Monday, February 21, 2011

فسانہ آزاد:باب اول: بچپن کے دن




باب اول۔فسانہ آزاد
بچپن کے دن
محمد خلیل الر حمٰن

اباجان اپنے ماں باپ کی تیسری اولاد تھے۔اباجان کا نام محمد اسمٰعیل اور تخلص آزاد، والد کا نام شیخ احمدتھا ، ۱۹۲۴ ئ میں سی پی برار کی ایک تحصیل باسم( ضلع آکولا) میں پیدا ہوئے۔ ان سے پہلے ۱۹۲۰ء میں ایک بہن پیدا ہوکر بچپن ہی میں انتقال فرماچکی تھیں اور اس کے علاوہ ایک بڑے بھائی تھے جو۱۹۲۲ءمیں پیدا ہوئے اوربھائی میاں کہلائے۔ اباجان رنگ روپ ، عقل و دانش وغیرہ میں منفرد اور ممتاز تھے۔بڑے خوش مزاج بچے تھے ا ور اپنی شرارتوں اور خوش مزاجی کی وجہ سے اپنے دادا، چچاﺅں اور ابا کے منظورِ نظر تھے۔ برار میں یہ رواج تھا کہ سب سے بڑا بیٹا بھائی میاں کہلاتا تھا اور منجھلا بیٹا چھوٹے بھائی کہلاتا تھا لہٰذہ یہ بھی چھوٹے بھائی کہلائے۔ یوں بھی چونکہ ان کا قد شروع میں بہت چھوٹا تھا، اس لیے سب چھوٹوں اور بڑوں میں چھوٹے کے نام سے مشہور ہوئے۔جہاں اباجان قد میں چھوٹے تھے وہیں بھائی میاں کا قد حد سے نکلتا ہوا تھا۔اباجان چونکہ شروع ہی سے عقل مند اور ذکی الحس تھے لہٰذہ اسی مناسبت سے گھر میں اور باہر اپنا کردار ادا کیا، دوسری طرف بھائی میاں بس میاں ہی تھے۔ اباجان بچپن ہی سے لکھنے پڑھنے اور کام کاج میں سب سے آگے تھے، گھر میں اماں جان کو بیٹی نہ ہونے کے سبب گھر کا سارا کام خود کرنا پڑتا تھا، لہٰذہ ہوش سنبھالتے ہی اباجان نے باقاعدہ پلان کے تحت ان کا خاصا کام آپس میں بھائیوں کے ساتھ بانٹ لیا اور اس طرح یہ لوگ برتن دھونا، گھر میں جھاڑو دینا اور کپڑے دھونا جیسے کام ایک نظام ِ عمل کے تحت خود کرنے لگے۔اماں جان کے ذمے صرف کھانا پکانارہ گیا اور گایﺅں بکریوں کا دودھ دوہنا بھی اباجان نے آپس میں بھایﺅں میں بانٹ لیا۔ اس طرح اباجان کی حکمت ِ عملی کی وجہ سے انکا گھرانا دودھ دہی مکھن اور چھاچھ وغیرہ میں بھی خود کفیل ہو گیا۔ بکریوں کا دودھ کھانے پینے میں استعمال ہوجاتا اور گائیوں کا دودھ دہی بنانے ، مکھن نکالنے اور اس سے گھی بنانے کے لیے مخصوص کردیا گیا تھا۔

فٹبال اباجان کا پسندیدہ ترین کھیل تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن میں ایک مرتبہ اباجان مجھے لے کر لیاری فٹبال گراﺅنڈ میں ایک مقامی میچ دیکھنے گئے تھے۔اپنے بچپن میں اباجان فٹبال کے ایک بہت اچھے کھلاڑی کے طور پر جانے جاتے تھے ۔ قد چونکہ کسی قدر چھوٹا تھا لہٰذہ علاقے میں” چھوٹے “کے نام سے جانے جاتے تھے۔ اباجان کے بڑے بھائی یعنی بھائی میاں بھی فٹبال میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ ان کا قد کسی قدر نکلتا ہوا تھا، لہٰذا اپنے قد کا خوب فائدہ اٹھاتے ۔ جب بھی کسی مد مقابل کھلاڑی کا سامنا ہوتا، گیند کو اوپر اچھال دیتے ، پھر بقول اباجان کے ’ ہوپ‘ کرکے اچھلتے اور پھر اس کے سر کے اوپر اپنی ٹانگ لیجا کر گیند کو اپنے قبضے میں کر لیتے۔ اسی طرح جوں ہی گیند اباجان کے قبضے میں آتی، پورا مجمع ’ ’چھوٹے، چھوٹے ‘ ‘کے نعرے مارتا اور ان کی حوصلہ افزائی کرتا، اور اباجان دوسرے کھلاڑیوں کے درمیان سے گیند نکالتے ہوئے گول کی جانب بڑھتے چلے جاتے یا پھراپنے کسی ایسے کھلاڑی کو پاس دیدیتے جو گول کرنے کی پوزیشن میں ہوتا۔

اسکول سے گھر پہنچتے تو کھانا وغیرہ کھاکر واپس اپنے دوستوں میں پہنچنے کی جلدی ہوتی تاکہ جلد از جلد فٹبال کا میچ شروع ہوسکے۔ اسی اثناءمیں اگر گاﺅں کے کسی بڑے بوڑھے کی نظر ان پر پڑجاتی تو ان کی طرف سے فوراً ایک پیسے دو پیسے کا گانجا ( ایک نشہ آور شے)خرید کر لے آنے کی فرمائش ہوجاتی اور پھر اباجان پھنس جاتے۔ پہلے ان بزرگوار کی فرمائش پوری کرتے اور پھر دوڑتے ہوئے دوستوں کی محفل میں پہنچتے۔ خاص فٹبال کے لیے گھر سے نکلے پر کباڑی کاکا ، یا کسی اور بزرگ کی نظر کرم انھیں بری طرح کھل جاتی لیکن گاﺅں کا سیدھا سادا ماحول انھیں گاﺅں کے کسی بھی بزرگ کی حکم عدولی سے منع کرتا تھا، لہٰذہ مرتا کیا نہ کرتاان کا حکم ماننا پڑتا۔

اسکول کے ہیڈماسٹر دیش پانڈے جو اپنے اسکول کے بچوں کو اپنے بچے سمجھتے تھے۔بہت سخت ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے بچوں کے لیے بہت نرم مزاج بھی تھے۔ علاقے کی پولیس کی مجال نہیں تھی کہ ان کے اسکول میں داخل بھی ہوسکتی۔اپنے بچوں کو اس کچی عمر میں پولیس کے چکروں سے بچانے کی خاطر وہ ایک چٹان کی طرح کھڑے ہوجاتے۔ لیکن ان اس رویے کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ وہ بچوں میں کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں کو برداشت بھی کرسکتے۔ البتہ بچوں کی معصوم شرارتیں جاری رہتیں اور انھیں بے جا تنگ کرنے کے لیے کوئی نہ آسکتا۔ ابا جان اپنے محلے کے دوستوں کے ساتھ قسم قسم کی مہمات میں اکثر حصہ لیتے رہتے ، جن میں ویران مندروں سے کھانے پینے کی چیزیں لے کر کھاجانا اور دیگر چڑھاوے شرارتاً اٹھا کر لے آنا وغیرہ شامل تھیں۔

بچپن ہی میں اباجان نے عبدالغفورمحمد حضت سے قرآن پڑھ لیا۔ مولوی عبدالغفور محمد حضت جودیوبندی عقیدے کے عالم تھے، دراصل گورکھا رجمنٹ کے ایک ریٹائرڈ پینشن یافتہ جمعدار تھے۔انھوں نے بھائی میاں، اباجان اور چھوٹے بھائی ہاشم کو نہ صرف قرآن پڑھایا بلکہ دیگردینی تعلیم بھی دی ۔عبدالغفور محمد حضت کی تعلیم کی وجہ سے اباجان بدعات اور رسومات بد سے دور ہوئے اور بعد کی زندگی میں ایک خاص لائحہ عمل کو اپنے لیے اختیار کیا۔

اباجان کے ایک ماموں اپنے خاندان کے پہلے پڑھے لکھے بچے تھے اور انھوں پڑھنے لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر میں بہت اچھی اچھی کتابیں شوق سے جمع کیں۔ ان کے حیدرآباد دکن کوچ کرجانے کی وجہ سے ان کی تمام کتابیں ایک بڑے صندوق میں اباجان کے گھر پہنچادی گیئں جن سے اباجان نے جی بھر کر فائدہ اٹھایا اور ان تمام ادبی کتابوں کو شوق سے چاٹ گئے۔ ان کتابوں میں اس وقت کے کچھ بہترین رسالے،جن میں مولوی رسالہ، پیشوا رسالہ وغیرہ شامل تھے، پڑھ ڈالے۔ ان کے علاوہ الف لیلہ، داستانِ امیر حمزہ، فسانہ آزاد، تمدنِ عتیق ، کوچک باختر، بالا باختر، حکایاتِ شیریں، جس میں ہندوستان کی تمام مروجہ ضرب الامثال وغیرہ موجود تھیں۔گویا آٹھویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی اباجان ادب ِ عالیہ کو اچھی طرح پڑھ چکے تھے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اباجان کی نانی نے انھیں کسی کام سے کوٹ پلی اپنی بہن کے پاس بھیجنے کا عندیہ دیا۔ ان کی اماںجان نے بھی اس پروگرام کو سراہا اور انھیں کہا کہ وہ نانی کے بھائی سے بھی ملتے ہوئے آئیں جنھوں نے حال ہی میں اباجان کی خالہ سے دوسری شادی کی تھی۔ 

سرکاری خرچ پر جانا تھا، یعنی بس کے ٹکٹ کے پیسے نانی ہی دے رہی تھیں لہٰذا کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اباجان نے حامی بھرلی اور جانے کی تیاری کرلی۔ کوٹ پلی وہاں سے کوئی دس میل کے فاصلے پر ایک بستی تھی۔ 

اباجان چلے تو چھوٹے عبدالغنی کو بھی ان کے ساتھ کردیا گیا۔ گھر سے نکلے اور لاری اڈے پر پہنچے تو اباجان کے کمپیوٹر نے بھی اپنا کام شروع کردیا۔ اگر وہ دونوں بس میں سفر کرنے کی بجائے پیدل ہی روانہ ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں ہوگا۔ گھنٹہ دو گھنٹہ میں وہ دونوں کوٹ پلی پہنچ ہی جائیں گے۔ دس میل کوئی اتنا زیادہ فاصلہ تو ہے نہیں ۔ اور پھر ٹکٹ کے پیسے بھی مفت میں بچیں گے۔ وارے نیارے ہوجائیں گے۔یہ سوچ کر انھوں نے لاری اڈے سے اپنا رخ کوٹ پلی کی طرف کرلیا اور پیدل ہی چل پڑے ۔ کچھ دور گئے ہوں گے تو سامنے ایک جنگل نظر آیا، سڑک وہاں سے ایک طرف کو مڑ جاتی تھی۔ گویا یہ ایک شارٹ کٹ تھاجو اباجان کو نظر آگیا۔ اگر وہ سڑک کے ساتھ ساتھ چلنے کے بجائے ، جو یقیناً لمبا راستہ ہے، اس جنگل میں داخل ہوکر کوٹ پلی کی سمت اپنا سفر جاری رکھیں تو ضرور جلدہی کوٹ پلی پہنچ جائیں گے۔ یہ سوچتے ہی انھوں نے سڑک کو چھوڑدیا اور اپنا راستہ تبدیل کرکے جنگل میں گھس پڑے۔

جنگل جو شروع میں اتنا گھنا نظر نہیں آرہا تھا ، اندر جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد گھنے جنگل میں تبدیل ہوگیا۔ہر طرف لمبے لمبے اونچے اونچے درخت کھڑے تھے جن کا گھیر کوئی دس پندرہ گز سے زیادہ تھا۔جنگل میں اباجان کو ایک چھوٹی سے پگڈنڈی اباجان کو مل گئی تھی جس پر وہ دونوں بلا تکان چلے جارہے تھے۔ کوئی گھنٹہ بھرچلے ہوں گے کہ اباجان کو اندازہ ہوا کہ شاید وہ راستہ بھٹک گئے ہیں۔ اب تو جنگل میں کسی کسی جگہ جنگلی جانور بھی نظر آنے لگے تھے۔ دونوں اللہ توکل آگے بڑھتے ہی رہے۔ کچھ دور اور چلے تو یہ بھول گئے کہ وہ کس طرف سے آرہے ہیں اور کس طرف کوجائیں کہ کوٹ پلی پہنچ جائیں۔ رک کر ارد گرد کے ماحول سے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ انھیں کس سمت میں جانا چاہیے۔ اتنی دیر میں کچھ عجیب و غریب سی سڑی ہوئی بو ان کے نتھتوں سے ٹکرائی تو چونک کر ایک طرف دیکھا۔دو جانوروں کی سڑی ہوئی ، ادھ کھائی ہوئی ،نچی ہوئی لاشیں وہاں پڑی ہوئی تھیں۔ اب تو دونوں بہت گھبرائے اور زیادہ غور سے ادھر ادھر دیکھا تو اپنی زندگی کا سب سے خوفناک نظارہ ان کے سامنے تھا۔ ان ادھ کھائے جانوروں کے قریب ہی ایک عدد شیر پڑا سورہا تھا۔ دونوں نے دور سے اسے دیکھا اور ایک دوسرے کو خاموشی کا اشارہ کرتے ہوئے وہاں سے کھسکے۔ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے جب وہ شیر کی کچھار سے دور نکل آئے تو بدحواسی میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ ایک طرف کو بھاگ کھڑے ہوئے۔

تقریباً آدھا گھنٹہ بھاگنے کے بعد وہ ایک جگہ رکے اور کافی دیر تک اپنا سانس درست کرتے رہے۔ سانس بحال ہوئی تو جان میں جان آئی۔ آج قسمت نے ان کا ساتھ دیا تھا اور وہ زندہ سلامت شیر کی کچھار سے نکل آئے تھے۔ لیکن ایک بات اب واضح تھی۔ وہ یقیناً اپنا راستہ بھول چکے تھے۔ اب کیا کریں۔

ادھر ادھر دیکھا تو قریب ہی ایک چھوٹی سی پہاڑی نظر ّئی۔ اس پہاڑی کی طرف چلے اور اس پر چڑھ کر چاروں طرف نظر دوڑانے لگے، اس امید پر کہ کہیں سے کوٹ پلی نظر آجاےءتو دوڑ کر اس تک پہنچ جائیں۔ ہر طرف جنگل ہی جنگل نظر آیا تو بہت مایوسی ہوئی لیکن ہمت نہ ہاری اور زور زور سے غالب کی غزل گانے لگے۔آواز چاروں طرف گونج کر پھیلی تو انھیں بہت اچھا محسوس ہوا۔

ادھر خدا کی کرنی، ان کی آواز پھیلی تو محکمہ جنگلات والوں نے بھی سنی اور جلد ہی ان کی سیٹیوں اور ڈھول کی آواز سے سارا جنگل گونج اٹھا۔ اباجان اور عبدالغنی کی جان میں جان آئی اور وہ اس آواز کی طرف چلے اور تھوڑی ہی دیر میں محکمہ جنگلات کے کیمپ آفس کے سامنے پہنچ گئے، جہاں پر محکمہ جنگلات کا چاق و چوبند عملہ ان کا منتظر تھا۔ عملہ نے ان سے ان کا حال پوچھا اور انھیں بہت برا بھلا کہا کہ وہ کیوں اس گھنے جنگل میں آوارہ گردی کررہے ہیں۔

دونوں نے بتایا کہ وہ کوٹ پلی جارہے تھے کہ راستہ بھٹک گئے اور ادھر آنکلے۔ محکمہ جنگلات کے افسران نے ایک سپاہی ان کی رہنمائی کےلیے ان کے ساتھ کردیا جو انھیں پیدل کوٹ پلی کی طرف لے چلا۔ قصبے کے قریب پہنچ کرجب دونوں نے کوٹ پلی کو پہچان لیا تو اس سپاہی نے انھیں چھوڑدیا اور واپس لوٹ گیا۔ اس طرح دونوں کوٹ پلی پہنچے اور قریب ہی ایک مسجد دیکھ کر اس میں گھس گئے۔ دس میل چلنے کے ارادے سے گھر سے نکلے تھے اور راستہ بھٹک کر تقریباًچالیس میل چلنا پڑ گیا ، تھکن سے چور تو تھے ہی ، مسجد میں صف بچھی ہوئی پائی تو فوراً لم لیٹ ہوگئے۔ لیٹے تو فوراً ہی نیند کی آغوش میں چلے گئے اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ،بے سدھ ہوگئے ۔ اد ھر تھوڑی دیر بعداباجان کے ایک ماموں مسجد پہنچے اور ان بچوں کو دیکھاتو ان کا ماتھا ٹھنکا کہ یہ تو اپنے ہی بچے لگتے ہیں۔ بات کچھ سمجھ میں نہ آئی تودوڑے دوڑے گھر گئے اور نانا کو بلا کر لے آئے۔ وہ فوراً پہچان گئے کہ یہ تو چھوٹا ہے ،چھوٹی ماں کا بیٹا اسمٰعیل ہے۔انھیں اٹھایا اور گھر لے گئے۔گھر پر دونوں تھکے ماندے مہمانوں کی مالش وغیرہ کی گئی، گرم پانی سے نہلایاگیاتو دونوں کو آرام آیا۔ کوٹ پلی میں اباجان اور عبدالغنی ہفتہ دس دن ٹھہرے جہاں پر ان دونوں کی خوب خاطر تواضع کی گئی اور دونوںخوب اپنی تھکن اتار کر واپس گھر آئے۔

چوتھی جماعت پاس کرکے جب پانچویں جماعت میں پہنچے تو اپنے ابا کا ہاتھ بٹانے کی غرض سے نوکری بھی شروع کی۔

Saturday, February 19, 2011

فسانہ آزاد: پیش لفظ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اورابا جان چلے گئے

اباجان ایک مردِ قلندر کی شان کے ساتھ اس دنیا میں رہے اور قلندرانہ شان ہی کے ساتھ ایک صبح چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 

سوگ کے ان تین دنوں میں فیس بک Face Book پر بچوں کے خیالات پڑھ کر میں حیران رہ گیا۔ اتنے گہرے احساسات، اتنے معنی خیز، اتنے نازک اور اتنے مضبوط و مربوط۔۔

ایک پوتے نے لکھا۔’’ آج فضا مسموم ہوگئی ہے، ایک نسل چلی گئی۔۔۔۔ ۔۔ اے کاش کوئی ہمیں بکھرنے سے بچالے۔۔۔ آج تو ہماری چیخیں بہرے کانوں سے ٹکرا کر واپس آرہی ہیں۔‘‘

ایک اور پوتے نے لکھا۔’’ آج میں پھر سے یتیم ہوگیا۔‘‘

ایک بہو نے لکھا۔’’ آج میرا ایک اور سائبان کھوگیا۔‘‘

ایک پوتی نے کینیڈا سے لکھا۔’’ میرے ویلینٹائن ، میرے دادا ابّا۔‘‘

ایک بچی نے لکھا ’’ لوگ اس دنیا سے جا سکتے ہیں، لیکن ہمارے دلوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

ایک اور بچی نے لکھا۔’’ جانے والے ہمیشہ کے لیے ہمارے دلوں میں رہیں گے۔ ریسٹ ان پیس دادا ابا۔‘‘

ایک اور بچی کہتی ہے’’ اے کاش میں گزرے ہوئے وقت کو واپس لا سکتی۔‘‘
یہ محبت نامے اور یہ عشقیہ ڈائیلاگ دراصل اس فاتحِ عالم محبت کا جواب ہیں جو اباجان نے ہمیشہ ان بچوں کے ساتھ روا رکھی۔

میرے مرحوم بھائی نے ایک دن ہنس کر اباجان سے کہا تھا ، ’’ اباجان آپ ہم سے زیادہ ہمارے بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ سچ ہے، سود اصل سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔‘‘

لاہور سے سرور چچا نے جو بوجوہ ضعیفی اور ناسازی طبیعت کراچی تشریف نہیں لاسکے، فون پر مجھ سے کہا، ’’ ہم سب انھیں چھوٹے بھائی کہتے تھے لیکن وہ چھوٹے نہیں تھے، وہ تو بہت بڑے تھے۔‘‘

اباجان کا نام محمد اسمٰعیل اور تخلص آزاد، والد کا نام شیخ احمد تھا، ۱۹۲۴ میں سی پی برار کی ایک تحصیل باسم ( ضلع آکولا) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم باسم ہی میں حاصل کی، وہیں ایک دینی استاد مولانا غفور محمد حضرت سے تعلق پیدا ہوا جو دیو بندی عقیدے کے سیدھے سادے عالم تھے، جنھوں نے انھیں ساری زندگی کے لیے ایک پختہ عقیدہ اور لائحہ عمل عطا کیا۔ اللہ تب العزت کی وحدانیت اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بشریت، ختمِ رسالت، حرمت اور معصومیت پر پختہ یقین اور بدعات سے بریت، اس عقیدے کے خاص جزو تھے۔ نوجوانی میںحیدرآباد آگئے، اور ایک پیر صاحب کی مریدی اختیار کی۔ دینی استاد کا اثر اتنا زیادہ تھا کہ پیر صاحب کا سات سالہ ساتھ بھی انھیں اس عقیدے سے متزلزل نہیں کرسکا۔ اس عقیدے کا شاخسانہ سرسید احمد خان کے خیالات سے ہم آہنگی اور مسلم لیگ کے ساتھ سیاسی ہمدردی تھا جو مرتے دم تک ان کے ساتھ رہا۔ صوبہ سرحد میں وقتاً فوقتاً قیام کے دوران تبلیغ کے ساتھ ساتھ تحریک ِ پاکستان کا کام بھی مستقل بنیادوں پر کیا۔

اللہ رب العزت پر یقین کا یہ عالم تھا کہ کبھی کسی انسان( جس میں ان کی اولاد بھی شامل ہے) کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا۔ جو ملا صبر و شکر کے ساتھ کھایا، نہیں ملا تو بھوکے رہے۔ ایامِ طفولیت میں راقم الحروف کے ٹائیفائڈ جیسے موذی مرض میں بھی ایک خیراتی شفا خانے سے دوا لیتے وقت جب کمپاوئنڈر نے یہ کہا کہ یہ دوا فلاں جماعت کی طرف سے ہے تو اسی وقت دوا زمین پر انڈیل دی اور چلے آئے۔ 

اک طرفہ تماشا تھی حضرت کی طبیعت بھی

انھوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں اور خصوصاً شمال مغربی سرحدی صوبے میں ان گنت تبلیغی دورے کیے اور بے شمار جلسوں اور مناظروں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ کئی لوگوں کو مسلمان کیا۔

اردو کے علاوہ انگریزی ، عربی، فارسی، سنسکرت، پشتو، بریل Braille اور مرہٹی پر عبور حاصل تھا، گویا ہفت زبان تھے۔ شاعری بھی کی اور اس ناطے شعری ذوق بھی بدرجہ اتّم موجود تھا۔ طبیعت میں شوخی و شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کا اظہار اکثر ہوتا۔

خود ہی سناتے تھے کہ بازار میں چلتے ہوئے کسی شخص کی ہیئت کذائی دیکھ کر بے اختیار ہنسی آگئی، اگلے ہی لمحے زمین پر پڑے ہوئے کیلے کے چھلکے سے پھسلے تو چاروں خانے چت، زمین پر پڑے تھے۔ فوراً ہی اٹھے اور بھرے بازار میں کان پکڑ کر تین دفعہ اٹھک بیٹھک کی ، اللہ رب العزت سے توبہ کی اور سکون سے آگے چلدیئے۔

۱۹۴۸ میں سقوطِ حیدرآباد کے موقعے پر ایک ہندو غنڈے نانا پٹیل عرف پتری سرکار کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ بیس ماہ کی جیل کاٹ کر ہندوستان کی جیل سے رہا ہوئے تو پاکستان کی جستجو کی۔ اونٹ پر سوار ہوکر سرحد پار کی اور میر پور خاص پہنچے۔ پاکستان آکر پشاور میں سکونت اختیار کی لیکن بے قرار طبیعت نے چین سے بیٹھنے نہ دیا تو یہاں سے بھی صوبہ سرحد کے قبائیلی علاقوں کے کئی یادگار دورے کیے۔ ۱۹۵۰ میں پاکستان آتے ہی پیر صاحب اور پھر ۱۹۵۴ میں کراچی آکر تبلیغی کام دونوں کو خیر باد کہہ کر پرانی نمائش پر نابیناوں کے ایک اسکول IDA REU میں استاد ہوگئے۔ ۱۹۶۰ میں معلمی چھوڑکر نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفیئر آف دی بلائینڈ میں بریل پریس کے مینیجر کے طور پر ذمہ داری سنبھالی اور خوب سنبھالی۔ نمایاں کارناموں میں معیاری اردو بریل کا قاعدہ اور بریل میں قرآن شریف کیطباعت شامل ہیں۔ اس سے پہلے اردن اور سعودی عرب سے بریل قرآن شائع ہوچکا تھا لیکن اردن والے نسخے میں Punctuations انگلش والے استعمال ہوئے تھے اور سعودی نسخے میں سرے سے اعراب ہی نہیں تھے، جبکہ اباجان والے نسخے میں اردو بریل کے اعراب استعمال کیے گئے ۔ ۱۹۷۰ میں بریل قرآن مکمل کرچکے تھے جسکی تصحیح مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب نے فرمائی۔ تقریباً بیس سال نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفیئر آف دی بلائینڈ کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد ۱۹۷۹ میں نیشنل بک فاونڈیشن میں بریل پریس کے مینیجر مقرر ہوئے۔

کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا ۔ مطالعے کا شوق جنون کی حد تک تھا، جسکی ابتدا اپنے ماموں کی ذاتی لائبریری سے ہوئی اور پھر قیامِ حیدرآباد کے دنوں میں وہاں کی مشہور پبلک لائبریریوں سے خاطر خواہ اکتساب کیا۔ وفات سے کچھ ہی عرصہ قبل، سامنے والے پڑوسی نے ایک رات تقریباً ڈھائی بجے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بلا کر کھڑکی سے دکھایا، اباجان بڑے مزے سے اپنے بستر پر بیٹھے ، دنیا و مافیہا سے بے خبر، کتاب کا مطالعہ کررہے تھے اور نوٹس بنارہے تھے۔ ہمارے لیے یہ نظارہ ان کے روز مرہ کے معمولات میں سے تھا۔ کئی یادگار تحریریں چھوڑی ہیں جن میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی کتاب ’’ خیر البشرصلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ( جو بعد میں ماہنامہ تعمیرِ افکار کے سیرت نمبر میں بھی شایع ہوئی، ’’ اسلامی معاشرہ اور نابینا افراد‘‘ ، ’’ حضرت ابوزر غفاری‘‘ اور مذاہبِ عالم کے تقابلی مطالعے پر کئی قابلِ ذکر مضامین ( جو شش ماہی جریدہ السیرہ میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے) شامل ہیں۔

اباجان نے ایک اسلامی عالم، داعی حق، بہترین مقرر، بہترین استاد، مضمون نگار اور comparative religion کے طالب علم کی حیثیت سے ایک بھر پور زندگی گزاری، وہ اقبال کے شعر

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

کی عملی تشریح و تفسیر بن کر رہے اور نسیمِ صبح کے ایک تازہ جھونکے کی طرح ہمارے درمیان سے گزر گئے، جسکی خوشبو، تازگی اور صباحت مدتوں ہمیں ان کی یاد دلاتی رہے گی، رلاتی رہے گی اور تڑپاتی رہے گی۔

حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا