Tuesday, October 29, 2013

باب ہشتُم: سوئے منزل چلے

 باب ہشتم۔فسانہ آزاد

سوئے منزل چلے
محمد خلیل الر حمٰن
(نوٹ: یہ باب وہ واحد داستان ہے جو ہم اباجان کی زندگی میں لکھ کر انھیں سنا چکے تھے۔ ان کی ڈانٹ اب بھی یاد ہے کہ” ابے! اپنے باپ کو اس قدر بڑھا چڑھا کر بیان کررہا ہے“۔ان کی وفات کے بعد اس میں ردو بدل کرنے کا دل نہ چاہا تو اسے من و عن ہی رہنے دیا۔)
اباجان کو سرور چچا کی چھوٹی بیٹی کے امتحان میں اول آنے کی خبر سنائی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ مسرور لہجے میں کہنے لگے۔
© ” سرور کے دل میں بھی پڑھائی کا شوق میں نے ہی ڈالا۔ جیل میں جب وقت نہ گزرتا تو میں نے اپنی افتادِ طبع سے مجبور ہوکر ساتھیوں کو عربی پڑھانی شروع کردی، رفتہ رفتہ میرے گرد پندرہ بیس نوجوان طالب علم جمع ہوگئے اور روز عربی کے سبق لینے لگے۔ گردانیں طویل ہوتی چلی گئیں، اور یہ سلسلہ کئی مہینوں تک جاری رہا۔ دونوں چھوٹے یعنی سرور اور ہاشم بھی جیل میں میرے ساتھ تھے، لہٰذہ دونوں ہی شوق سے روزآنہ سبق لینے لگے۔“

یہ قصہ ہے سقوط ِ حیدرآباد کا اور اس کے بعد اباجان کے جیل کاٹنے اور نتیجے کے طور پر رہا ہوکر پاکستان پہنچنے کا۔ لیکن اباجان کے دیگر محیر العقل کارہائے نمایاں کی طرح یہ بھی حیرت انگیز واقعات سے پر ہے۔ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ سچا واقعہ ہے یا کسی حیرت انگیز ناول کا کوئی دلچسپ باب، جس میں ہر صفحے پر نت نئے سنسنی خیز واقعات بھرے پڑے ہوں۔
اباجان کے جیل پہنچنے اور وہاں پر انتہائی دلچسپ بیس ماہ گزارنے کا تذکرہ پھر کبھی بیان کروں گا۔ آج کا قصہ ان کے آزادی کا پروانہ ملنے کے بعد کے واقعات سے متعلق ہے۔ آزادی کا پروانہ ملتے ہی ضروری کپڑے اور ایک ایک کمبل قیدیوں میں بانٹے گئے، اباجان اور دونوں چھوٹے بھائیوں نے کمال ہوشیاری سے ایک ایک کمبل اور ہتھیالیا اور انھی کمبلوں نے نہ صرف راستے میں بلکہ اگلے کئی مہینوں تک ان کا ساتھ دیا اور انھیں ٹھٹھرتی ہوئی سردی سے محفوظ رکھا۔ تقریباً اٹھارہ بیس ساتھیوں کا یہ قافلہ حیدرآباد جیل سے نکلا اور ٹرین میں بیٹھ کر برار کی طرف روانہ ہوا۔ آکولا اسٹیشن پہنچ کر سب ساتھیوں نے اپنے اپنے سامان ِ سفر کو سمیٹ کر تینوں بھایں کی مدد سے اسے پٹریوں کے پار ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم اور دوسرے پلیٹ فارم سے تیسرے پلیٹ فارم تک پہنچایا اور پھر نہایت گرم جوشی سے رخصت ہوئے تو یہ تینوں بھائی اس وسیع وعریض سرزمین پر یکہ و تنہا حسرت و یاس کی تصویر بنے کھڑے رہ گئے۔اباجان نے سب سے پہلے خود کو سنبھالا اور دونوں چھوٹے بھائیوں کو تسلی دی جو ان رخصت ہونے والے جیل کے ساتھیوں کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ لو یہ بھی گئے۔اباجان نے ملکِ خدا تنگ نیست و پائے گدا لنگ نیست کے مصداق قدم بڑھائے کہ لو ، اب ”سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد
چلے گا بنجارہ“۔ ان بنجاروں کے پاس شاید ان دوہری کمبلوں اور چند کپڑوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا اور نہ ہی ہندوستان کی اس وسیع و عریض سر
زمین پر سر چھپانے کے لیے کوئی ٹھکانہ۔ واپس باسم جانے کا تصور ہی لرزہ خیز تھا، جہاں پر خونخوار ہندو انہیں جان سے مارنے کے لیے ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ صرف ایک نام تھا، ڈاکٹر عمر خان صاحب ڈینٹسٹ کا، جو اس شہرِ غدار میں ان کا کچھ سہارہ بن سکتا تھا، لہٰذہ اباجان نے ڈاکٹر عمر خان صاحب کی تلاش کا قصد کیا۔ دل میں ٹھان لی تھی کہ ہار نہیں مانیں گے۔ جس اللہ کی وحدانیت کے گن گاتے پھرتے تھے ، اس اللہ نے انہیں موت کے پنجے سے یوں نکالا تھا کہ ان کا بال تک بیکا نہیں ہوا تھا۔
ہزاروں ہندوں کے گھیرے کو اپنے زورِ بازو کے بل بوتے پر توڑ کر نکل آنا ہنسی کھیل نہیں ہے۔ اور اب جیل کے تھکا دینے والے بیس ماہ بھی اپنے اختتام کو پہنچے تھے اور ان پر کوئی الزام ثابت نہ ہونے کے باوجود بھارت سرکار نے انہیں حیدر آباد کے لیے ممکنہ خطرہ سمجھتے ہوئے چوبیس گھنٹوں میں ریاست حیدرآباد سے بیدخل ہونے کا حکم سنایا تھا۔
آکولا اسٹیشن سے باہر نکلے تو سناٹے میں ایک طرف ایک سرائے کے سامنے باسم جانے والی لاری کھڑی تھی جو صبح سویرے روانہ ہونے والی تھی۔ اس لاری کا کلینر یعقو ب سر ائے کی ایک چارپائی پر لحاف اوڑھے لیٹا ہوا تھا ، انہیں دیکھتے ہی آواز لگائی، ” ہے کوئی مسافر ، باسم نان اسٹاپ۔
اباجان نے اسے پہچانتے ہوئے فوراً بلند آواز میں کہا۔
” کیوں رے! یعقوب کیا ارادے ہیں؟“ 
” اسمٰعیل بھائی ؟ “ یعقوب لپکا اور اباجان سے بغلگیر ہوگیا۔
اباجان نے علیک سلیک کے بعد مختصراً اسے اپنے حالات سے آگاہ کیا اور کہا۔
” میں ذرا ڈاکٹر عمر خاں صاحب کی تلاش میں جارہا ہوں۔ تم ان دونوں بچوں کا خیال رکھو۔“
یعقوب نے سرور چچا اور ہاشم چچا کو گلے سے لگا لیا اور بولا۔
” تم ان کی فکر نہ کر و۔ میں انہیں اپنے بستر پر ساتھ سلا لیتا ہوں اتنے تم ڈاکٹر صاحب کی تلاش کر آ۔
اس نے دونوں کو چار پائی پر لٹا کر اچھی طرح لحاف اڑھادیا اوراباجان رات کی تاریکی میں ڈاکٹر عمر خان کی حویلی کی تلاش میں نکل
کھڑے ہوئے۔


آخرِ کار تھوڑی سی تگ و دو کے بعد انکی حویلی نظر آگئی۔ قریب پہنچ کراباجان نے آواز دی۔
” ڈاکٹر عمر خان صاحب ہوت۔“
” کون ہے رے؟“ کافی دیر کی سمع خراشی کے بعد اوپر سے ایک کرخت آواز نے جوب دیا۔
” ڈاکٹر عمر خان صاحب ہیں؟“
” یہاں کوئی ڈاکٹر عمر خاں نہیں رہتے۔“
بھائی! پہلے تویہیں رہتے تھے۔
”رہتے تو تھے مگر اب نہیں رہتے۔“
کچھ اتا پتا ہے انکا؟
ہاں شاید ، ۔۔۔ حویلی میں منتقل ہو گئے تھے۔
شکریہ بھائی! رات کے وقت تمہیں تنگ کرنے پر معذرت۔
اباجان ۔۔۔ حویلی کی تلاش میں نکلے۔اباجان ، بقول خود انکے ، ”رات کے اندھے“ ، اور رات تین بجے کا اتھاہ سناٹا اپنی تاریکی سمیت چاروں طرف چھایا ہوا، ایسے میں جائیں تو جائیں کہاں؟ لیکن کہتے ہیں کہ ڈھونڈنے والے کو خدا بھی مل جاتا ہے، پھر یہ ۔۔۔ 
حویلی بھلا کیا چیز تھی۔ ایک گھنٹے تک تاریکیوں میں بھٹکنے کے بعد گویا نورِ سحر کی طرح ملی۔ صبحِ صادق ہونے والی تھی۔ حویلی پر پہنچ کر پھر آواز لگائی۔
” ڈاکٹر عمر خاں بھائی ہوت۔“
اوپر سے لالٹین ہاتھ میں لیے ڈاکٹر صاحب نے جھانکا۔
”کون ہو بھائی؟“
” جی میں اسمٰعیل ہوں۔ حیدرآباد سے آیا ہوں۔“
” اچھا میں ابھی حاضر ہوتا ہوں۔“
لٹھ اور لالٹین ہاتھ میں سنبھالے ہوئے نیچے اترے اور سوال کیا ۔
” سامان وغیرہ کہاں ہے؟“
اباجان نے جواب دیا۔” اسٹیشن پر بچوں کے ساتھ ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے قریب ہی کھڑے ہوے ایک تانگے کے کوچوان کو نیند سے اٹھایا، تانگا حرکت میں آیا اور ڈاکٹر عمر خان اباجان کے ساتھ اسٹیشن پہنچے، دونوں بچوں کو اٹھایا اور واپس حویلی پہنچ کر والد کو ایک کمرہ دکھانے کے لیے لالٹین اوپر اٹھائی تو حیران رہ گیے ۔
” ارے ! اسمٰعیل تم؟“
” کیا واقعی ! آپ نے پہلے پہچانا نہیں تھا؟“
” نہیں۔ ہم تو یہاں حیدرآباد سے آنے والے مسلمانوں کی آمد کے منتظررہتے ہیں تاکہ انھیں مناسب سہولیات فراہم کر سکیں۔“
اپنا بستر اور اپنا کمرہ ملا تو تینوں بھائی فوراً ہی بستر پر ڈھیر ہوگیے اور یوں انٹا غفیل ہوکر سوئے کہ اگلے دن سہہ پہر کی خبر لائے۔
کمرہ یوں بند ہوا کہ جب اگلے دن دوپہر تک بھی نہ کھلا تو دیگر اصحاب کو سخت تشویش لاحق ہوئی کہ کہیں ہندوں نے انھیں زہر کھلا کر تو نہیں بھیجا تھا؟ طے یہ ہوا کہ اگر اگلے ایک گھنٹے میں بھی دروازہ نہ کھلا تو پھر دروازہ توڑنا پڑے گا۔
دروازہ توڑنے کی نوبت تو نہ آئی اور یوں اباجان کو سر چھپانے کی جگہ میسر آگئی تو اباجان کو فکر ِ معاش لاحق ہوئی۔ ڈ اکٹر عمر خان کے کلینک کے ایک کونے میں اپنا ایک میز کا دفتر بنایا اور لگے نت نئی اسکیمیں بنانے۔ انھیں دنوں اتفاق سے بارش کے باعث ایک پریس کی دیوار گری تو اباجان اور ان کے ساتھی وہاں سے جاکر پریس کا پتھر چرا لائے اور یوں ہاتھ سے کتابت اور اشاعت کے مراحل طے کرکے ہفت روزہ ’امن‘ کا پہلا شمارہ چھپ کر مدیر صاحب کی سائیکل پر پہنچا جہاں سے وہ اسے سارے شہر میں بیچا کیے۔ پہلے ہی شمارے میں اباجان کا لکھا ہوا اداریہ ” گاندھی جی اور دیہی پنچایتیں “اپنی مقبولیت کی تمام حدیں عبور کر گیا۔


ادھر ہفت روزہ ’امن‘ نے اپنی اشاعت کا ’باقاعدہ‘ آغاز کیا ادھر سامنے ایک درزی نے ہاشم چچا کو دیکھاتو آواز دیکر فوراً بلایا۔
” ارے ادھر آ رے لڑکے“
” جی فرمائیے؟“
” تو ہاشم ہے نا؟“
” جی ہاں“
” تو پھر یہ نوجوان شخص اسمٰعیل بھائی ہیں؟“
” جی ہاں! لیکن آپ کو یہ سب کیسے پتا چلا؟“
” ارے ! میں تمہارے بڑے بھائی میاں کا شاگرد ہوں۔ سلائی میں نے انہیں سے سیکھی ہے۔ “
یوں ہاشم چچا اس دکان پر ملازم ہوئے اور آدھوں آدھ اجرت پر روز آنہ چار چھ روپے گھر لانے لگے۔ روز بازار سے کلیجی لاکر ، اسے تل کر بازار کی روٹی کے ساتھ کھالیا جاتا۔ اور اللہ کا شکر ادا کیا جاتا۔
اسی اثناءمیں ہز ہائی نس مہاراجہ پلس گڑھ کے پرنسپل سکریٹری نے اباجان کو دیکھا تو ٹھٹھک گیا، پوچھا۔
” ان صاحب کا تعلق اسی جماعت کے لوگوں سے تو نہیں ہے جو تقریر کرتے پھرتے ہیں اور اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں؟“
جواب اثبات میں پایا تو باچھیں کھِل گئیں ۔” ارے! انہیں کو تو میں ڈھونڈ رہا تھا۔ مہاراجہ صاحب نے حکم دیا ہے کہ انہیں پکڑ لا ، ایک ہندو مسلم مناظرہ منعقد کریں گے۔
اباجان کو باقاعدہ پلس گڑھ آنے کی دعوت اور فرسٹ کلاس ٹرین کے ٹکٹ کے پیسے ( ساٹھ روپے نقد سکہِ رائج الوقت) پیش کیے
گئے جسے انہوں نے شکریے کے ساتھ قبول فرمایا۔ چون روپے ہاشم چچا کو کھانے کے خرچ کے لیے دیے اور چھ روپے کا ٹرین ٹکٹ خرید کر تھرڈ کلاس میں پلس گڑھ ریلوے اسٹیشن پر اترے۔ انہیں رسیو کرنے کوئی نہیں آیا تھا۔
اباجان نے رومال کندھے پر رکھا اور تیز تیز چلتے ہوئے اسٹیشن سے باہر کی جانب جانے لگے۔ فرسٹ کلاس کے ڈبے کے سامنے مہاراجہ کے پرنسپل سکر یٹری مع راجکمارہز ہائی نس اور مسٹر بنر جی، انتظار میں کھڑے تھے۔ گورنر شکلا کی صاحبزادی بھی ان کے ہمراہ معزز مہمان کے لیے چشمِ براہ تھیں۔ سلام علیک کے بعد رسمی خوشگوار جملوں کا تبادلہ ہوا اور یوں یہ شاہی قافلہ اپنی منزلِ مقصود کی جانب عازمِ سفر ہوا۔
ہندوستان کے راجے مہاراجے اپنی جاگیریں کھوچکے تھے اور بھارت سرکار سے سالانہ وظیفہ پاتے تھے۔ مہاراجہ پلس گڑھ کو بھی حکومتِ ہندوستان کی جانب سے بیس لاکھ روپے سالانہ وظیفہ ملتا تھا جو بقول خود مہاراجہ صاحب کے، ان کے ہاتھیوں کی غذا کے لیے ہی تقریباً کافی ہوتا تھا۔ جاگیریں گئیں لیکن شاہی آن بان نہ گئی۔ راجہ کا دربار اسی شان و شوکت کے ساتھ لگا کرتا جو پرکھوں کی روایت تھی۔
اُدھر مسلمانوں کی بھی غیر مسلم بادشاہوں کے دربار میں حاضری کی ایک عجیب و غریب اور عظیم الشان روایت رہی ہے جس کی امامت شاید حضرت جعفر طیار ؓ فرماتے ہیں۔اباجان بھی ایک اسی درویشانہ شان کے ساتھ اُس دربار میں حاضر ہوئے۔
مہاراجہ نے پر تپاک انداز میں ان کا خیر مقدم کیا اور انہیں اپنے پہلو میں جگہ دی۔ طعام و قیام کا بند و بست فرمایا اور ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد آرام کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اگلے روز ناشتے سے فارغ ہوئے تو کہنے لگے۔
” آجاد(آزاد)! آج مہاراجہ ۔۔۔ نے بلایا ہے۔ کیوں نہ تم ان کے سامنے چل کر اپنی تقریر کرو۔“
مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اباجان ان کے ساتھ چل دیے ۔ پہلی گاڑی میں مہاراجہ کے ساتھ والد صاحب کو جگہ ملی ۔ سامنے کی سیٹ پر پرنسپل سکریٹری براجمان تھے۔ ان معزز ہستیوں کو لیکر گاڑی کشاں کشاں بلو پیلس پہنچی، جہاں کی ہر چیز بلو یعنی نیلی تھی۔نیلا فرنیچر، نیلا قالین، نیلے جھاڑفانوس، نیلی کراکری، چائے کے برتن وغیرہ، نیلی دیواریں اور ان پر سجی ہوئی نیلی تصویریں، غرضیکہ ایک نیلی دنیا تھی۔ ایک نیلگوں سمندر تھا جو چار سو پھیلا ہوا تھا۔
ابھی تعارف سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ مشہور ہندو مذہبی پیشوا مہارشی ٹکرو جی مہاراراج اپنے دس چیلوں کے ساتھ دربار میں جلوہ افروز
ہوئے۔ ان کا محفل میں پدھارنا تھا کہ محفل میں ایک جان سی پڑ گئی۔ ہر شخص منتظر تھا کہ دیکھنا اب اس مسلے کی کیا گت بنتی ہے۔ ٹکرو جی
مہاراج ہندو مسلم مناظروں میں ایک خاص شہرت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ آل انڈیا ریڈیو سی پی سے گیتا کا درس بھی دیا کرتے تھے۔ان کو دیکھتے ہی اباجان کے تو گویا جسم میں جان ہی نہ رہی۔مذہبی مناظروں میں ٹکرو جی مہاراج کا نام ہی ہیبت طاری کرنے کے لیے کافی تھا جبکہ اباجان نہ ان کی موجودگی کی توقع کر رہے تھے اور نہ ہی اس موقع کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے۔ایسی صورتحال میں ایک مسلمان مدد کے لیے جس ہستی کو پکارتا ہے اباجان نے بھی اسی سے رجوع کیااور انہیں جتنی بھی دعائیں یاد تھیں ، انہوں نے دل ہی دل میں دہرانی شروع کردیں کہ بار الٰہ ! آج ان ہندوں کے سامنے اپنے اس عاجز بندے کی لاج رکھ لیجو۔


اباجان کہتے ہیں کہ جتنی جلد دعائیں اس دن قبول ہوتے ہوئے دیکھیں ، شاید ہی کسی اور موقع پر دیکھی ہوں۔ تقریر کے لیے پہلے اباجان کو دعوت دی گئی ۔ وہ کھڑے ہوئے اور نہایت دھیمے انداز میں متانت کے ساتھ بولنا شروع کیا۔
” معزز حاضرینِ محفل! انسان اور انسان میں برابری ممکن ہے۔ انسان اور انسان آپس میں برابر ہوسکتے ہیں لیکن انسان اور جانور میں برابری ناممکن ہے۔ انسان اور جانور آپس میں برابر نہیں ہوسکتے۔ انسانوں کی آپس کی اس برابری کا ادراک اگرکسی دین و مذہب یا دھرم نے کیا ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ اسلام ہی نے انسانوں کی آپس کی برابری کا ببانگِ دہل اعلان کیا ہے۔ جبکہ دیگر تمام مذاہبِ عالم انسانوں کو آپس میں تقسیم کرنے اور انہیں بڑا چھوٹا بنانے میں مصروف تھے ، ہیں اور رہیں گے۔ ہندو دھرم جو در اصل آریا دھرم ہے ، اس نے آریاں کو بڑا، پوتر اور پاک بناکر اوپر چڑھادیا اور شودروں کو ناپاک، ملیچھ اور ذلیل بنا کر بدنامی اور گمنامی کے اس عمیق غار میں دھکیل دیا جہاں سے وہ ابد لاآباد تک نہیں نکل سکتے۔ ہاں صرف اسلام ہی انہیں عزت اور نیک نامی اور دیگر انسانوں کے ساتھ برابری کا ایک نیا راستہ دکھاتا ہے۔
اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو تمام انسانوں کے لیے اور تمام زمانوں کے لیے آیا ہے اور اس کا یہی دعوہ ہے جبکہ کسی اور دھرم کا ایسا دعوہ ہرگز نہیں ہے۔ “
اباجان بولتے جاتے تھے اور ان کی آواز بلند ہوتی جاتی تھی، یہاں تک کہ وہ ایک ایسی گھن گرج میں تبدیل ہوگئی جس میں مصلحوں کی شفقت، مجاہدوں کا جوش و ولولہ اور وحدانیت پرستوں کا تیقن شامل تھا۔ خیالات کا ایک دریا تھا کہ بہا چلا آتا تھا اور الفاظ تھے کہ ایک نظم ، ترتیب اور تسلسل کے ساتھ منہ سے اس طرح نکل رہے تھے گویا مقرر نے گھنٹوں ان خیالات کو مربوط کیا ہو۔
اباجان نے دو گھنٹے کی ایک طویل تقریر میں نہایت مدلل انداز سے یہ ثابت کردیا کہ فی الحقیقت اسلام ہی وہ واحد راستہ ہے جو انسانیت کے
تمام دکھوں کا مداوا بن سکتا ہے۔ اور کھوجنے والوں کے ذہنوں کے تمام سوالات کے حل اسلام ہی میں موجود ہیں اور دیگر مذاہب وادیان اپنی تمام تر ذات پات اور دیگر تقسیموں کے ساتھ انسانیت کو درپیش مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
اباجان کی تقریر کے بعد جب مہارشی کی باری آئی تو انھوں نے ہاتھ جوڑکر معذرت کرلی اور کہا کہ آج میں صرف سننے کے لیے آیا ہوں۔
واپسی کا سفر شروع ہوا تو گاڑیاں آنی شروع ہوئیں اور لوگ بیٹھنے لگے۔ اس افراتفری میںاباجان کو دوسری گاڑی میں جگہ ملی جس میں مسٹر بنر جی ان کے ہمسفر بنے۔ گاڑی چلتے ہی وہ یوں گویا ہوئے۔
” واہ مولٰنا ! کیا تقریر کی ہے۔ ایمان تازہ کردیا۔“
”ہیں! تو کیا آپ مسلمان۔۔۔ ۔۔۔ ؟“اباجان حیرت زدہ رہ گئے۔
” ابے مولوی کے بچے! کیا مجھے کافر سمجھاہے؟۔ میرا نام حبیب بنر جی ہے۔ میرے دادا نے اسلام قبول کیا تھا۔“
” ماشاءاللہ۔“ اباجان نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی انہیں گلے لگا لیا۔
الوداعی ملاقات میں راجہ صاحب اباجان کے سر ہوگئے ۔
” اب تم یہیں رہواور چھتیس گڑھ کے گھنے جنگلات اور دیگر علاقوں میں اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے رہو، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ادھر پولیس اور فوج بھی تمہارہ بال تک بیکا نہیں کر پائے گی۔ رہی ہماری غرض سو وہ اس طرح پوری ہوگی کہ تمہاری تقریروں میں آریائی موقف اور سماج کی نفی ہوتی ہے جو ہمارے مقصدکے عین مطابق ہے۔“
اباجان نے اس پیشکش کو شکریے کے ساتھ ٹھکراتے ہوئے بتایا کہ اب وہ صرف پاکستان جانا چاہتے ہیں۔ یہ سنتے ہی راجہ صاحب نے
نہایت شگفتہ انداز میںاباجان کو کئی موٹی موٹی گالیاں مرحمت فرمائیں کہ وہ بزدل اور بھگوڑے ہیں اور ڈر کر یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔
اباجان نے انھیں سمجھایا کہ ایسی بات نہیں ہے بلکہ وہ بیس ماہ کی طویل جیل کاٹ کر تھک گئے ہیں اور اب کچھ عرصہ پاکستان جاکر اس دارالامان میں سکون سے رہ کر آرام کرنا چاہتے ہیں تاکہ پھر تازہ دم ہوکر اسلام کی خدمت کر سکیں۔
راجہ صاحب نے باصرار انہیں واپسی کا کرایہ اور دو سو روپے عنایت فرمائے یہ کہتے ہوئے کہ وہ اب صرف نام کے راجہ رہ گئے ہیں جنہیں حکومتِ ہندوستان کی جانب سے گزارہ الاونس ملتا ہے، لہٰذہ اندرایں حالات وہ کچھ زیادہ تو نہیں کرسکتے۔ البتہ انھوں نے کمال شفقت سے ایک پوسٹ کارڈپر اپنا پتہ لکھ کر اباجان کے حوالے کیا کہ ویسے تو تم مجھے بہت خوددار نظر آتے ہو، مگر زندگی میں جب بھی کبھی تمہیں پیسوں کی مجبوری ہو تو بلا تکلف مجھے یہ کارڈ بھجوا دینا، میں تمہیں اپنے لندن کے بنک اکانٹ سے پیسے بھجوا دوں گا۔
اباجان نے حویلی سے نکلتے ہی پوسٹ کارڈکو پھاڑ کر پھینک دیا لیکن ان سنہری یادوں کو کلیجے سے لگائے آگے بڑھ گئے۔
ڈاکٹر عمر خان صاحب کی بیٹھک کیا تھی ، احبابِ علم و ادب کا گویا ایک پرسکون ٹھکانا تھی، جہاں پر وقتاً فوقتاً ان کی ادبی محفلیں سجا کرتیں اور مشاعرے منعقد ہوا کرتے۔ ایسے ہی ایک آل انڈیا مشاعرے میں اباجان کی ملاقات سورت سے آئے ہوے ایک شاعر نجمی سے ہوئی۔ بر سبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ ا باجان ا یک ا سلامی عالم، داعی حق، بہترین مقرر،مضمون نگار، comparative religion کے طالب علم ہونے اور عربی فارسی اردو پشتو اور انگریزی میںیکساں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ طرز شاعر بھی ہیں( یا اپنی جوانی میں ہوا کرتے تھے) اور اس ناطے شعر گوئی اور شعر فہمی میں طاق ہیں۔ گواباجان نے اس مشاعرے میں اپنی نظم یا غزل تو نہ پڑھی لیکن دورانِ گفتگو اپنی علمی قابلیت سے نجمی صاحب کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ ان کے گرویدہ ہوگئے، کہنے لگے۔

”مولوی صاحب! میری ایک درخواست ہے۔“
”فرمائیے؟“
” مجھے اس مشاعرے کے بعد کچھ وقت عنایت فرمائیے۔“
” میں حاضر ہوں۔“
خیر صاحب! رات گئے جب تمام شاعروں کے بعد صدر نشین نے بھی اپنی باری پوری کرلی بلکہ بدرجہاتم پوری کرلی یعنی کئی قطعوں، ایک دوغزلہ اور کئی طویل غزلوں کے مترنم اظہار کے بعد شمعِ محفل کو اپنے سامنے سے ہٹانے کی ا جازت مرحمت فرمائی تو اس کے بعد ہی اباجاناور نجمی صاحب اکھٹے ہوسکے۔

” جی اب فرمائیے“
نجمی صاحب جو ُسورت کے ایک گجراتی مسلمان تھے ، یوں گویا ہوئے۔
”مولوی صاحب! یوں تو میں مسلمان ہوں لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اسلام اور ایمان سے متعلق کچھ بہت گھمبیر قسم کے خیالات و خدشات میرے ذہن میں پرورش پا رہے ہیں۔خاص طور پر آوا گون کا مسئلہ۔ انھی کے بارے میں آپ کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو چاہتا ہوں۔“
گفتگو شروع ہوئی تو رات بھیگ چلی تھی اور گفتگو اختتام پذیر ہوئی تو سپیدہ سحری نمودار ہوا چاہتا تھا۔اباجان نے پہلے تو بہت اطمینان اور صبر کے ساتھ نجمی کے اعتراضات سنے اور پھر اسی اطمینا ن اور صبر کے ساتھ انہیں سمجھانا شروع کیا۔ ایک ایک کرکے ان کے سارے اعتراضات و خدشات کا مدلل اور بھر پور جواب دینے لگے۔ یہانتک کہ اِدھر موذن نے اللہ کی تکبیر بیان کرنا شروع کی تو اُدھر نجمی نے خوش ہوکر کہا۔

” الحمد للہ کہ میں مسلمان ہوں اور مولوی صاحب آپ کا شکریہ کہ آپ نے آج مجھے کافر ہونے سے بچا لیا۔آج آپ سے بات نہ ہوپاتی تو میں تو اسلام جیسی نعمت سے پھر چلا تھا۔“
احسان مندی کے احساس سے زیر بار ہوتے ہوئے نجمی نے اباجان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے اور فرطِ جذبات سے آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہا
” مولوی صاحب ! اب فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔“
اباجان خوش ہوئے اور فوراً ہی جواب دیا۔
” بھائی ! میں نے کوئی بڑا تیر نہیں مارا۔ ہاں البتہ اپنے مسلمان بھائی کو دوزخ کی آگ سے بچانا میرا فرض تھا ، سو وہ میں نے پورا کیا۔ اب اگر اللہ نے آپ کو یہ توفیق بخشی کہ آپ اپنے وسوسوں اور شیطانی خیالات کو اپنے ذہن سے نوچ کر باہر پھینک سکے تو اس میں میرا تو کوئی کمال
نہیں۔ اللہ کا شکر ادا کیجیے۔
” اللہ کا شکر پہلے اور آپ کا شکریہ اس کے بعد۰۰۰۔
نجمی نے بے حد اصرار کیا تو نماز کے لیے اٹھنے سے پہلے اباجان نے اپنی دلی خواہش کا اظہار کر دیا۔
” میری دلی خواہش ہے کہ پاکستان جاسکوں۔ اگر آپ مجھے پاکستان بھجوانے کا کوئی بند و بست کرسکیں تو یہ آپ کا احسان ہوگا مجھ پر۔“
نجمی خوشی کے مارے اٹھ کھڑے ہوئے اوراباجان کو گلے لگاتے ہوئے کہنے لگے۔
” سمجھ لیجے کہ آپ پاکستان پہنچ گئے۔ آج ہی آپ میری چمڑے کی کھیپ کے ساتھ روانہ ہوجائیے، آگے اللہ مالک ہے۔“ 
حبیب بن وحید کو والد صاحب کے پروگرام کا علم ہوا تو وہ بھی اباجان کے سر ہوگئے ۔
” اسمٰعیل بھائی! میں بھی تمہارے ساتھ پاکستان جاں گا۔ “
الغرض نجمی نے اس وعدے کے ساتھ کہ وہ بچوں کو جلد بذریعہ ٹرین روانہ کردیں گےاباجان اور حبیب بن وحید کو سورت پہنچایا، پھروہ دونوں وہاں سے احمد آباد اور پھر وہاں سے اونٹوں کے ایک قافلے کے ساتھ راجھستان کے سرحدی علاقوں کی جانب روانہ ہوئے۔اونٹوں کی سواری اور پھر چمڑے کی کھیپ سمیت کاروباری نوعیت کا یہ قافلے کا سفر، گھنٹوں کا سفر دنوں میں طے کرتے ہوئے یہ لوگ ایک گاں سے دوسرے گاں اور پھر وہاں سے تیسرے گاں کی طرف رواں دواں تھے۔ میرِ قافلہ نے اباجان سے کہا۔
” مولوی صاحب ! آپ ہمارے منشی ہیں ، یہ حساب کتاب کا کھاتا سنبھالیے، اور کھالوں کی اس لین دین کا حساب رکھیے۔“
اونٹ کا شمار دنیا کے عجیب و غریب ترین جانوروں میں سے کیا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں،”اونٹ رے اونٹ، تیری کون سی کل سیدھی۔“ اور پھر
اس ٹیڑھی کل والے جانور کی سواری؟ اللہ غنی۔ گھوڑے ، گدھے، خچر اور ہاتھی کی سواری ایک طرف تو اونٹ کی سواری دوسری طرف۔ شاید مولٰنا محمد حسین آزاد کبھی خود اونٹ پر نہیں بیٹھے، ورنہ وہ اونٹ کی کچھ یوں تعریف نہ کرتے۔
” دیکھنا ! سانڈنی سوار جاتا ہے۔ کیا عمدہ سانڈنی ہے۔ کیسی بے تکان جارہی ہے۔ گردن تو دیکھو کیسی پیچھے کو جھکی ہوئی ہے! واہ وا! جیسے مور ناچتا چلا جاتاہے۔ سانڈنی کی کیا بات ہے!“

اونٹ کی سواری کا حال تو کوئی اباجان سے پوچھے۔ وہ زندگی میں پہلی اور شاید آخری بار اونٹ کی سواری کر رہے تھے۔ اونٹ ایک قدم آگے بڑھاتا تو اباجان آگے اور حبیب بن وحید پیچھے کی طرف جھک جاتے اور اونٹ کے اگلے قدم کے منتظر رہتے تانکہ وہ اپنی ھیئت تبدیل کرسکیں ۔ اونٹ پر بیٹھے ہوئے اپنی دونوں ٹانگیں ایک دوسر ی سے اس قدر فاصلے پر رکھنی پڑتی تھیں کہ رانوں میں مستقل درد رہنے لگا تھا۔ اور پھر یہ اونٹ شاید اس قافلے کاسست ترین اور خبیث ترین اونٹ تھا جو ہر قدم اس سست روی کے ساتھ اٹھاتا تھا گویا انتہائی ناگواری کی حالت میں ایسا کر رہا ہو۔شاید اسے اپنے ان دونوں سواروں کی دلی کیفیت کا بالکل احساس نہ تھاجن کے لیے یہ سفر عقیدت کا سفر تھا۔ کافرستان سے پاکستان کی جانب۔جسے انھوں نے اور ان کے عظیم قائد ، قائدِ اعظم نے بڑی جدو جہد اور قربانیوں سے حاصل کیا تھا۔ آج اباجان کو تین جون سنہ انیس سو چالیس کا وہ دن یاد آرہا تھا جب انھوں نے میرا جان سیال کے ہاں دو گھنٹے مشین چلوا کر ایک گھنٹے کی آل انڈیا ریڈیوکی نشریات میں خبروں کے دوران وزیرِ اعظم انگلستان کی تقریر سنی تھی اور اس میں وزیرِ اعظم کی زبانی یہ سن کر سجدئہ شکر بجالائے تھے کہ’ وہ نہایت افسوس کے ساتھ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان کرتے ہیں‘۔آج انہیں ان کے تین جون سنہ انیس سو چالیس کو دیکھے ہوے خواب کی تعبیر ملنے والی تھی۔آج وہ اپنے پاک وطن پاکستان جارہے تھے جو اپنی جغرافیائی حدوں کی وجہ سے ایک ملک نہیں کہلایا جاتا تھا بلکہ اس کا حدود اربعہ یہ تھا کہ وہ بر صغیر ہند وستان کے مسلمانوں کا وطن تھا۔
اباجان اور حبیب بن وحید کو ایک ایک قمچی تھمادی گئی تھی کہ وہ گاہے بگاہے اس کا استعمال کرتے رہیں تاکہ اونٹ اس میانہ روی سے بالکل ہی بیزار ہوکر از خود ہی زمیں پرنہ بیٹھ جائے۔اونٹ کی سست رفتاری کو دیکھ کرحبیب بن وحیدکو یکلخت جو غصہ آیا تو انہوں نے اپنی قمچی ہوا میں
لہرائی اور شائیں کی آواز کے ساتھ پوری قوت سے اسے اونٹ کے سر پر دے مارا۔ اگلے کئی لمحوں تک دونوں کو بالکل ہوش نہ رہا کہ کیا ہورہا ہے، کیونکہ یکبارگی اونٹ بلند آواز میں بلبلایا اور دوڑ پڑا۔جن لوگوں نے اونٹ کو خراماں خراماں چہل قدمی کرتے دیکھا ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اونٹ بالکل نہیں بھاگ سکتا، یہ جان کر ضرور حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ اونٹ ضرورت پڑنے پر انتہائی تیز رفتار سے دوڑ بھی سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ساربان حضرات یہ حقیقت خوب جانتے ہیں کہ اونٹ کو تیز چلانے کے لیے اس کے جسم پر تو قمچی رسید کی جاسکتی
ہے لیکن اس کے سر پر جو اس کے جسم کے نازک ترین حصوں میں سے ایک ہے کبھی نہیں مار نا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے اونٹ کو ناقابلِ برداشت تکلیف ہوتی ہے اور وہ گویا پاگل سا ہوجاتا ہے۔
قمچی کی مارپڑتے ہی اونٹ کو اپنی نانی ےاد آگئی اور اس نے آ دیکھا نہ تا، اور بے تحاشا ایک طرف کو دوڑ پڑا۔ نیز اس کی بدتمیزی ملا حظہ فرمایئے کہ دوڑتے وقت ارد گرد کی خار دار جھاڑیوں کا بھی خیال نہیں کیا اور بلا جھجک ان گھستا چلا گیا اور کئی میل تک دوڑا کیا۔ نتیجتاً اباجان اور حبیب بن وحید ان خار دار جھاڑیوں سے بری طرح زخمی ہوئے۔
بے وفا اونٹ کا وفا دار ساربان یہ ماجرہ دیکھ کر اونٹ کی جانب دوڑا اور پھر دوڑتا ہی چلا گیا، کیوں کہ اونٹ کی رفتار خاصی تیز تھی۔
اگلے آدھے گھنٹے تک دونوں اشخاص اپنی جانِ عزیز کو سنبھالے اونٹ کے جسم سے چمٹے رہے جو اس وقت انتہائی تیز رفتار سے دوڑا جارہا تھا اور اس کا سابان اس بھاگتے بھوت کا پیچھا کرتے ہوئے اسے چمکارتا اور للکارتا جاتا تھا۔ بالاآخر اونٹ ایک جگہ جاکر رک گیا، ساربان کی چمکاریں رنگ لائی تھیں یا پھر شاید اونٹ ہی بھاگتے بھاگتے تھک گیا تھا۔
بعد میں قافلے کے ایک ساتھی نے سمجھایا کہ اونٹ کے سر پر کبھی نہیں مارنا چاہیے تو اباجان اور حبیب بن وحیددونوں نے یہ عہد کیا کہ وہ آئیندہ کبھی کسی اونٹ کے سر پر نہیں ماریں گے۔آدھے گھیٹے تک ایک وحشیانہ انداز میں دوڑتے ہوئے اونٹ کی پیٹھ پر موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہنا اور اونٹ کو روکنے اور قابو میں کرنے کے لئے قافلہ والوں کی تگ و دوایک انتہائی سبق آموز صورتحال کے طور پر ان کے سامنے تھی۔
الغرض سفر جاری رہا اور ایک رات جبکہ اس وسیع و عریض ریگستان میں چاندنی چٹکی ہوئی تھی اوراباجان اور حبیب بن وحید گاں گاں چمڑے کی رسیدیں کاٹتے کاٹتے بیزار ہوچکے تھے، وہ سرحدی گاں واوڑی میں سرحد پر لگی خار دار تار تک پہنچ گئے۔
” مولوی صاحب ! اب آپ لوگ اس درخت پر چڑھ کر باڑھ کی دوسری جانب پاکستان میں کود جائیے۔
اباجان اور حبیب بن وحید اپنے ساتھیوں سے گلے ملے اورالوداع کہہ کر اپنے تھیلے سنبھالتے ہوئے اونٹ کے اوپر چڑھ کر درخت کی بلند شاخ پر پہنچ گئے ۔ وہاں سے پہلے اپنے تھیلے دوسری طرف پھینکے اور پھر خود بھی تھلوں کے پیچھے باڑھ کے دوسری طرف کود گئے۔ اباجان پاکستان پہنچ چکے تھے۔
سرحدی پولیس نے ان دونوں مولویوں کو سرحدی علاقے میں آوارہ گردی کرتے ہوئے پایا تو فوراً گرفتار کرکے اپنے افسر کے سامنے پیش
کردیا ۔ افسر نے کہا۔” اگر میں چاہوں تو تم کو فوراً سزا سنا سکتا ہوں لیکن چونکہ میں نے ( میرے آدمیوں نے) ہی تم کو سرحد پار کرتے ہوئے گرفتار کیا ہے لہٰذہ میں تمہیں میر پور خاص مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کروں گا۔
اس نے جمعدار عبدالعزیزکو حکم دیا کہ وہ دونوں مجرموں کو لیکر فوراً میر پور خاص روانہ ہوجائے اور مجسٹریٹ درجہ اول کی عدالت میں پیش کرے۔
جمعدار عبدالعزیز دو نوں مجرموں کو لیکر چلا تو اس شان سے کہ راستے کے ہر ریسٹورنٹ ( عرفِ عام میں ہوٹل) پر رُکتا اور ہوٹل والے کو حکم دیتا کہ یہ دونوں سرکاری مہمان ہیں ، لہٰذہ ان کی خاطر خواہ، خاطر مدارات کی جائے۔
میر پور خاص پہنچے تو اس نے دونوں کو ایک ہوٹل میں انھی اسپیشل ہدایات کے ساتھ ٹھہرایا کہ ” یہ دونوں سرکاری مہمان ہیں لہٰذہ یہ جو کھانا چاہیں انھیں پکا کر کھلایا جائے۔“ اوراباجان اور حبیب بن وحید سے کہنے لگا۔”مولوی صاحب ! آپ لوگ یہاں اطمینان کے ساتھ ٹہریئے ، میں ایک آدھ دن میں پیشی کی تاریخ لیکر آتا ہوں۔“ اور وہاں سے چلتا بنا۔

دونوں سرکاری مہمان ٹھاٹھ سے اس ہوٹل میں رہا کیے اور ان کی خاطر خواہ مدارات ہوتی رہیں، لیکن عبدالعزیز نے نہ آنا تھا اور وہ نہ آیا، یہاں تک کہ ایک ہفتہ گزر گیا۔ ایک ہفتے بعد جب جمعدار عبدالعزیز نے اپنی شکل دکھائی تو اباجان نے شکوہ کیا۔
” بھائی عبدالعزیز ! ہم تو یہاں ہوٹل میں انتظار کرتے کرتے بیزار ہوگئے ہیں۔جلد ہی تاریخ لیکر ہمیں عدالت میں پیش کرو۔“
مولوی صاحب! تم دونوں بھی بس کاٹھ کے الو ہو۔“ عبدالعزیز ہنس پڑا۔پر جب دیکھا کہ یہ دونوں بھاگنے کی بجائے عدالت میں حاضر ہونے پر مصر ہیں تو خوشخبری سنائی کہ کل صبح تم دونوں کی پیشی ہے۔
اگلے دن دوپہر تک دونوں کی پیشی ممکن ہوسکی۔ مجسٹریٹ نے جمعدار عبدالعزیز سے ان کا کیس سننے کے بعد دونوں کو صفائی کا موقعہ دیا اور ان کے بیانات سننے کے بعد، ان دونوں کو گھور کر دیکھتے ہوئے عدالت کا فیصلہ سنا دیا۔
” محمد اسمٰعیل آزاد اور حبیب بن وحید! تم دونوں نے سرحد پار کرکے پاکستان آنے کا جو جرم کیا ہے ، اس جرم کے لیے تم دونوں کو تا برخواستِ عدالت قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔“ 
یہ فیصلہ سناتے ہی مجسٹریٹ نے عدالت برخواست کر دی اور یوں اباجان پاکستان کے آزاد اور باعزت شہری بن گئے۔

Tuesday, March 27, 2012

فسانہ آزاد::باب ہفتم:: بجھا جو روزنِ زنداں

باب ہفتم۔فسانہ ء آزاد
بجھا جو روزنِ زنداں
محمد خلیل الر حمنٰ

موجودہ پاکستان اور افغانستان کے قبائیلی علاقے یاغستان، باجوڑ ، ڈبراور خار وغیرہ اباجان کے لیے ایک دوسرے گھر کی حیثیت رکھتے تھے، جہاں وہ تبیلغ کے لیے ہر چند ماہ بعد پہنچے ہوے ہوتے تھے اور جم کر کئی ماہ قیام کے بعد واپس حیدر آباد پہنچتے اور پیر صاحب کے پاس حاضری دیتے۔ جون ۷۴۹۱ءمیں وہ ایسے ہی ایک دورے پر اس علاقے میں موجود تھے اور میرا جان سیال کے ہاں قیام تھا۔ سیال صاحب خود تو پختونستان کے حامی تھے لیکن ابا جان سے دوستی اور ان کی بے پناہ عزت کرنے کے ناتے، ابا جان کے مسلم لیگی خیالات کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔ علاقے میں ایک ہی ریڈیو تھا جو سیال صاحب کے گھر پر ایک اونچی جگہ پر موجود ہوتا تھا۔ایک گھنٹہ کی نشریات سننے کے لیے کم از کم دو گھنٹے ڈاینامو کا پہیہ چلا کر بیٹری کو چارج کرنا پڑتا۔ اہم نشریات کے پیشِ نظر سیال صاحب نے اباجان کو خاص اجازت مرحمت فرمائی تھی کہ وہ علاقے کے لڑکوں کو پکڑ کر ان سے بلا جھجک ڈائنامو کا پہیہ چلوائیں اور وقت پر خبریں سنیں۔ آخر کار ۳ جون ۷۴۹۱ء کا تاریخ ساز دن بھی آیا جس دن قائد اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنی پہلی اور آخری تقریر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔پہلے متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی آخری نشری تقریر میں ہندوستان کی آزادی کا اعلان کیا، پھر کانگریس کی طرف سے بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے تقریر کی اور سب سے آخر میں مسلم لیگ کی جانب سے مسلم لیگ کے صدر، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور بر صغیر کے کروڑوں مسلمانوں کے قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی تقریر میں پاکستان کے قیام کا اعلان کیا اور پاکستان زندہ باد کے ایک نعرہ مستانہ پر اپنی تقریر ختم کی۔

ابا جان نے شوق اور عقیدت کے ساتھ قائد اعظم کی تقریر سنی اور اور فوراً ہی واپسی کا قصد کرلیا اور سیال صاحب کے لاکھ روکنے پر بھی مزید رکنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہوچکا تھا، حیدر آباد ریاست کی تقدیر ہندوستان اور انگلستان کے لیڈروں کے رحم و کرم پر تھی اور اب عمل کا وقت آگیا تھا۔ پاکستان جس کے لیے اباجان نے ان پٹھان علاقوں میں اپنے زورِ بیان سے جادو جگایاتھا، اب اللہ کے فضل و کرم سے ایک حقیقت بننے جارہا تھا۔ اب اباجان کے لیے حیدرآباد میدانِ عمل بن چکا تھا اور میدانِ عمل سے زیادہ دور رہنا اب انکے لیے ناممکن تھا۔

وہاں سے واپسی پر اباجان نے حالات کے پیشِ نظر دو عدد رائفلیں بھی خریدیں اور انھیں لے کر کشاں کشاں حیدرآباد پہنچے اور وہاں پر پہنچ کر باقاعدہ جہاد کی تیاری شروع کی۔ سب سے پہلا مرحلہ ساتھیوں کی ٹریننگ کا تھا جسے بلا تاخیر شروع کروایا گیا۔ابتک تو ساتھی پرانے ہتھیاروں یعنی تلواروں پر ٹریننگ پاتے تھے اور اب اس نسبتاً نئے ہتھیار’ رائفل ‘کی ٹریننگ بھی شروع کرنی پڑی تاکہ وقت پڑنے پر وہ اس کے استعمال کے لیے بھی تیار ہوں۔

ہتھیاروں کی لوکل سپلائی کے لیے ایک مقامی لوہار کی خدمات حاصل کی گئیں اور اسے سرحد سے درآمد شدہ رائفل دکھا کر اسی نوع کی رائفل تیار کرنے کا کہا گیا جو اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ قبول کیا۔اس نے پہلی رائفل بنائی اور اسے ٹسٹ کرنے کی خاطر پہلا فائر کیا تو اس کی نالی پھٹ کرخود اسے بری طرح زخمی کرگئی۔

غرض جہاد کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں کہ انھی دنوں خبر ملی کہ حیدرآباد کے سرحدی علاقوں میں ایک ہندو غنڈے نانا پٹیل عرف پتری سرکار نے اندرونِ ریاستِ حیدرآبا دکن میں کے مسلمانوں پر عرصہحیات تنگ کر رکھا ہے۔ مسلمان اس کی آئے دن کی لوٹ مار اور قتل و غارت گری سے عاجز تھے۔ ابا جان اور ان کے جانثاروں کے گروہ نے طے کیا کہ اس علاقے میں جاکر قسمت آزمائی کی جائے۔ شاید قسمت ساتھ دے اور اس غنڈے کے ساتھ زور آزمائی اور ہاتھاپائی کی نوبت آ ہی جائے۔


ان سب نے اپنی تلواریں تیز کیں، اپنی رائفلوں کی نالیوں کو صاف کرکے ان میں تیل وغیرہ ڈالا ،کارتوس سنبھالے اورابا جان کی سربراہی میں رات کی تاریکی میں منزلیں مارتے ہوئے روانہ ہوئے۔اس علاقے میں ان دنوں جاوید جبار صاحب کے والدعبدالجبارصاحب حیدرآباد کے ضلع بیڑکے ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز تھے جو حیدرآباد کی سرحد پر ہندوستان کے ساتھ واقع تھا، اور ہندوں کے ان غنڈہ گردی کے واقعات سے حقیقتاًپریشان تھے۔ اباجان کا گروہ جب جاکر ان سے ملا اور اس غنڈے نانا پٹیل کی سرکوبی کے لیے اپنی خفیہ خدمات پیش کیں تو ان کی باچھیں کھل گئیں۔ان سب کو اپنے گھر میں بٹھایا، ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوکر ان سے تفصیلی گفتگو کی اور ایک باقاعدہ پلان بنا کر اگلی رات انھیں گھر سے رخصت کیا۔ رات میں پہاڑی راستے کا سفر اور اس پر طرہ یہ کہ لوگوں اور بستیوں سے بچ کر چلنا، کوئی مشکل سی مشکل تھی، لیکن ان اصحاب نے ہمت نہ ہاری اور تایکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس غنڈے کے گاں میں داخل ہوئے۔

ایک ساتھی نے تنہا جاکر محلے کی دکانوں سے اس کے گھرکا پتہ دریافت کیا اور پھر سب نے مل کر اس کے گھر پر ہلہ بول دیا۔وہ اس پہاڑی گھر کا گھیراکر کے جب اس کے اندر داخل ہوئے تو گھر بھر میں سناٹا تھا۔ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے پورا گھر چھان مارا۔ گھر میں

ایک لڑکی کے سوا کوئی نہ تھا۔یہ نوجوان لڑکی ابھی ابھی زچگی کے مرحلے سے گزری تھی ، اس عورت کی گود میں ایک بچہ تھا جو رو رہا تھا۔وہ بیچاری رو رو کر اپنی جان کی بھیک مانگنے لگی۔ابا جان نے بچے کو گود میں لے کر چمکارا اور اس کے ساتھ ہی اس نوجوان عورت کوبھی بڑی مشکل سے چپ کرایا اور یہ یقین دلایا کہ

” ہمیں عورتوں سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں صرف نانا پٹیل سے غرض ہے، ہمیں اس کے بارے میں بتا۔ تم میری بہن ہواور تم دونوں محفوظ ہو۔ سچ بولو گی تو تمہاری جان کو کوئی خطرہ نہیں۔ہمیں صرف یہ بتا دو کہ نانا پٹیل یہاں آیا تھا؟

اس لڑکی نے کہا، ” ہاں ! آیا تھا۔

” کہاں گیا؟“ اباجان نے پوچھا۔

” میں اس حالت میں کہاں جاسکتی تھی کہ مجھے علم ہوتا۔ بس اتنا جانتی ہوں کہ اسے تم لوگوں کے آنے کی خبر ہوچکی تھی، اس لیے وہ نکل گیا۔

گویا کہ اسے سرِ شام ہی مشکوک لوگوں کی نقل و حرکت کا پتہ چل گیا تھا اور اس نے ان لوگوں کو گھیرنے کا پلان بنایا تھا۔دکانوں پر جو لوگ نظر آئے تھے اب وہ بھی وہاں نہیں ہوں گے اور پورا علاقہ سنسان ہوگا۔ باہر جھانک کر دیکھا تو واقعی ایسا ہی تھا۔ گویا یہ لوگ نانا پٹیل کے جال میں بری طرح پھنس چکے تھے۔

اس لڑکی سے تعارض کرنا بیکار تھا، اس لیے اس سے یہ کہ کر کہ ” تو نے سچ بولا ہے اس لیے ہم تجھے کچھ نہیں کہیں گے“ سب باہر نکلے۔اباجان اور ان کے ساتھیوں نے پلان بنایا کہ اب پھنس تو چکے ہی ہیں، کیوں نہ چھا پا مارر کارروائی کے ذریعے اچانک حملہ کرتے ہوئے نکلنے
کی کوشش کی جاے۔

چوری چھپے باہر نکلنے کا پلان یوں ناکام ہوا کہ جوں ہی پہلا ساتھی گھر سے باہر نکلا، پہاڑی پر سے ایک بہت بھاری پتھر آکر ان کے عین سامنے گرا اور فوراً بعد ہی ایک شخص کا جسم لہراتا ہوا گرا۔ وہ شخص جو یقیناً ایک ہندو تھا اور اس پتھر کو گرا چکا تھا، زمیں پر گرتے ہی ایک لمحے کو تڑپا اور ٹھنڈا ہوگیا۔ اوپر سے اباجان کے ایک ساتھی سیف اللہ صاحب نے جو گھر کی چھت پر نگرانی کے لیے چھپے تھے، اوپر سے جھانک کر پہلے تودانت نکال کر باقی ساتھیوں کو کچھ موٹی موٹی گالیاں عنایت فرمائیں اور پھر احتیاط کا تقاضا کرتے ہوئے دوبارہ اپنی پوزیشن پر ڈٹ گئے۔اس ہندو کو پتھر گراتا دیکھ کر انھوں نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر اسے ٹانگ سے پکڑ کر نیچے پھینک دیا تھا۔
گھر سے نکلے تو دیکھا کہ وہ چاروں طرف سے گھیر لیے گئے ہیں۔ ہر طرف پہاڑیوں پر لوگ ہی لوگ نظر آتے تھے ، جن میں سے اکثر کے ہاتھوں میں آتشیں اسلحہ موجود تھا۔گاں سے نکلنے والے واحد راستے پر وہی غنڈا یعنی نانا پٹیل مبینہ طور پر اپنے ساتھیوں سمیت موجود تھا۔عبدالغنی صاحب نے رائفل کندھے پر رکھی ، نشانہ لیا اور ایک فائر داغ دیا۔ گولی تو اللہ جانے کدھر گئی لیکن عبدالغنی صاحب فو راً پلٹے اور ساتھیوں پر برس پڑے۔” یہ مجھے دھکا کس نے دیا؟
ان سب نے بیک وقت نشانہ لے کر اس طرف فائرنگ شروع کی اور لاشیں گراتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے۔دشمنوں میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ اپنے لیڈر سمیت کئی لاشیں چھوڑ کر بھاگے تو اِن لوگوں نے بخیر و عافیت اس علاقے سے نکل جانے ہی میں بہتری سمجھی اور واپس ڈپٹی کمشنرعبدالجبار صاحب کے بنگلے پر آکر ہی دم لیا۔
اگلی صبح ناشتے پر ڈپٹی کمشنر صاحب اور انکی بیگم خورشیدصاحبہ مہمانوں کی خاطر تواضح میں مصروف تھے کہ ملازم نے سرحد پار علاقے کے ہندو وفد کی آمد کی اطلاع دی۔ انھیں اس کمرے میں چھوڑ کر ڈپٹی کمشنر صاحب اس وفد سے ملاقات کے لیے ڈرائینگ روم میں تشریف لے گئے۔
ہندو وفدکے افراد نے جو ملحقہ ہندوستانی ضلع کے ڈپٹی کمشنر صاحب کی معیت میں آئے تھے، نہایت پراثر انداز میں تقریریں کیں اور مسلمان غنڈوں کی اس کارروائی سے ڈپٹی کمشنر کو آگاہ کیا جس میں اس گاں کے کئی معزز افراد بشمول نانا پٹیل نامی ایک شخص ہلاک و متعددزخمی ہوئے تھے۔ عبدالجبار صاحب نے کہا، ” تبلیغی جماعت کے لوگ ادھر نہیں آتے ۔ جو حلیہ آپ نے بتایا ہے ، وہ مجھے ان سکھ شرنارتھیوں کا لگتا ہے جنھیں حکومتِ ہند نے اس علاقے میں آباد کیا ہے ۔ یہ وہی لوگ ہو سکتے ہیں۔ بہر حال میں تحقیقات کروںگا۔
اس طرح ڈپٹی کمشنرصاحب نے ان لوگوں کو یقین دلایا کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جائے گی اور ملوث افراد کو قانون کی گرفت میں لے کر قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ ادھر یہ باتیں ہورہی تھیں اور ا دھر دوسرے کمرے میں محترمہ خورشید پلو اٹھا اٹھا کر اباجان اور ان کے ساتھیوں کو دعا یئںدے رہی تھیں۔ بقول ان کے ہر مرتبہ ان ہندوں کی حرکتوں سے تنگ آئے ہوئے مسلمان ان کے خلاف شکایت لے آتے تھے۔
آج پہلی مرتبہ یہ ہندو مسلمانوں کی شکایت لے کر آئے تھے۔
ادھر ہندو وفد رخصت ہوا اور ادھر اباجان اور ان کے ساتھیوں نے دونوںاشکبار میاں بیوی سے اجازت لی اور ڈھیروں دعائیں اپنے دامن میں سمیٹے حیدرآباد روانہ ہوئے۔
خاکسار تحریک کے کئی اصحاب اباجان کے گہرے دوست تھے اور ان کی دل سے عزت کرتے تھے ۔ وہ انھیں اپنے جلسوں میں خاص طور پر تقریر کے لیے دعوت دیا کرتے تھے۔ خاکساروں کے ایک جلسے میں اباجان نے حیدر آباد کی موجودہ حکومت کو بوجوہ آڑے ہاتھوں لیا اور وزیر اعظم صاحب جناب میر لائق علی کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوے کہا” میر لائق علی ! تم لائق نہیں ہو بلکہ نالائق ہو
جلسے سے فارغ ہوکر ابھی گھر بھی نہ پہنچنے پائے تھے کہ ’ گرفتا ر ہم ہوئے ‘کے مصداق دھر لیے گئے۔ پولیس نے فوراً پکڑ کر نقضِ امن کے الزام میں جیل پہنچادیا۔
جیل میں اس سیاسی قیدی کو اے کلاس دینے کے بجائے سی کلاس دی گئی اور اخلاقی قیدیوں کی طرح قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ گھر سے کھانا
منگوانے یا ملاقات جیسی تمام سہولیات سے محروم رکھا گیا۔ جیل میں پہنچتے ہی انھوں نے جو کپڑے زیب تن کیے ہوے تھے اتروا کر جیل کے
کپڑے پہنادیے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ تمام سامان بحقِ سرکار ضبط کرلیا گیا، یہاں تک کہ گردوں کی تکلیف سے بچنے کے لیے اباجان
نے جو چمڑے کی بیلٹ پہنی ہوئی تھی اسے بھی اتروالیا گیا کہ اجازت نہیں ہے۔
جیلر حیران تھا، اس نے کئی بار اباجان سے پوچھا کہ وہ کون ہیں ۔ کیا وہ کوئی بڑے سیاسی لیڈر ہیں جو انہیں اس قدر سخت قسم کی قیدِ تنہائی کا مستحق سمجھا گیا ہے۔ جواب نفی میں ملنے کے باوجود وہ حکم کا بندہ، اوپر سے ملے ہوئے احکامات بجا لایا اور یوں ابا جان کی قیدِ تنہائی کا آغاز ہوا۔
ابا جان نے مطالعے کے لیے کچھ کتابوں کا مطالبہ کیا لیکن وہ بھی مسترد کردیا گیا۔ یہ سیاسی قیدی اس قدر خطرناک تھا کہ اسے ہر قسم کی سہولیات سے محروم رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔
جیلر نے ابا جان کا صبر و استقامت کے ساتھ حالات کا سامنا کرنا دیکھا تو اسے یقین ہوگیا کہ ہو نہ ہو، یہ کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ اسی اثناءمیں ایک دن اسے انتہائی شدید سر درد ہوا تو اس نے اباجان سے اسکا ذکر کیا ۔ اباجان نے فوراً اسے اپنے دستِ خاص سے ایک مجرب و تیر بہدف تعویز لکھ کر دیا۔ اللہ کی کرنی اس جیلر کا سر درد ختم ہوگیا اور وہ اسی وقت سے اباجان کا مرید اور بے دام کا غلام ہوا۔ پھر کیا تھا ۔ جیلر کے گھر سے جو کھانا آیا کرتا تھا وہ اسے باصرار اباجان کو کھلاتا اور ان کے لئے آنے والے جیل کے کھانے کو خود زہر مار کرتا۔
اس جیلر نے ایک اور کام یہ کیا کہ ابا جان سے ان کتابوں کے نام لکھوالیے جو انھیں چاہیے تھیں اور ایک سپاہی کو خاص طور پر ان کے گھر بھیج کر کتابیں منگواکر اباجان کو مہیا کیں۔ پھر کیا تھا، اندھا کیا چاہے ، دو آنکھیں۔ ابا جان کو تنہائی میں کھانے کا آرام ہو ا اور کتابیں میسر آیئں تو انھوں نے اس صورتِ حال سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور اپنی من پسند کتابوں کا سکون سے مطالعہ کیا اور نوٹ بنایا کئے۔
میر لائق علی کی وزارت زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکی اور ہندوستان و ریاست حیدر آباد کی آزادی کے تقریباً ایک ہی سال بعد یعنی ۸۱ ستمبر ۸۴۹۱ءکو سردار والا بھائی پٹیل کی نگرانی میں پولیس ایکشن کے نام پر ہندوستان کی باقاعدہ فوج ”آپریشن پولو“ کرتی ہوئی حیدر آباد میں داخل ہوگئی۔رات کے تقریباً دس بجے ہوں گے کہ جیلر گھبرایا ہوا اباجان کے سیل میں داخل ہوا اور اباجان سے کہنے لگا۔
” مولوی صاحب! آپ ابھی فوراً یہاں سے چلے جائیے۔ آپ کی رہائی کے احکامات آچکے ہیں۔
ابا جان نے کہا۔” اس وقت رات کو میں کہاں جاں گا۔ اس وقت رہنے دیجئے “
لیکن آپ کی رہائی کے احکامات آچکے ہیں اور اب میں آپ کو یہاں پر مزید نہیں رکھ سکتا۔
لیکن اس وقت آدھی رات کوتو میں کہیں بھی نہیں جارہاہوں۔
اچھا تو پھر ٹھیک ہے۔ آپ رات بھر یہاں رہیئے اور صبح روانہ ہوجائیے۔

صبح ایک اور مسئلہ درپیش ہوا۔ اباجان نے ناشتہ کیے بغیر وہاں سے جانے سے صاف انکار کردیا۔ بے چارے جیلر نے ابا جان کے گھر ایک آدمی بھیج کر ناشتہ منگوایا اور یوں ابا جان نے سکون سے ڈٹ کر ناشتہ کیا ، اپنا سامان وصول کیا اورجیل سے رہا ہوکر باہر نکلے۔


باہر عجب حال تھا، ہر شخص ڈرا ڈرا سہماسہما سا نظر آیا۔ کوئی بھی آنکھیں ملا کر بات کرنا نہیں چاہ رہا تھا۔ یہ صورت ریاستِ حیدرآباد کے لیے نئی تھی۔ وہ شہر جہاں ہر شخص تلوار لگائے گھوما کرتا تھا، آج کسی شخص کی کمر میں تلوار نظر نہیں آرہی تھی۔ لوگوں کا لباس تک بدل گیا تھا، شیروانی اور ٹوپی غائب تھی۔ لوگ ابا جان کی کمر سے لٹکتی ہوئی تلوار کو کنکھیوں سے چوری چوری دیکھ کر فوراً ہی نظر ہٹا لیتے۔ ابا جان نے کئی رکشا والوں کو روکا لیکن وہ کنی کترا گئے۔ جو رکے انھوں نے اباجان کی تلوار کو دیکھتے ہی جانے سے صاف انکار کردیا۔ بالاآخر ایک ر کشے والے کو زبردستی پکڑ کر اباجان گھر کے قریب اترے اور قریبی پان کی دکان پر پہنچے تواصل صورتِ حال کا پتا چلا۔ ہندوستان سرکار نے راتوں رات حیدرآباد ریاست پر فوج کشی کی تھی اور آن کی آن میں پورے حیدرآباد پر قبضہ جما کر اسے اپنے اندر ضم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ ہرچند کہ نظام حیدرآباد آصف جاہ ہفتم میر عثمان علی خان اور تمام رضاکار ریاست حیدر آباد کا پاکستان سے الحاق یا کم از کم حیدرآباد کو ایک آزاد ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے لیکن ان کی ایک نہ چلی اور حیدرآباد جو1724ءسے ایک آزاد آصف جاہی ریاست کے طور پر موجود تھا ہندوستان کے توسیع پسندانہ عزائم کا بالآخر شکار ہوگیا۔

اباجان پیر صاحب کے کمپاونڈ میں اپنے گھر پہنچے ۔ ایک دن پہلے تک وہ ایک قیدی تھے، آج وہ ایک غلام ریاست کے نام نہاد ’آزاد‘شہری تھے ۔ ابا جان کے والدین کمپاونڈ کے باہر ایک گھر میں رہتے تھے۔اباجان نے اپنے والدین سے ملاقات کی اور پھر کمپانڈ میں اپنے گھر چلے آئے۔ دونوں چھوٹے بھائی سرور اور ہاشم، کمپاونڈ میں موجود مسجد ہی میں نماز پڑھنے آیا کرتے تھے۔ اباجان سے ملاقات کے بعد دونوں رات کو واپس اپنے گھر چلے گئے ، اس امید پر کہ کل صبح پھر وہ چھوٹے بھائی کو دیکھ سکیں گے۔

اگلے دن اباجان فجر کی نماز کے لیے اٹھے تو فضاءاور ہی تھی۔ کمپاونڈ کو چاروں طرف سے فوج نے گھیر لیا تھا۔ وہ خوش ہوئے کہ سرور اور ہاشم رات ہی کو واپس چلے گئے تھے، لیکن ان کی یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی اور سرور اور ہاشم دونوں دوڑتے ہوئے کمپاونڈ کے اندر داخل ہوئے۔ اباجان کے پوچھنے پر کہنے لگے۔

” باہر فوجی ہمیں اندر آنے سے روک رہے تھے۔ ہم نے انھیں کہہ دیا کہ مسجد میں نماز پڑھنا ہمارا حق ہے اور وہ ہمیں اس حق سے محروم نہیں کرسکتے۔

پھر انھوں نے کیا کہا؟

وہ ہمیں اندر آنے سے نہیں روک سکے ، اور کیا۔

نماز کے بعد گرفتاریاں شروع ہوئیں اور تمام لوگوں کو پکڑ کر جیل پہنچا دیا گیا۔اور یوں اباجان کی بیس ماہ طویل قید کا آغاز ہوا۔ قید میں اباجانکے ساتھ تمام اصحاب، ریاست حیدرآباد کے دسیوںرضاکار اور دونوں چھوٹے بھائی بھی شامل تھے۔ اس مرتبہ سب لوگوں کو ایک ہی کھلے وارڈ میں رکھا گیاتھا۔ یہ قید ایک انتہائی دلچسپ اور شرارتوں بھری قید ثابت ہوئی جس کا احوال قاری کو درج ذیل تفصیل سے معلوم ہوگا۔

اباجان کے پیر بھائیوں میں سے چار سو مرد گرفتار ہوئے۔ ان سب کو ایک ہی وارڈ میں رکھا گیا تھا، اور یہ خاص رعایت دی گئی کہ اس ایک وارڈ کے تمام قیدی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل سکتے تھے، انھیں اپنے سیل ہی تک محدود نہیں رکھا گیا تھا۔ یہ وارڈ جیل کی سی کلاس میں تھا۔ صرف چند لوگوں کو اے کلاس دی گئی تھی جن میں ان کے پیر صاحب یا وہ حضرات جو بی اے پاس تھے وغیرہ شامل تھے جوتعداد میں تقریباً دس تھے۔ اباجان کے ساتھ ان کے تحریکی ساتھیوں کے علاوہ دو ہزار کے لگ بھگ رضاکار بھی تھے۔ مذہبی لوگ ہونے کے ناطے ان سے جیل کی کوئی مشقت وغیرہ بھی نہ لی گئی اور نہ انھیں قیدِ تنہائی جیسی عقوبتیں دی گئیں۔

شروع شروع میں جو پہلا جیلر انھیں ملا وہ ذرا سخت قسم کا تھا۔جیل کا جوپہلا وارڈ انھیں نصیب ہوا، اس میں روشنی کا مناسب انتظام نہیں تھا، بہت کم بلب لگے ہوئے تھے اور ان کے فیوز ہوجانے پر تبدیل بھی نہ کیے جاتے۔ پڑھنے لکھنے کی آزادی حاصل نہیں تھی۔ یہ وارڈ جیل کےصدر دروازے کے قریب تھا اور یہاں کی کھڑکیوں سے صدر دروازہ نظر آتا تھا۔ ساتھیوں نے اس بد تمیز جیلر سے انتقام لینے کی ٹھانی۔ جوںہی وہ بے چارہ جیلر اپنی ڈیوٹی ختم کرکے گھر جانے کے لیے صدر دروازے سے باہر نکلتا، سب ساتھی کھڑکیوں پر جمع ہوجاتے اور اس پرجی بھر کر آوازے کستے ، لعن طعن کرتے اور اسے گالیوں سے نوازتے۔کچھ دن تو وہ یہ ہیت کذائی برداشت کرتا رہا،آخر کار جب نہ رہا گیا تو اس نے سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کرلیا۔ ان تمام شرارتی قیدیوں کا تبادلہ ایک دوسرے وا رڈ میں کردیا گیا ۔

قیدی بھی اس صورتحال کے لیے تیار تھے۔ انھوں نے نئے وارڈ میں پہنچتے ہی وہاں کے دو کے علاوہ تمام اچھے بلب نکال کر ایک سوکھے گٹر میں چھپادیے اور رات ہوتے ہی ہنگامہ کردیا کہ روشنی ہی نہیں ہے۔ اگلی صبح اس وارڈ میں کچھ نئے بلب لگا دئےے گئے۔ ایک دن اس طرح گزرا ۔ اگلے دن انھوں نے دواچھے بلبوں کی جگہ دو خراب بلب لگا دیے ۔ اسی طرح کرتے کرتے ان لوگوں کے خفیہ خزانے میں کئی اچھے بلب جمع ہوگئے۔ اب یوں ہوتا کہ دن کے وقت تو کسی بھی معائنے کے پیشِ نظر خراب بلب لگے ہوئے ہوتے اور رات کو جب وارڈ کو تالا لگا دیا جا تا تو ان لوگوں کی کارروایاں شروع ہوتیں، خراب بلبوں کی جگہ اچھے بلب خفیہ خزانے سے نکال کر لگا دئیے جاتے اور وارڈ میں گویادننکل آتا۔ اب ان کی ادبی اور تہذیبی سرگومیاں شروع ہوتیں۔ کہیں شطرنج اور چوسرکی محفل جمتی تو کہیں ادبی و سیاسی گفتگو کی بیٹھک ہوتی۔ اباجان چونکہ عربی ، فارسی اور انگریزی سمیت کئی زبانوں کے عالم تھے، انھوں نے زبان دانی اور درسِ قرآن کے سبق دینے شروع کردیئے جن میں ان کے دونوں چھو ٹے بھائیوں سرور ا ور ہاشم کے علاوہ کئی اور شاگرد موجود ہوتے۔ رفتہ رفتہ شاگردوں کی تعدادمیں اضافہ ہوتا چلا گیا، اوردرس و تدریس کا یہ سلسلہ ایک مستقل مدرسے کی شکل اختیار کرگیا۔

ادھر دن کے وقت ان قیدیوں نے ’بیکار مباش کچھ کیا کر‘ کے مصداق، کمپاؤنڈ میں کھیتی باڑی کا پروگرام بنایا اور آپس میں محتلف قطعے تقسیم کرکے ان میں سبزی اور دیگر اشیاءاور پھول دار بوٹے کاشت کرنے شروع کردیئے۔ آپس میں بہتر سبزی کاشت کرنے کا مقابلہ ہوتا اور اس کام کے لیے محتلف قسم کی ترکیبیں لڑائی جاتیں۔

سب سے بڑا مسئلہ کھاد کی عدم دستیابی کی صورت میں سامنے آیا۔پانی تو بہر طور دور سے بالٹیوں کے ذریعے لالا کر ڈالا جاسکتا تھا۔ ہر چند کہ سبزیوں اور پھولوں کی نہ صرف خاطر خواہ دیکھ بھال کی جاتی بلکہ ان کی نشو و نماءکے لیے دیگر جتن بھی کیے جاتے مگر کچھ خاطر خواہ نتیجہ نکلتاہوا نظر نہ آیا۔ جیلر سے کھاد کی درخواست کی گئی لیکن یہ درخواست کسی گونگی بہری بھینس کے سامنے بین بجانے کے مترادف ثابت ہوئی تو قیدی کونسل کا اجلاس بلایا گیا کھاد کی پیداوار اور دستیابی کے لیے متبادل ذرائع اختیار کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کیا گیا۔لیکن کوئی نتیجہ خیز بات پھر بھی سامنے نہ آسکی۔

رات آئی تو اباجان کے ایک بزرگ قسم کے ساتھی نے اپنے تیئں ایک فیصلہ کرلیا اور رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے باہر سے مٹی کاایک ٹھیکرا اٹھا کر لائے، منہ اور ہاتھوں پر کپڑا لپیٹ کر اس کے اوپر ٹاٹ کی تھیلی چڑھائی اور ایکشن کے لیے تیار ہو گئے۔لیٹرین کے اندر پہنچے اور مٹی کے ٹھیکرے کو بھر کر کیاریوں تک پہنچایاہی چاہتے تھے تھا کہ بدبو نے ارد گرد کے ساتھوں کا ناک میں دم کردیا اورساتھیوں کے شور مچانے پر انھیں اپنا مشن ادھورا ہی چھوڑکر باتھ روم بھاگنا پڑا۔ ہاتھ منہ دھوکر معصومانہ انداز میں باہر نکلے گویا کچھ ہوا ہی نہ تھا، لیکن ایک اور ساتھی ر وشن دین یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے انھوں نے بھرے بازار میں گویا بھانڈا پھوڑ دیا۔

” حضرات ! ایک ضروری اعلان سماعت فرمائیے۔“ اُنھوں نے ان بزرگ کی طرف دیکھتے ہوئے نہایت بلند آواز میں کہنا شروع کیا ہی تھا کہ وہ بزرگوار ان کا عندیا سمجھ گئے اور لٹھ لیکر ان کے پیچھے دوڑے۔ باقی لوگ جو بدبو سے ویسے ہی پریشان تھے یہ منظر دیکھ کر خوب محظوظ ہوئے لیکن بزرگوار کا غصہ کئی دن بعد ان کی سمجھ میں آیا جب روشن دین صاحب نے پٹتے ہوئے ان کا راز فاش کردیا۔

بزرگ ساتھی نے، گو روشن دین کو خوب پیٹا ،جی بھر کر پیٹااور اپنے دل کی بھڑاس نکالی لیکن ان کاپول کھل چکا تھا،اور یہ واقعہ آنے والے کئی دنوں تک ساتھیوں کے لئے دل لگی کا باعث بنا رہا۔
انھی دنوں قیدیوں کی طرف سے چوہوں کی اکثر شکایات سننے میں آرہی تھیں۔ لہٰذہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کافیصلہ کیا گیا ۔دن ہی دن میں وارڈ کی تمام آبی گزر گاہوں اور دیگر سوراخوں کا جائزہ لیا گیااور ان کے لئے مناسب رکاوٹیں تلاش کر کے رکھ لی گئیں۔ رات ہوتے ہی ان تمام سوراخوں کو نہایت احتیاط کے ساتھ بند کر دیا گیا۔تمام مجبور و مقہور قیدیوں نے ہاتھوں میں ڈنڈے، لکڑی کے ٹکڑے اور جوتے چپل وغیرہ سنبھال لیے اور پھر اسی احتیاط کے ساتھ ایک سوراخ کو کھولا گیا اور تمام لوگ الرٹ ہوگئے۔
کچھ ہی دیر میں ایک چوہا باہر سے اندر آیا ، ادھر ادھر گھوما کیا اور کچھ دیر بعد باہر چلا گیا۔ شکاری دم سادھے ہوے تیار کھڑے تھے لیکن ایک خاص حکمتِ عملی کے تحت اس اکیلے چوہے کو کچھ نہ کہا گیا۔ تھوڑی دیر میں وہ چوہا دلیرانا انداز میں دوبارہ اس سوراخ سے اندر داخل ہوا، اب اس چوہے کے پیچھے دوسرے چوہوں کی ایک لمبی قطار نظر آئی۔ان سب چوہوں کوبھی اندر آنے سے نہ روکا گیا۔جب ایک اچھی خاصی تعداد ان بد نصیب چوہوں کی اندر داخل ہوچکی تو اس واحد سوراخ کو بند کر دیا گیا اور شکاری اپنے اپنے ہتھیار سنبھالے ان چوہوں پر پل پڑے۔ اب کیا تھا۔ مار مار کر ان چوہوں کا بھرکس نکال دیا گیا اور ان سب چوہوں کی لاشیں پودوں کی کھاد میں استعمال کرنے کے لیے سنبھال لی گئیں۔اس رات وارڈ میں وہ دھما چوکڑی مچی کہ الامان و الحفیظ۔ اگلے دن صبح ہوتے ہی گارڈ فورا ًاندر داخل ہوئے اور ایک ایک
قیدی کا بغور معائنہ کرنے لگے۔ ان کے خیال میں رات اچھی خاصی سر پھٹول ہوئی تھی اور اس وقت وہ زخمیوں کو جمع کرنے کے لیے آئے
تھے۔ وہ زخمی قیدیوں کے بجائے مردہ چوہوں کی ایک اچھی خاصی بڑی تعداد دیکھ کر حیران رہ گئے اور بغیر کچھ کہے واپس چلے گئے۔
وہ دن ان قیدیوں کے لیے ایک بہت مصروف دن تھا۔ سارا دن سب مل کر کیاریوں کو کھودا کیے اور چوہوں کو دبایا کیے۔لگتا تھا کہ وہ ساری زندگی مالی کاکام ہی کرتے چلے آئے ہیں۔ دن ڈھلا تو کیاریاں ایک بار پھر سے صاف ستھری ہوچکی تھیں اور ان میں دور سے بالٹیوں کے ذریعے پانی بھی لاکر ڈالاگیاتھا۔
ان کی محنت رنگ لائی اور کچھ ہی دنوں میں کیاریاں رنگ برنگے پھولوں اور مزے مزے کی سبزیوں سے سج گیئں۔ جنگل میں منگل کا سا سماں تھا۔ جیلر اور گارڈز نے جو ساری زندگی قاتلوں چوروں اور عادی مجرموں کو ان وارڈوں میںاپنی قید کے دن گن گن کر گزارتے دیکھا تھا، کب اس طرح کے خوبصورت مناظر دیکھے تھے۔وہ اس باد بہاری سے ناآشنا تھے۔انھیں یہ سب کچھ بہت اچھا لگا۔ رفتہ رفتہ ان قیدیوں
کی طرف سے انھیں اطمینان ہوتا چلا گیا کہ یہ لوگ عادی مجرم ہرگز نہیں ہیں بلکہ سیاسی حالات کے پلٹا کھانے کی وجہ سے ان کال کوٹھریوں میں آن پڑے ہیں۔ انھیں ان سیدھے سادھے مذہبی لوگوں پر ترس آنے لگا اور یوں ان کی جیل کی زندگی نسبتاً آسان ہوتی چلی گئی۔
انھی دنوں انسپکٹر جیل خانہ جات اس جیل کے معائینے کے لئے تشریف لائے۔ہر وارڈ سے ایک ایک شخص کو چنا گیا تاکہ انسپکٹر صاحب اس سے انٹرویو کرسکیں۔ اس وارڈ سے’ قرعہ فال بنامِ منِ دیوانا زدند‘یعنی ساتھیوں کے مشورے کے ساتھ اباجان کے نام نکلا۔اباجان نے پہلے ہی سے اپنے تمام ساتھیوں کو اسپیشل ھدایات دیدیں تاکہ معائنے کے وقت کام آوے اور خود کشاں کشاں ایک گارڈ کی معیت میں انسپکٹر صاحب کے حضور میں پہنچے۔
انسپکٹر نے سلام کلام کے بعد طبیعت پوچھی اور پھر اس رسمی گفتگو کے بعد بر سرِ مطلب آیا اور اباجان سے ان کے اور انکے حوالاتی ساتھیوں کے ماضی سے متعلق سوالات کرنے شروع کیے۔ جوابات پہلے ہی سے تیار تھے۔ اباجان نے اپنے تبلیغی مشن کو دل کھول کر بیان کیا اور بڑھ چڑھ کر اسکی وکالت کی۔ اسلحہ کی نمائش، تخریب کاری، ہلڑبازی، قتل و غارت گری ؟ایں چہ معنی دارد؟ بقول شاعر
عشق کی بات بیسوا جانیں
ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں
اباجان نے اس بات پر زور دیا کہ وہ سب لوگ ایک اسلامی تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا کام لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیناہے۔ بس اور کیا۔
معائنے کے لیے انسپکٹر کے ساتھ اپنے وارڈ میں پہنچے جہاں پر ایک طرف کچھ ساتھی شطرنج اور چوسر کی بازی لگائے ہوئے تھے تو کچھ لوگ دوسری طرف فرشی نشستوں پر بیٹھے ، موٹی موٹی کتابیں درمیان میں رکھے ہوئے ، دینی و تہذیبی قسم کے مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔ اُدھر تیسری طرف اباجان کا لگایا ہوا مدرسہ اپنی آن بان کے ساتھ جاری و ساری تھا۔
انسپکٹر اس مظاہرے سے بہت مرعوب ہوا ، ادھر وہ ان قیدیوں کے لگائے ہوئے باغ،خوشنماسبزیوں اوررنگ برنگے پھولوں سے لدی ہوئی کیاریوںکو بھی دیکھ چکا تھا۔ اس نے خاطر خواہ اپنی سفارشات مرتب کیں اور ان میں لکھا کہ یہ سب سیدھے سادھے قسم کے، مذہبی جنونی
لوگ ہیں جن کا بادی النظر میںاخلاقی جرائم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رہی ارد گرد کے علاقوں کی یہ شکایات کی یہ لوگ ان پر حملوں میں ملوث ہیں تو اس بارے میں پولیس کی تفتیش جاری ہے اور اس کے مکمل ہونے پر ہی کوئی کارروائی کی جائےگی۔اس اثناءمیں یہ لوگ شریف قسم کے پر امن شہری ثابت ہورہے ہیں، جن کے بارے میں حکومت کی طرف سے نرم رویہ اختیار کیا جانا چاہیئے۔
ان سفارشات کو بالاآخر جسٹس پنٹو نے درخور اعتناءجانا اوران قیدیوں کے متعلق فیصلہ سنایا کہ ان کے اچھے رویہ کے نتیجے کے طور پر ان لوگوں کے ساتھ بہتر برتاکیا جائے، انھیں کھانے پینے رہنے اور مطالعہ وغیرہ کے لئے بہتر ماحول مہیا کیا جائے۔ ساٹھ سال کی عمر تک کے قیدیوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔ ان کے علاوہ جن قیدیوں پر فوجداری مقدمات نہیں ہیں انھیں بھی جلد از جلد رہا کرنے کے انتظامات کئے جائیں۔
جسٹس پنٹو کے احکامات پر فی الفور عمل کیا گیا اور نتیجتاًقیدیوں کو کھانے کے لئے بہتر ا نتظام کیا گیا۔ انھیں مفت چائے کی پتی، خشک دودھ اور چینی وغیرہ فراہم کی گیئں تاکہ وہ اپنی بیرک ہی میں چائے بنا سکیں۔ پڑھنے کے لیے قیدیوں کو کتابیں فراہم کی گئیں اور ان کی کھیتی باڑی کے کھاد بھی مہیا کی گئی۔ یہاںتک کہ ان قیدیوں کو اپنی اگائی ہوئی سبزیاں پکانے اور کھانے کی بھی اجازت دیدی گئی۔ادھر قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی بھی شروع ہوئی۔
اباجان اور ان کے ساتھیوں پر سرحدی علاقے میں لوٹ مار اور قتل وغارت گری کا مقدمہ قائم تھا، لہذہ ان کی رہائی خارج از امکان تھی۔ انھی دنوں پولیس نے ان قیدیوں کی شناختی پریڈ کروائی۔نانا پٹیل کے گاںمیںحملے کے وقت گھر میں موجود ایک مرہٹی لڑکی نے ان ڈاکوں کو بہت اچھی طرح سے دیکھا تھا اور وہ ہی انھیں پہچان سکتی تھی، لہٰذہ اس گاں سے اس لڑکی کو بلا کر ان قیدیوں کا سامنا کروایا گیا۔
یہ وقت بہت اضطراب کا تھا۔ اباجان کو یقین تھا کہ وہ لڑکی انھیں ضرور پہچان لے گی۔ جب آمنا سامنا ہوا تو اس کی آنکھوں میں شناسائی کی جھلک بھی نمایاں تھی۔ اس نے انھیں پہچان لیا تھا اور عین اس وقت جب اباجان کو یقین ہوگیا کہ اب وہ انھیں پہچان لینے کا اعلان کرے گی، اس نے پیچھے مڑکر کہا
” نہیں ! یہ وہ نہیں ہیں
تین مرتبہ شناختی پریڈ ہوئی اور تینوں مرتبہ اس نے اباجان کو پہچاننے سے صاف انکار کردیا۔ یہ یقیناً اس احسان کا بدلہ تھا جو اباجان نے اس اس کی جان بخشی کرتے ہوئے اس پر کیا تھا۔اس لڑکی نے یقیناًاحسان کا پاس رکھاتھا، وہ کیسے کہہ دیتی کہ اس رات اس کا بھائی اسکے گھر آیا تھا اور اسکی اور اسکے بچے کی جان بخشی کرتے ہوئے انھیں تسلیاں دی تھیں ۔انھیں دلاسا دیا تھا کہ وہ محفوظ ہیں اور انھیں کچھ نہیں ہوگا۔کس طرح وہ جانتے بوجھتے ہوئے اپنے بھائی کو موت کے منہ میںدھکیل دیتی۔ اس نے وہی کیا جو اسے کرنا تھا۔ اس نے صاف صاف جھوٹ بول کر اپنے احسان کا بدلہ چکا دیا ۔اباجان اور ان کے ساتھی موت کے منہ سے نکل آئے تھے۔