۔ اس بڑے پیمانے پر اسلحہ کے کارخانے کے لیے ایک اچھی خاصی رقم درکار تھی اور رقم اس وقت ان کے پاس نہیں تھی۔ 

اباجان کے ذہنِ رسا نے بھی اس وقت اپنا کام دکھایا اور وہ بہت دور کی کوڑی لائے۔ پیر صاحب اور اباجان کی جماعت کے دیگر ساتھی ایک عرصے سے جہاد کی تیاری کے لیے چندہ مانگ رہے تھے اور اب تک پیر صاحب کے پاس ایک اچھی خاصی رقم جمع ہوچکی ہوگی۔ انھوں نے فنڈز کی فراہمی کاکام اپنے ذمے لے لیا اور اسی وقت بیٹھ کر پیر صاحب کو ایک لمبا چوڑا خط لکھا اور اس میں اسلحہ کی فراہمی کی شدید ضرورت کے پیش نظر قبایئلی علاقے میں اسلحہ کی فیکٹری کے قیام پر زور دیتے ہوئے اس کے لیے رقم کی ضرورت کا تذکرہ کیا اور پیر صاحب پر زور دیا کہ اس مد میں جمع کیے ہوئے روپے کسی ساتھی کے ہمراہ وہاں بھجوادیے جائیں تاکہ اس عظیم کام کی ابتداءکی جاسکے۔

یہ خط لکھ کر اباجان نے اپنے ایک تحریکی ساتھی کو چنا اور ان کی معرفت پیر صاحب تک وہ انتہائی اہم خط بھجوا دیا اور خود اس عرصے میں انتظار اور دیگر کاموں کی تیاری میں لگ گئے۔ ان کی خیال میں پیر صاحب جو خود اپنی کی ہوئی پیشن گوئیوں کے مطابق تمام ہندوستان کے مسلمان ہونے اور اپنے ہاتھوں فتح ہونے کے ایک عرصے سے انتظار میں تھے یہ سنہری موقع دیکھتے ہی خوشی سے جھوم اٹھیں گے اور فورا ً ہی فنڈز بھجوا کر اسلحہ کے اس کارخانے کی پہلی کھیپ کا انتظار کریں گے۔

پیر صاحب کا جواب آنے میں کافی تاخیر ہوئی تو اباجان کا ماتھا ٹھنکا لیکن پھر بھی انھوں نے حسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے اسے معمول کی انتظامی تاخیر سمجھا اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔آخر کار کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اورکوئی ڈھائی تین ماہ بعد اباجان کے ایک ساتھی پیر صاحب کا جواب لیکر حیدرآباد سے واپس پہنچ گئے۔

اباجان نے فوراً ان صاحب سے حال احوال پوچھا تو انھوں نے پیر صاحب کی تازہ چھپی ہوئی کتاب ” امام الجہاد“ کی کئی کاپیاں اباجان کی خدمت میں پیش کیں اور ساتھ ہی یہ کہتے ہوئے کہ جہاد کے لئے جمع کیے ہوئے پیسوں سے پیر صاحب کی اسی مقصد سے لکھی ہوئی کتاب کی اشاعت ممکن ہوپائی ہے لہٰذہ انھوں نے سردست اس معرکتہ الآراءکتاب کی چند کاپیاں اور چھ سو روپے بھجوائے ہیں اور ہدایت کی ہے کہ اس کتاب کی مدد سے مقامی لوگوں کو خوابِ غفلت سے جگا کر ان سے چندہ وصول کیا جائے تاکہ وہ اس مد میں استعمال ہوسکے۔

اباجان کے تو سر سے لگی ہے اور تلوؤں سے بجھی۔ ان کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک رنگ جاتا تھا۔ انھوں نے انتہائی غصے کی حالت میں وہ چھ سو روپے اٹھا کر پھینک دیئے جو ان کے ساتھی نے موقع غنیمت جان کر فوراً اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیے۔پھر اباجان نے اسی وقت پیر صاحب کو ایک خط لکھا اور ان کو ” کاغذی امام الجہاد “ قرار دیتے ہوئے انھیں آگاہ کیا کہ تیر و تلوار سے جہاد ان کے بس کی بات نہیں ہے اور ان سے استدعا کی کہ وہ جہاد وغیرہ کا خیال دل سے بالکل نکال دیں ۔آخر میں دعا کی کہ اللہ ان کے اور اباجان کے حال پر رحم فرمائے۔

کہتے ہیں کہ جب یہ خط ان کے پیر صاحب کو ملا تو انھوں نے یہ خاص طور پر اپنے مریدوں کو پڑھوایا کہ دیکھئے ایسے بھی مرید ہوتے ہیں جو اپنے پیر کو کاغذی امام الجہاد لکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔انھوں نے یہ خط انتہائی احتیاط سے اپنی دراز میں سنبھال کر رکھ لیا تا کہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔

بہرحال قادیانیت کے مسئلے کے بعد اس واقعے سے ایک طرف تو اباجان پر اپنے پیر کی مزید کرامات ظاہر ہوئیں اور دوسری طرف پیر صاحب کے تئیں خود ان کے اس خیال کو بھی مزید تقویت ملی کہ اباجان چونکہ گاؤں کے رہنے والے ایک لٹھ مار قسم کے انسان ہیں لہذہ ان کا سدھرنا ناممکن ہے۔

بہر حال اس طرح اباجان کا اسلحے کی تیاری اور اسمگلنگ کا خواب ادھورا ہی رہ گیا اور وہ وہاں سے بے نیل و مرام واپس لوٹے ، مزید یہ کہ اسکے بعد نہ توقبائل سے کوئی لشکرِ جرار دشمن کی سر کوبی کے لیے ہندوستان کی جانب روانہ ہوسکا اور نہ پیر صاحب کی پیشن گوئی کے مطابق پوراہندوستان ہی مسلمان ہوسکا۔اباجان جو اس سے پہلے کئی خزانوں اور دولت کے انبار کو ٹھکرا چکے تھے انھوں نے کبھی ترپتی اور ہمپی کا والی بھنڈار کے مندروں میں چھپے خزانوں کو درخورِ اعتناءنہیں سمجھا، ہاں البتہ باقی مریدوں کے لیے اس خزانے کا نہ ملنا ایک بہت بڑا نقصان تھا۔

اباجان سمجھتے تھے کہ ان علاقوں میں ابھی ان کا کام مکمل نہیں ہوا ہے، وہ علامہ اقبال کے بقول ” ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“ پر یقین رکھتے تھے اور ان لوگوں سے ابھی مایوس نہیں ہوئے تھے۔ وہ مزید کچھ عرصہ اس علاقے میں رہے اور اپنا کام کرتے رہے۔ ان کا دودھاری مشن اس بات کا متقاضی تھا کہ وہ اس علاقے کے مزیددورے کریں اور آنے والے دنوں نے ثابت کیا کہ نہ صرف دینی لحاظ سے بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی انھوں نے اس علاقے میں کئی کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔

۱۹۵۰ءمیں پاکستان آنے کے بعد بھی اباجان نے اس علاقے کے کئی چکر لگائے جن کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔پاکستان بننے سے پہلے آخری دورہ انھوں نے ۱۹۴۷ءمیں کیا اور جون میں میرا جان سیال صاحب کے گھر میں انھوں نے ۳ جون کا تاریخی اعلان سنا اوروہاں سے بوریا بستر سمیٹ کر حیدرآباد روانہ ہوئے تاکہ اس نئی صورتحال کے مقابلے کے لیے خود کو تیار کرسکیں۔