Tuesday, October 29, 2013

باب ہشتُم: سوئے منزل چلے

 باب ہشتم۔فسانہ آزاد

سوئے منزل چلے
محمد خلیل الر حمٰن
(نوٹ: یہ باب وہ واحد داستان ہے جو ہم اباجان کی زندگی میں لکھ کر انھیں سنا چکے تھے۔ ان کی ڈانٹ اب بھی یاد ہے کہ” ابے! اپنے باپ کو اس قدر بڑھا چڑھا کر بیان کررہا ہے“۔ان کی وفات کے بعد اس میں ردو بدل کرنے کا دل نہ چاہا تو اسے من و عن ہی رہنے دیا۔)
اباجان کو سرور چچا کی چھوٹی بیٹی کے امتحان میں اول آنے کی خبر سنائی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ مسرور لہجے میں کہنے لگے۔
© ” سرور کے دل میں بھی پڑھائی کا شوق میں نے ہی ڈالا۔ جیل میں جب وقت نہ گزرتا تو میں نے اپنی افتادِ طبع سے مجبور ہوکر ساتھیوں کو عربی پڑھانی شروع کردی، رفتہ رفتہ میرے گرد پندرہ بیس نوجوان طالب علم جمع ہوگئے اور روز عربی کے سبق لینے لگے۔ گردانیں طویل ہوتی چلی گئیں، اور یہ سلسلہ کئی مہینوں تک جاری رہا۔ دونوں چھوٹے یعنی سرور اور ہاشم بھی جیل میں میرے ساتھ تھے، لہٰذہ دونوں ہی شوق سے روزآنہ سبق لینے لگے۔“

یہ قصہ ہے سقوط ِ حیدرآباد کا اور اس کے بعد اباجان کے جیل کاٹنے اور نتیجے کے طور پر رہا ہوکر پاکستان پہنچنے کا۔ لیکن اباجان کے دیگر محیر العقل کارہائے نمایاں کی طرح یہ بھی حیرت انگیز واقعات سے پر ہے۔ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ سچا واقعہ ہے یا کسی حیرت انگیز ناول کا کوئی دلچسپ باب، جس میں ہر صفحے پر نت نئے سنسنی خیز واقعات بھرے پڑے ہوں۔
اباجان کے جیل پہنچنے اور وہاں پر انتہائی دلچسپ بیس ماہ گزارنے کا تذکرہ پھر کبھی بیان کروں گا۔ آج کا قصہ ان کے آزادی کا پروانہ ملنے کے بعد کے واقعات سے متعلق ہے۔ آزادی کا پروانہ ملتے ہی ضروری کپڑے اور ایک ایک کمبل قیدیوں میں بانٹے گئے، اباجان اور دونوں چھوٹے بھائیوں نے کمال ہوشیاری سے ایک ایک کمبل اور ہتھیالیا اور انھی کمبلوں نے نہ صرف راستے میں بلکہ اگلے کئی مہینوں تک ان کا ساتھ دیا اور انھیں ٹھٹھرتی ہوئی سردی سے محفوظ رکھا۔ تقریباً اٹھارہ بیس ساتھیوں کا یہ قافلہ حیدرآباد جیل سے نکلا اور ٹرین میں بیٹھ کر برار کی طرف روانہ ہوا۔ آکولا اسٹیشن پہنچ کر سب ساتھیوں نے اپنے اپنے سامان ِ سفر کو سمیٹ کر تینوں بھایں کی مدد سے اسے پٹریوں کے پار ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم اور دوسرے پلیٹ فارم سے تیسرے پلیٹ فارم تک پہنچایا اور پھر نہایت گرم جوشی سے رخصت ہوئے تو یہ تینوں بھائی اس وسیع وعریض سرزمین پر یکہ و تنہا حسرت و یاس کی تصویر بنے کھڑے رہ گئے۔اباجان نے سب سے پہلے خود کو سنبھالا اور دونوں چھوٹے بھائیوں کو تسلی دی جو ان رخصت ہونے والے جیل کے ساتھیوں کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ لو یہ بھی گئے۔اباجان نے ملکِ خدا تنگ نیست و پائے گدا لنگ نیست کے مصداق قدم بڑھائے کہ لو ، اب ”سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد
چلے گا بنجارہ“۔ ان بنجاروں کے پاس شاید ان دوہری کمبلوں اور چند کپڑوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا اور نہ ہی ہندوستان کی اس وسیع و عریض سر
زمین پر سر چھپانے کے لیے کوئی ٹھکانہ۔ واپس باسم جانے کا تصور ہی لرزہ خیز تھا، جہاں پر خونخوار ہندو انہیں جان سے مارنے کے لیے ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ صرف ایک نام تھا، ڈاکٹر عمر خان صاحب ڈینٹسٹ کا، جو اس شہرِ غدار میں ان کا کچھ سہارہ بن سکتا تھا، لہٰذہ اباجان نے ڈاکٹر عمر خان صاحب کی تلاش کا قصد کیا۔ دل میں ٹھان لی تھی کہ ہار نہیں مانیں گے۔ جس اللہ کی وحدانیت کے گن گاتے پھرتے تھے ، اس اللہ نے انہیں موت کے پنجے سے یوں نکالا تھا کہ ان کا بال تک بیکا نہیں ہوا تھا۔
ہزاروں ہندوں کے گھیرے کو اپنے زورِ بازو کے بل بوتے پر توڑ کر نکل آنا ہنسی کھیل نہیں ہے۔ اور اب جیل کے تھکا دینے والے بیس ماہ بھی اپنے اختتام کو پہنچے تھے اور ان پر کوئی الزام ثابت نہ ہونے کے باوجود بھارت سرکار نے انہیں حیدر آباد کے لیے ممکنہ خطرہ سمجھتے ہوئے چوبیس گھنٹوں میں ریاست حیدرآباد سے بیدخل ہونے کا حکم سنایا تھا۔
آکولا اسٹیشن سے باہر نکلے تو سناٹے میں ایک طرف ایک سرائے کے سامنے باسم جانے والی لاری کھڑی تھی جو صبح سویرے روانہ ہونے والی تھی۔ اس لاری کا کلینر یعقو ب سر ائے کی ایک چارپائی پر لحاف اوڑھے لیٹا ہوا تھا ، انہیں دیکھتے ہی آواز لگائی، ” ہے کوئی مسافر ، باسم نان اسٹاپ۔
اباجان نے اسے پہچانتے ہوئے فوراً بلند آواز میں کہا۔
” کیوں رے! یعقوب کیا ارادے ہیں؟“ 
” اسمٰعیل بھائی ؟ “ یعقوب لپکا اور اباجان سے بغلگیر ہوگیا۔
اباجان نے علیک سلیک کے بعد مختصراً اسے اپنے حالات سے آگاہ کیا اور کہا۔
” میں ذرا ڈاکٹر عمر خاں صاحب کی تلاش میں جارہا ہوں۔ تم ان دونوں بچوں کا خیال رکھو۔“
یعقوب نے سرور چچا اور ہاشم چچا کو گلے سے لگا لیا اور بولا۔
” تم ان کی فکر نہ کر و۔ میں انہیں اپنے بستر پر ساتھ سلا لیتا ہوں اتنے تم ڈاکٹر صاحب کی تلاش کر آ۔
اس نے دونوں کو چار پائی پر لٹا کر اچھی طرح لحاف اڑھادیا اوراباجان رات کی تاریکی میں ڈاکٹر عمر خان کی حویلی کی تلاش میں نکل
کھڑے ہوئے۔


آخرِ کار تھوڑی سی تگ و دو کے بعد انکی حویلی نظر آگئی۔ قریب پہنچ کراباجان نے آواز دی۔
” ڈاکٹر عمر خان صاحب ہوت۔“
” کون ہے رے؟“ کافی دیر کی سمع خراشی کے بعد اوپر سے ایک کرخت آواز نے جوب دیا۔
” ڈاکٹر عمر خان صاحب ہیں؟“
” یہاں کوئی ڈاکٹر عمر خاں نہیں رہتے۔“
بھائی! پہلے تویہیں رہتے تھے۔
”رہتے تو تھے مگر اب نہیں رہتے۔“
کچھ اتا پتا ہے انکا؟
ہاں شاید ، ۔۔۔ حویلی میں منتقل ہو گئے تھے۔
شکریہ بھائی! رات کے وقت تمہیں تنگ کرنے پر معذرت۔
اباجان ۔۔۔ حویلی کی تلاش میں نکلے۔اباجان ، بقول خود انکے ، ”رات کے اندھے“ ، اور رات تین بجے کا اتھاہ سناٹا اپنی تاریکی سمیت چاروں طرف چھایا ہوا، ایسے میں جائیں تو جائیں کہاں؟ لیکن کہتے ہیں کہ ڈھونڈنے والے کو خدا بھی مل جاتا ہے، پھر یہ ۔۔۔ 
حویلی بھلا کیا چیز تھی۔ ایک گھنٹے تک تاریکیوں میں بھٹکنے کے بعد گویا نورِ سحر کی طرح ملی۔ صبحِ صادق ہونے والی تھی۔ حویلی پر پہنچ کر پھر آواز لگائی۔
” ڈاکٹر عمر خاں بھائی ہوت۔“
اوپر سے لالٹین ہاتھ میں لیے ڈاکٹر صاحب نے جھانکا۔
”کون ہو بھائی؟“
” جی میں اسمٰعیل ہوں۔ حیدرآباد سے آیا ہوں۔“
” اچھا میں ابھی حاضر ہوتا ہوں۔“
لٹھ اور لالٹین ہاتھ میں سنبھالے ہوئے نیچے اترے اور سوال کیا ۔
” سامان وغیرہ کہاں ہے؟“
اباجان نے جواب دیا۔” اسٹیشن پر بچوں کے ساتھ ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے قریب ہی کھڑے ہوے ایک تانگے کے کوچوان کو نیند سے اٹھایا، تانگا حرکت میں آیا اور ڈاکٹر عمر خان اباجان کے ساتھ اسٹیشن پہنچے، دونوں بچوں کو اٹھایا اور واپس حویلی پہنچ کر والد کو ایک کمرہ دکھانے کے لیے لالٹین اوپر اٹھائی تو حیران رہ گیے ۔
” ارے ! اسمٰعیل تم؟“
” کیا واقعی ! آپ نے پہلے پہچانا نہیں تھا؟“
” نہیں۔ ہم تو یہاں حیدرآباد سے آنے والے مسلمانوں کی آمد کے منتظررہتے ہیں تاکہ انھیں مناسب سہولیات فراہم کر سکیں۔“
اپنا بستر اور اپنا کمرہ ملا تو تینوں بھائی فوراً ہی بستر پر ڈھیر ہوگیے اور یوں انٹا غفیل ہوکر سوئے کہ اگلے دن سہہ پہر کی خبر لائے۔
کمرہ یوں بند ہوا کہ جب اگلے دن دوپہر تک بھی نہ کھلا تو دیگر اصحاب کو سخت تشویش لاحق ہوئی کہ کہیں ہندوں نے انھیں زہر کھلا کر تو نہیں بھیجا تھا؟ طے یہ ہوا کہ اگر اگلے ایک گھنٹے میں بھی دروازہ نہ کھلا تو پھر دروازہ توڑنا پڑے گا۔
دروازہ توڑنے کی نوبت تو نہ آئی اور یوں اباجان کو سر چھپانے کی جگہ میسر آگئی تو اباجان کو فکر ِ معاش لاحق ہوئی۔ ڈ اکٹر عمر خان کے کلینک کے ایک کونے میں اپنا ایک میز کا دفتر بنایا اور لگے نت نئی اسکیمیں بنانے۔ انھیں دنوں اتفاق سے بارش کے باعث ایک پریس کی دیوار گری تو اباجان اور ان کے ساتھی وہاں سے جاکر پریس کا پتھر چرا لائے اور یوں ہاتھ سے کتابت اور اشاعت کے مراحل طے کرکے ہفت روزہ ’امن‘ کا پہلا شمارہ چھپ کر مدیر صاحب کی سائیکل پر پہنچا جہاں سے وہ اسے سارے شہر میں بیچا کیے۔ پہلے ہی شمارے میں اباجان کا لکھا ہوا اداریہ ” گاندھی جی اور دیہی پنچایتیں “اپنی مقبولیت کی تمام حدیں عبور کر گیا۔


ادھر ہفت روزہ ’امن‘ نے اپنی اشاعت کا ’باقاعدہ‘ آغاز کیا ادھر سامنے ایک درزی نے ہاشم چچا کو دیکھاتو آواز دیکر فوراً بلایا۔
” ارے ادھر آ رے لڑکے“
” جی فرمائیے؟“
” تو ہاشم ہے نا؟“
” جی ہاں“
” تو پھر یہ نوجوان شخص اسمٰعیل بھائی ہیں؟“
” جی ہاں! لیکن آپ کو یہ سب کیسے پتا چلا؟“
” ارے ! میں تمہارے بڑے بھائی میاں کا شاگرد ہوں۔ سلائی میں نے انہیں سے سیکھی ہے۔ “
یوں ہاشم چچا اس دکان پر ملازم ہوئے اور آدھوں آدھ اجرت پر روز آنہ چار چھ روپے گھر لانے لگے۔ روز بازار سے کلیجی لاکر ، اسے تل کر بازار کی روٹی کے ساتھ کھالیا جاتا۔ اور اللہ کا شکر ادا کیا جاتا۔
اسی اثناءمیں ہز ہائی نس مہاراجہ پلس گڑھ کے پرنسپل سکریٹری نے اباجان کو دیکھا تو ٹھٹھک گیا، پوچھا۔
” ان صاحب کا تعلق اسی جماعت کے لوگوں سے تو نہیں ہے جو تقریر کرتے پھرتے ہیں اور اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں؟“
جواب اثبات میں پایا تو باچھیں کھِل گئیں ۔” ارے! انہیں کو تو میں ڈھونڈ رہا تھا۔ مہاراجہ صاحب نے حکم دیا ہے کہ انہیں پکڑ لا ، ایک ہندو مسلم مناظرہ منعقد کریں گے۔
اباجان کو باقاعدہ پلس گڑھ آنے کی دعوت اور فرسٹ کلاس ٹرین کے ٹکٹ کے پیسے ( ساٹھ روپے نقد سکہِ رائج الوقت) پیش کیے
گئے جسے انہوں نے شکریے کے ساتھ قبول فرمایا۔ چون روپے ہاشم چچا کو کھانے کے خرچ کے لیے دیے اور چھ روپے کا ٹرین ٹکٹ خرید کر تھرڈ کلاس میں پلس گڑھ ریلوے اسٹیشن پر اترے۔ انہیں رسیو کرنے کوئی نہیں آیا تھا۔
اباجان نے رومال کندھے پر رکھا اور تیز تیز چلتے ہوئے اسٹیشن سے باہر کی جانب جانے لگے۔ فرسٹ کلاس کے ڈبے کے سامنے مہاراجہ کے پرنسپل سکر یٹری مع راجکمارہز ہائی نس اور مسٹر بنر جی، انتظار میں کھڑے تھے۔ گورنر شکلا کی صاحبزادی بھی ان کے ہمراہ معزز مہمان کے لیے چشمِ براہ تھیں۔ سلام علیک کے بعد رسمی خوشگوار جملوں کا تبادلہ ہوا اور یوں یہ شاہی قافلہ اپنی منزلِ مقصود کی جانب عازمِ سفر ہوا۔
ہندوستان کے راجے مہاراجے اپنی جاگیریں کھوچکے تھے اور بھارت سرکار سے سالانہ وظیفہ پاتے تھے۔ مہاراجہ پلس گڑھ کو بھی حکومتِ ہندوستان کی جانب سے بیس لاکھ روپے سالانہ وظیفہ ملتا تھا جو بقول خود مہاراجہ صاحب کے، ان کے ہاتھیوں کی غذا کے لیے ہی تقریباً کافی ہوتا تھا۔ جاگیریں گئیں لیکن شاہی آن بان نہ گئی۔ راجہ کا دربار اسی شان و شوکت کے ساتھ لگا کرتا جو پرکھوں کی روایت تھی۔
اُدھر مسلمانوں کی بھی غیر مسلم بادشاہوں کے دربار میں حاضری کی ایک عجیب و غریب اور عظیم الشان روایت رہی ہے جس کی امامت شاید حضرت جعفر طیار ؓ فرماتے ہیں۔اباجان بھی ایک اسی درویشانہ شان کے ساتھ اُس دربار میں حاضر ہوئے۔
مہاراجہ نے پر تپاک انداز میں ان کا خیر مقدم کیا اور انہیں اپنے پہلو میں جگہ دی۔ طعام و قیام کا بند و بست فرمایا اور ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد آرام کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اگلے روز ناشتے سے فارغ ہوئے تو کہنے لگے۔
” آجاد(آزاد)! آج مہاراجہ ۔۔۔ نے بلایا ہے۔ کیوں نہ تم ان کے سامنے چل کر اپنی تقریر کرو۔“
مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اباجان ان کے ساتھ چل دیے ۔ پہلی گاڑی میں مہاراجہ کے ساتھ والد صاحب کو جگہ ملی ۔ سامنے کی سیٹ پر پرنسپل سکریٹری براجمان تھے۔ ان معزز ہستیوں کو لیکر گاڑی کشاں کشاں بلو پیلس پہنچی، جہاں کی ہر چیز بلو یعنی نیلی تھی۔نیلا فرنیچر، نیلا قالین، نیلے جھاڑفانوس، نیلی کراکری، چائے کے برتن وغیرہ، نیلی دیواریں اور ان پر سجی ہوئی نیلی تصویریں، غرضیکہ ایک نیلی دنیا تھی۔ ایک نیلگوں سمندر تھا جو چار سو پھیلا ہوا تھا۔
ابھی تعارف سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ مشہور ہندو مذہبی پیشوا مہارشی ٹکرو جی مہاراراج اپنے دس چیلوں کے ساتھ دربار میں جلوہ افروز
ہوئے۔ ان کا محفل میں پدھارنا تھا کہ محفل میں ایک جان سی پڑ گئی۔ ہر شخص منتظر تھا کہ دیکھنا اب اس مسلے کی کیا گت بنتی ہے۔ ٹکرو جی
مہاراج ہندو مسلم مناظروں میں ایک خاص شہرت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ آل انڈیا ریڈیو سی پی سے گیتا کا درس بھی دیا کرتے تھے۔ان کو دیکھتے ہی اباجان کے تو گویا جسم میں جان ہی نہ رہی۔مذہبی مناظروں میں ٹکرو جی مہاراج کا نام ہی ہیبت طاری کرنے کے لیے کافی تھا جبکہ اباجان نہ ان کی موجودگی کی توقع کر رہے تھے اور نہ ہی اس موقع کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے۔ایسی صورتحال میں ایک مسلمان مدد کے لیے جس ہستی کو پکارتا ہے اباجان نے بھی اسی سے رجوع کیااور انہیں جتنی بھی دعائیں یاد تھیں ، انہوں نے دل ہی دل میں دہرانی شروع کردیں کہ بار الٰہ ! آج ان ہندوں کے سامنے اپنے اس عاجز بندے کی لاج رکھ لیجو۔


اباجان کہتے ہیں کہ جتنی جلد دعائیں اس دن قبول ہوتے ہوئے دیکھیں ، شاید ہی کسی اور موقع پر دیکھی ہوں۔ تقریر کے لیے پہلے اباجان کو دعوت دی گئی ۔ وہ کھڑے ہوئے اور نہایت دھیمے انداز میں متانت کے ساتھ بولنا شروع کیا۔
” معزز حاضرینِ محفل! انسان اور انسان میں برابری ممکن ہے۔ انسان اور انسان آپس میں برابر ہوسکتے ہیں لیکن انسان اور جانور میں برابری ناممکن ہے۔ انسان اور جانور آپس میں برابر نہیں ہوسکتے۔ انسانوں کی آپس کی اس برابری کا ادراک اگرکسی دین و مذہب یا دھرم نے کیا ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ اسلام ہی نے انسانوں کی آپس کی برابری کا ببانگِ دہل اعلان کیا ہے۔ جبکہ دیگر تمام مذاہبِ عالم انسانوں کو آپس میں تقسیم کرنے اور انہیں بڑا چھوٹا بنانے میں مصروف تھے ، ہیں اور رہیں گے۔ ہندو دھرم جو در اصل آریا دھرم ہے ، اس نے آریاں کو بڑا، پوتر اور پاک بناکر اوپر چڑھادیا اور شودروں کو ناپاک، ملیچھ اور ذلیل بنا کر بدنامی اور گمنامی کے اس عمیق غار میں دھکیل دیا جہاں سے وہ ابد لاآباد تک نہیں نکل سکتے۔ ہاں صرف اسلام ہی انہیں عزت اور نیک نامی اور دیگر انسانوں کے ساتھ برابری کا ایک نیا راستہ دکھاتا ہے۔
اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو تمام انسانوں کے لیے اور تمام زمانوں کے لیے آیا ہے اور اس کا یہی دعوہ ہے جبکہ کسی اور دھرم کا ایسا دعوہ ہرگز نہیں ہے۔ “
اباجان بولتے جاتے تھے اور ان کی آواز بلند ہوتی جاتی تھی، یہاں تک کہ وہ ایک ایسی گھن گرج میں تبدیل ہوگئی جس میں مصلحوں کی شفقت، مجاہدوں کا جوش و ولولہ اور وحدانیت پرستوں کا تیقن شامل تھا۔ خیالات کا ایک دریا تھا کہ بہا چلا آتا تھا اور الفاظ تھے کہ ایک نظم ، ترتیب اور تسلسل کے ساتھ منہ سے اس طرح نکل رہے تھے گویا مقرر نے گھنٹوں ان خیالات کو مربوط کیا ہو۔
اباجان نے دو گھنٹے کی ایک طویل تقریر میں نہایت مدلل انداز سے یہ ثابت کردیا کہ فی الحقیقت اسلام ہی وہ واحد راستہ ہے جو انسانیت کے
تمام دکھوں کا مداوا بن سکتا ہے۔ اور کھوجنے والوں کے ذہنوں کے تمام سوالات کے حل اسلام ہی میں موجود ہیں اور دیگر مذاہب وادیان اپنی تمام تر ذات پات اور دیگر تقسیموں کے ساتھ انسانیت کو درپیش مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
اباجان کی تقریر کے بعد جب مہارشی کی باری آئی تو انھوں نے ہاتھ جوڑکر معذرت کرلی اور کہا کہ آج میں صرف سننے کے لیے آیا ہوں۔
واپسی کا سفر شروع ہوا تو گاڑیاں آنی شروع ہوئیں اور لوگ بیٹھنے لگے۔ اس افراتفری میںاباجان کو دوسری گاڑی میں جگہ ملی جس میں مسٹر بنر جی ان کے ہمسفر بنے۔ گاڑی چلتے ہی وہ یوں گویا ہوئے۔
” واہ مولٰنا ! کیا تقریر کی ہے۔ ایمان تازہ کردیا۔“
”ہیں! تو کیا آپ مسلمان۔۔۔ ۔۔۔ ؟“اباجان حیرت زدہ رہ گئے۔
” ابے مولوی کے بچے! کیا مجھے کافر سمجھاہے؟۔ میرا نام حبیب بنر جی ہے۔ میرے دادا نے اسلام قبول کیا تھا۔“
” ماشاءاللہ۔“ اباجان نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی انہیں گلے لگا لیا۔
الوداعی ملاقات میں راجہ صاحب اباجان کے سر ہوگئے ۔
” اب تم یہیں رہواور چھتیس گڑھ کے گھنے جنگلات اور دیگر علاقوں میں اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے رہو، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ادھر پولیس اور فوج بھی تمہارہ بال تک بیکا نہیں کر پائے گی۔ رہی ہماری غرض سو وہ اس طرح پوری ہوگی کہ تمہاری تقریروں میں آریائی موقف اور سماج کی نفی ہوتی ہے جو ہمارے مقصدکے عین مطابق ہے۔“
اباجان نے اس پیشکش کو شکریے کے ساتھ ٹھکراتے ہوئے بتایا کہ اب وہ صرف پاکستان جانا چاہتے ہیں۔ یہ سنتے ہی راجہ صاحب نے
نہایت شگفتہ انداز میںاباجان کو کئی موٹی موٹی گالیاں مرحمت فرمائیں کہ وہ بزدل اور بھگوڑے ہیں اور ڈر کر یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔
اباجان نے انھیں سمجھایا کہ ایسی بات نہیں ہے بلکہ وہ بیس ماہ کی طویل جیل کاٹ کر تھک گئے ہیں اور اب کچھ عرصہ پاکستان جاکر اس دارالامان میں سکون سے رہ کر آرام کرنا چاہتے ہیں تاکہ پھر تازہ دم ہوکر اسلام کی خدمت کر سکیں۔
راجہ صاحب نے باصرار انہیں واپسی کا کرایہ اور دو سو روپے عنایت فرمائے یہ کہتے ہوئے کہ وہ اب صرف نام کے راجہ رہ گئے ہیں جنہیں حکومتِ ہندوستان کی جانب سے گزارہ الاونس ملتا ہے، لہٰذہ اندرایں حالات وہ کچھ زیادہ تو نہیں کرسکتے۔ البتہ انھوں نے کمال شفقت سے ایک پوسٹ کارڈپر اپنا پتہ لکھ کر اباجان کے حوالے کیا کہ ویسے تو تم مجھے بہت خوددار نظر آتے ہو، مگر زندگی میں جب بھی کبھی تمہیں پیسوں کی مجبوری ہو تو بلا تکلف مجھے یہ کارڈ بھجوا دینا، میں تمہیں اپنے لندن کے بنک اکانٹ سے پیسے بھجوا دوں گا۔
اباجان نے حویلی سے نکلتے ہی پوسٹ کارڈکو پھاڑ کر پھینک دیا لیکن ان سنہری یادوں کو کلیجے سے لگائے آگے بڑھ گئے۔
ڈاکٹر عمر خان صاحب کی بیٹھک کیا تھی ، احبابِ علم و ادب کا گویا ایک پرسکون ٹھکانا تھی، جہاں پر وقتاً فوقتاً ان کی ادبی محفلیں سجا کرتیں اور مشاعرے منعقد ہوا کرتے۔ ایسے ہی ایک آل انڈیا مشاعرے میں اباجان کی ملاقات سورت سے آئے ہوے ایک شاعر نجمی سے ہوئی۔ بر سبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ ا باجان ا یک ا سلامی عالم، داعی حق، بہترین مقرر،مضمون نگار، comparative religion کے طالب علم ہونے اور عربی فارسی اردو پشتو اور انگریزی میںیکساں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ طرز شاعر بھی ہیں( یا اپنی جوانی میں ہوا کرتے تھے) اور اس ناطے شعر گوئی اور شعر فہمی میں طاق ہیں۔ گواباجان نے اس مشاعرے میں اپنی نظم یا غزل تو نہ پڑھی لیکن دورانِ گفتگو اپنی علمی قابلیت سے نجمی صاحب کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ ان کے گرویدہ ہوگئے، کہنے لگے۔

”مولوی صاحب! میری ایک درخواست ہے۔“
”فرمائیے؟“
” مجھے اس مشاعرے کے بعد کچھ وقت عنایت فرمائیے۔“
” میں حاضر ہوں۔“
خیر صاحب! رات گئے جب تمام شاعروں کے بعد صدر نشین نے بھی اپنی باری پوری کرلی بلکہ بدرجہاتم پوری کرلی یعنی کئی قطعوں، ایک دوغزلہ اور کئی طویل غزلوں کے مترنم اظہار کے بعد شمعِ محفل کو اپنے سامنے سے ہٹانے کی ا جازت مرحمت فرمائی تو اس کے بعد ہی اباجاناور نجمی صاحب اکھٹے ہوسکے۔

” جی اب فرمائیے“
نجمی صاحب جو ُسورت کے ایک گجراتی مسلمان تھے ، یوں گویا ہوئے۔
”مولوی صاحب! یوں تو میں مسلمان ہوں لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اسلام اور ایمان سے متعلق کچھ بہت گھمبیر قسم کے خیالات و خدشات میرے ذہن میں پرورش پا رہے ہیں۔خاص طور پر آوا گون کا مسئلہ۔ انھی کے بارے میں آپ کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو چاہتا ہوں۔“
گفتگو شروع ہوئی تو رات بھیگ چلی تھی اور گفتگو اختتام پذیر ہوئی تو سپیدہ سحری نمودار ہوا چاہتا تھا۔اباجان نے پہلے تو بہت اطمینان اور صبر کے ساتھ نجمی کے اعتراضات سنے اور پھر اسی اطمینا ن اور صبر کے ساتھ انہیں سمجھانا شروع کیا۔ ایک ایک کرکے ان کے سارے اعتراضات و خدشات کا مدلل اور بھر پور جواب دینے لگے۔ یہانتک کہ اِدھر موذن نے اللہ کی تکبیر بیان کرنا شروع کی تو اُدھر نجمی نے خوش ہوکر کہا۔

” الحمد للہ کہ میں مسلمان ہوں اور مولوی صاحب آپ کا شکریہ کہ آپ نے آج مجھے کافر ہونے سے بچا لیا۔آج آپ سے بات نہ ہوپاتی تو میں تو اسلام جیسی نعمت سے پھر چلا تھا۔“
احسان مندی کے احساس سے زیر بار ہوتے ہوئے نجمی نے اباجان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے اور فرطِ جذبات سے آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہا
” مولوی صاحب ! اب فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔“
اباجان خوش ہوئے اور فوراً ہی جواب دیا۔
” بھائی ! میں نے کوئی بڑا تیر نہیں مارا۔ ہاں البتہ اپنے مسلمان بھائی کو دوزخ کی آگ سے بچانا میرا فرض تھا ، سو وہ میں نے پورا کیا۔ اب اگر اللہ نے آپ کو یہ توفیق بخشی کہ آپ اپنے وسوسوں اور شیطانی خیالات کو اپنے ذہن سے نوچ کر باہر پھینک سکے تو اس میں میرا تو کوئی کمال
نہیں۔ اللہ کا شکر ادا کیجیے۔
” اللہ کا شکر پہلے اور آپ کا شکریہ اس کے بعد۰۰۰۔
نجمی نے بے حد اصرار کیا تو نماز کے لیے اٹھنے سے پہلے اباجان نے اپنی دلی خواہش کا اظہار کر دیا۔
” میری دلی خواہش ہے کہ پاکستان جاسکوں۔ اگر آپ مجھے پاکستان بھجوانے کا کوئی بند و بست کرسکیں تو یہ آپ کا احسان ہوگا مجھ پر۔“
نجمی خوشی کے مارے اٹھ کھڑے ہوئے اوراباجان کو گلے لگاتے ہوئے کہنے لگے۔
” سمجھ لیجے کہ آپ پاکستان پہنچ گئے۔ آج ہی آپ میری چمڑے کی کھیپ کے ساتھ روانہ ہوجائیے، آگے اللہ مالک ہے۔“ 
حبیب بن وحید کو والد صاحب کے پروگرام کا علم ہوا تو وہ بھی اباجان کے سر ہوگئے ۔
” اسمٰعیل بھائی! میں بھی تمہارے ساتھ پاکستان جاں گا۔ “
الغرض نجمی نے اس وعدے کے ساتھ کہ وہ بچوں کو جلد بذریعہ ٹرین روانہ کردیں گےاباجان اور حبیب بن وحید کو سورت پہنچایا، پھروہ دونوں وہاں سے احمد آباد اور پھر وہاں سے اونٹوں کے ایک قافلے کے ساتھ راجھستان کے سرحدی علاقوں کی جانب روانہ ہوئے۔اونٹوں کی سواری اور پھر چمڑے کی کھیپ سمیت کاروباری نوعیت کا یہ قافلے کا سفر، گھنٹوں کا سفر دنوں میں طے کرتے ہوئے یہ لوگ ایک گاں سے دوسرے گاں اور پھر وہاں سے تیسرے گاں کی طرف رواں دواں تھے۔ میرِ قافلہ نے اباجان سے کہا۔
” مولوی صاحب ! آپ ہمارے منشی ہیں ، یہ حساب کتاب کا کھاتا سنبھالیے، اور کھالوں کی اس لین دین کا حساب رکھیے۔“
اونٹ کا شمار دنیا کے عجیب و غریب ترین جانوروں میں سے کیا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں،”اونٹ رے اونٹ، تیری کون سی کل سیدھی۔“ اور پھر
اس ٹیڑھی کل والے جانور کی سواری؟ اللہ غنی۔ گھوڑے ، گدھے، خچر اور ہاتھی کی سواری ایک طرف تو اونٹ کی سواری دوسری طرف۔ شاید مولٰنا محمد حسین آزاد کبھی خود اونٹ پر نہیں بیٹھے، ورنہ وہ اونٹ کی کچھ یوں تعریف نہ کرتے۔
” دیکھنا ! سانڈنی سوار جاتا ہے۔ کیا عمدہ سانڈنی ہے۔ کیسی بے تکان جارہی ہے۔ گردن تو دیکھو کیسی پیچھے کو جھکی ہوئی ہے! واہ وا! جیسے مور ناچتا چلا جاتاہے۔ سانڈنی کی کیا بات ہے!“

اونٹ کی سواری کا حال تو کوئی اباجان سے پوچھے۔ وہ زندگی میں پہلی اور شاید آخری بار اونٹ کی سواری کر رہے تھے۔ اونٹ ایک قدم آگے بڑھاتا تو اباجان آگے اور حبیب بن وحید پیچھے کی طرف جھک جاتے اور اونٹ کے اگلے قدم کے منتظر رہتے تانکہ وہ اپنی ھیئت تبدیل کرسکیں ۔ اونٹ پر بیٹھے ہوئے اپنی دونوں ٹانگیں ایک دوسر ی سے اس قدر فاصلے پر رکھنی پڑتی تھیں کہ رانوں میں مستقل درد رہنے لگا تھا۔ اور پھر یہ اونٹ شاید اس قافلے کاسست ترین اور خبیث ترین اونٹ تھا جو ہر قدم اس سست روی کے ساتھ اٹھاتا تھا گویا انتہائی ناگواری کی حالت میں ایسا کر رہا ہو۔شاید اسے اپنے ان دونوں سواروں کی دلی کیفیت کا بالکل احساس نہ تھاجن کے لیے یہ سفر عقیدت کا سفر تھا۔ کافرستان سے پاکستان کی جانب۔جسے انھوں نے اور ان کے عظیم قائد ، قائدِ اعظم نے بڑی جدو جہد اور قربانیوں سے حاصل کیا تھا۔ آج اباجان کو تین جون سنہ انیس سو چالیس کا وہ دن یاد آرہا تھا جب انھوں نے میرا جان سیال کے ہاں دو گھنٹے مشین چلوا کر ایک گھنٹے کی آل انڈیا ریڈیوکی نشریات میں خبروں کے دوران وزیرِ اعظم انگلستان کی تقریر سنی تھی اور اس میں وزیرِ اعظم کی زبانی یہ سن کر سجدئہ شکر بجالائے تھے کہ’ وہ نہایت افسوس کے ساتھ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان کرتے ہیں‘۔آج انہیں ان کے تین جون سنہ انیس سو چالیس کو دیکھے ہوے خواب کی تعبیر ملنے والی تھی۔آج وہ اپنے پاک وطن پاکستان جارہے تھے جو اپنی جغرافیائی حدوں کی وجہ سے ایک ملک نہیں کہلایا جاتا تھا بلکہ اس کا حدود اربعہ یہ تھا کہ وہ بر صغیر ہند وستان کے مسلمانوں کا وطن تھا۔
اباجان اور حبیب بن وحید کو ایک ایک قمچی تھمادی گئی تھی کہ وہ گاہے بگاہے اس کا استعمال کرتے رہیں تاکہ اونٹ اس میانہ روی سے بالکل ہی بیزار ہوکر از خود ہی زمیں پرنہ بیٹھ جائے۔اونٹ کی سست رفتاری کو دیکھ کرحبیب بن وحیدکو یکلخت جو غصہ آیا تو انہوں نے اپنی قمچی ہوا میں
لہرائی اور شائیں کی آواز کے ساتھ پوری قوت سے اسے اونٹ کے سر پر دے مارا۔ اگلے کئی لمحوں تک دونوں کو بالکل ہوش نہ رہا کہ کیا ہورہا ہے، کیونکہ یکبارگی اونٹ بلند آواز میں بلبلایا اور دوڑ پڑا۔جن لوگوں نے اونٹ کو خراماں خراماں چہل قدمی کرتے دیکھا ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اونٹ بالکل نہیں بھاگ سکتا، یہ جان کر ضرور حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ اونٹ ضرورت پڑنے پر انتہائی تیز رفتار سے دوڑ بھی سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ساربان حضرات یہ حقیقت خوب جانتے ہیں کہ اونٹ کو تیز چلانے کے لیے اس کے جسم پر تو قمچی رسید کی جاسکتی
ہے لیکن اس کے سر پر جو اس کے جسم کے نازک ترین حصوں میں سے ایک ہے کبھی نہیں مار نا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے اونٹ کو ناقابلِ برداشت تکلیف ہوتی ہے اور وہ گویا پاگل سا ہوجاتا ہے۔
قمچی کی مارپڑتے ہی اونٹ کو اپنی نانی ےاد آگئی اور اس نے آ دیکھا نہ تا، اور بے تحاشا ایک طرف کو دوڑ پڑا۔ نیز اس کی بدتمیزی ملا حظہ فرمایئے کہ دوڑتے وقت ارد گرد کی خار دار جھاڑیوں کا بھی خیال نہیں کیا اور بلا جھجک ان گھستا چلا گیا اور کئی میل تک دوڑا کیا۔ نتیجتاً اباجان اور حبیب بن وحید ان خار دار جھاڑیوں سے بری طرح زخمی ہوئے۔
بے وفا اونٹ کا وفا دار ساربان یہ ماجرہ دیکھ کر اونٹ کی جانب دوڑا اور پھر دوڑتا ہی چلا گیا، کیوں کہ اونٹ کی رفتار خاصی تیز تھی۔
اگلے آدھے گھنٹے تک دونوں اشخاص اپنی جانِ عزیز کو سنبھالے اونٹ کے جسم سے چمٹے رہے جو اس وقت انتہائی تیز رفتار سے دوڑا جارہا تھا اور اس کا سابان اس بھاگتے بھوت کا پیچھا کرتے ہوئے اسے چمکارتا اور للکارتا جاتا تھا۔ بالاآخر اونٹ ایک جگہ جاکر رک گیا، ساربان کی چمکاریں رنگ لائی تھیں یا پھر شاید اونٹ ہی بھاگتے بھاگتے تھک گیا تھا۔
بعد میں قافلے کے ایک ساتھی نے سمجھایا کہ اونٹ کے سر پر کبھی نہیں مارنا چاہیے تو اباجان اور حبیب بن وحیددونوں نے یہ عہد کیا کہ وہ آئیندہ کبھی کسی اونٹ کے سر پر نہیں ماریں گے۔آدھے گھیٹے تک ایک وحشیانہ انداز میں دوڑتے ہوئے اونٹ کی پیٹھ پر موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہنا اور اونٹ کو روکنے اور قابو میں کرنے کے لئے قافلہ والوں کی تگ و دوایک انتہائی سبق آموز صورتحال کے طور پر ان کے سامنے تھی۔
الغرض سفر جاری رہا اور ایک رات جبکہ اس وسیع و عریض ریگستان میں چاندنی چٹکی ہوئی تھی اوراباجان اور حبیب بن وحید گاں گاں چمڑے کی رسیدیں کاٹتے کاٹتے بیزار ہوچکے تھے، وہ سرحدی گاں واوڑی میں سرحد پر لگی خار دار تار تک پہنچ گئے۔
” مولوی صاحب ! اب آپ لوگ اس درخت پر چڑھ کر باڑھ کی دوسری جانب پاکستان میں کود جائیے۔
اباجان اور حبیب بن وحید اپنے ساتھیوں سے گلے ملے اورالوداع کہہ کر اپنے تھیلے سنبھالتے ہوئے اونٹ کے اوپر چڑھ کر درخت کی بلند شاخ پر پہنچ گئے ۔ وہاں سے پہلے اپنے تھیلے دوسری طرف پھینکے اور پھر خود بھی تھلوں کے پیچھے باڑھ کے دوسری طرف کود گئے۔ اباجان پاکستان پہنچ چکے تھے۔
سرحدی پولیس نے ان دونوں مولویوں کو سرحدی علاقے میں آوارہ گردی کرتے ہوئے پایا تو فوراً گرفتار کرکے اپنے افسر کے سامنے پیش
کردیا ۔ افسر نے کہا۔” اگر میں چاہوں تو تم کو فوراً سزا سنا سکتا ہوں لیکن چونکہ میں نے ( میرے آدمیوں نے) ہی تم کو سرحد پار کرتے ہوئے گرفتار کیا ہے لہٰذہ میں تمہیں میر پور خاص مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کروں گا۔
اس نے جمعدار عبدالعزیزکو حکم دیا کہ وہ دونوں مجرموں کو لیکر فوراً میر پور خاص روانہ ہوجائے اور مجسٹریٹ درجہ اول کی عدالت میں پیش کرے۔
جمعدار عبدالعزیز دو نوں مجرموں کو لیکر چلا تو اس شان سے کہ راستے کے ہر ریسٹورنٹ ( عرفِ عام میں ہوٹل) پر رُکتا اور ہوٹل والے کو حکم دیتا کہ یہ دونوں سرکاری مہمان ہیں ، لہٰذہ ان کی خاطر خواہ، خاطر مدارات کی جائے۔
میر پور خاص پہنچے تو اس نے دونوں کو ایک ہوٹل میں انھی اسپیشل ہدایات کے ساتھ ٹھہرایا کہ ” یہ دونوں سرکاری مہمان ہیں لہٰذہ یہ جو کھانا چاہیں انھیں پکا کر کھلایا جائے۔“ اوراباجان اور حبیب بن وحید سے کہنے لگا۔”مولوی صاحب ! آپ لوگ یہاں اطمینان کے ساتھ ٹہریئے ، میں ایک آدھ دن میں پیشی کی تاریخ لیکر آتا ہوں۔“ اور وہاں سے چلتا بنا۔

دونوں سرکاری مہمان ٹھاٹھ سے اس ہوٹل میں رہا کیے اور ان کی خاطر خواہ مدارات ہوتی رہیں، لیکن عبدالعزیز نے نہ آنا تھا اور وہ نہ آیا، یہاں تک کہ ایک ہفتہ گزر گیا۔ ایک ہفتے بعد جب جمعدار عبدالعزیز نے اپنی شکل دکھائی تو اباجان نے شکوہ کیا۔
” بھائی عبدالعزیز ! ہم تو یہاں ہوٹل میں انتظار کرتے کرتے بیزار ہوگئے ہیں۔جلد ہی تاریخ لیکر ہمیں عدالت میں پیش کرو۔“
مولوی صاحب! تم دونوں بھی بس کاٹھ کے الو ہو۔“ عبدالعزیز ہنس پڑا۔پر جب دیکھا کہ یہ دونوں بھاگنے کی بجائے عدالت میں حاضر ہونے پر مصر ہیں تو خوشخبری سنائی کہ کل صبح تم دونوں کی پیشی ہے۔
اگلے دن دوپہر تک دونوں کی پیشی ممکن ہوسکی۔ مجسٹریٹ نے جمعدار عبدالعزیز سے ان کا کیس سننے کے بعد دونوں کو صفائی کا موقعہ دیا اور ان کے بیانات سننے کے بعد، ان دونوں کو گھور کر دیکھتے ہوئے عدالت کا فیصلہ سنا دیا۔
” محمد اسمٰعیل آزاد اور حبیب بن وحید! تم دونوں نے سرحد پار کرکے پاکستان آنے کا جو جرم کیا ہے ، اس جرم کے لیے تم دونوں کو تا برخواستِ عدالت قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔“ 
یہ فیصلہ سناتے ہی مجسٹریٹ نے عدالت برخواست کر دی اور یوں اباجان پاکستان کے آزاد اور باعزت شہری بن گئے۔