Tuesday, March 27, 2012

فسانہ آزاد :: باب ششم:: او غافِل افغان

باب ششم۔فسانہ آزاد
او غافل افغان
محمد خلیل الر حمٰن

موجودہ پاکستان اور افغانستان کے قبائیلی علاقے یاغستان، باجوڑ ، ڈبراور خار وغیرہ اباجان کے لیے ایک دوسرے گھر کی حیثیت رکھتے تھے، جہاں پر اباجان نے ۱۹۴۰ء سے جانا شروع کیا اور ۱۹۵۵ءتک جاتے رہے۔ ۱۹۵۰ءمیں ہندوستان سے پاکستان پہنچے اور پشاور میں قیام کیا تو یہاں سے بھی علاقہ غیر کے کئی چکر لگائے۔یاغستان ، ڈبر اورخار میں تویہ وہاں کے سرداروں، نوابوں اور خانوں کے خاص مہمان بن کر رہتے تھے۔

گو ہندوستان پر مسلمانوں کاسب سے پہلا حملہ اور آمد تو محمد بن قاسم نے سندھ کی طرف سے کیا تھا لیکن اس کے بعد کے تمام حملوں میں مسلمان حملہ آور بادشاہوں یا اسلام کی تبلیغ کے لیے آنے والے صوفیوں اور دیگر بزرگانِ دین کا واحدراستہ افغانستان ہی رہا، لہٰذہ مغلوں کی شکست اور انگریزوں کی آمد کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد امید افغانستان کی طرف سے آنے والے مسلمانوں سے بندھی رہی تاکہ وہ آکر انھیں ان انگریزوں اور ہندو ¾وں سے نجات دلا سکیں۔ اباجان کے پیر صاحب نے بھی کچھ پیشن گوئیاں کر کھی تھیں اور ان پیشن گوئیوں کے مطابق اس باربھی ہندوستان کو فتح کرنے والا لشکر افغانستان کی جانب ہی سے آنے والا تھا، جسکی کمانڈ پیر صاحب ہی کرنے والے تھے ، اور نتیجتاً تمام ہندوستان مسلمان ہونے والا تھا۔مسلمانوں اور خاص طور پر اسلامی مجاہدوں کو ترپتی اور ہمپی کا والی بھنڈار کے مندروں سے دستیاب ہونے والاسارا سونا اور دیگر قیمتی نوادرات مالِ غنیمت میں ملنے والے تھے، لہٰذہ ان کے تمام مریدوں کی خاص توجہ کا مرکز یہ سرحدی علاقہ ہی تھا جہاں سے مجاہدوں کی آمد متوقع تھی۔ وہ اس علاقے میں پہنچ کر لوگوں کوخوابِ غفلت سے جگانا اور جہاد کے لیے تیار کرنا اپنا فرضِ عین تصور کرتے تھے۔اکثر و بیشتر ان مبلغین کی جماعت حیدرآباد سے ان علاقوں میں پہنچی ہوئی ہوتی تھی اور ان سوئے ہوئے افغانوں کو جگانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہوتی تھی۔

اباجان باسم سے پیر صاحب کے پاس حیدرآباد پہنچے اور وہاں رہائش اختیار کی تو ان کے والدین اس وقت باسم ہی میں تھے لہٰذہ اباجان کے لیے حیدرآباد میں قیام یا ہندوستان کے کسی اور علاقے میں قیام ایک ہی بات تھی۔انھیں سرحد کچھ اتنا پسند آیا کہ انھوں نے اس علاقے کے بہتیرے چکر لگائے اور ہر مرتبہ کئی کئی ماہ وہاں قیام کیا۔ وہاں قیام کے دوران انھوں نے نہ صرف پشتو سیکھی اور اس میں بول چال میں مہارت حاصل کی بلکہ ان کا رہن سہن اور کپڑے پہننے کا انداز بھی اپنا لیا اود دیگر یہ کہ ان علاقوں کے علماءکے ساتھ بیٹھ کر ان کی شاگردی اختیار کی اورنہ صرف دینی مسائل اور علومِ دینیہ میں مہارت حاصل کی بلکہ اسی اثناءمیں ان استادوں سے بہترین عربی اور فارسی بھی سیکھ لی۔

علاقائی زبان سیکھنے اور وہاں کی بول چال، رہن سہن اور طورطریقے اختیار کرنے اور پٹھانوں کی نفسیات کا قریب سے مطالعہ کرنے کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں پر اباجان نے بہت سے دوست بنا لیے اور ان میں گھل مل گئے۔اباجان کے ان قابلِ قدر دوستوں میں مولوی امیر الدین صاحب، میرا جان سیال صاحب، ڈبر کے نواب صاحب اور خار کے نواب صاحب خاص طور پر شامل ہیں۔

بھابی ( زوجہ امین بھائی مرحوم ) فرماتی ہیں کہ ایک دن اباجان نے انھیں اس علاقے میں اپنے ساتھ گزرا ہوا ایک عجیب و غریب واقعہ سنایا۔ کہنے لگے۔

” بہو بیگم! اس علاقے میں ایک مرتبہ میرے ساتھ ایک بہت عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ایک دن میں اپنے بنائے ہوے ان نئے پٹھان دوستوں میں سے ایک کے ساتھ بیٹھا تھاا ور اس علاقے کے پہاڑوں اور اس میں سے نکلنے والے قیمتی پتھروں عقیق یاقوت اور لاجورد وغیرہ کے متعلق بات چیت ہو رہی تھی ۔ یہ شخص جو کچھ مخبوط الحواس سا دکھائی دیتا تھا ، گاؤں والوں میں لیونئی ( یعنی دیوانہ) کے نام سے مشہور تھا ۔ ا س شخص نے دورانِ گفتگو ایک موقعے پراپنا ذہن بناتے ہوئے کچھ سوچا اور پھراچانک مجھے مخاطب کیا اور کہنے لگا کہ وہ مجھے ایک نرالی شے دکھانا چاہتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور اپنے گھر کی جانب چل دیا ، کچھ دیر بعد وہ اپنے گھر سے واپس پہنچا تو اس کے ہاتھوں میں ایک گٹھری تھی جسے اس نے میرے سامنے بہت احتیاط سے کھولا تو اس میں قیمتی یاقوت کے کئی بڑے بڑے ٹکڑے موجود تھے۔ اب اس نے ان ٹکڑوں کو آپس میں جوڑنا شروع کیا ۔ جب وہ انھیں جوڑچکا تو اس نے یہ شاہکار میرے سامنے کردیا۔ میں اس پتھر کو دیکھ کر حیران رہ گیا جو دراصل ایک نوزائیدہ بچے کی لاش تھی جو ہزاروں سال پتھروں میں دبے رہنے کی وجہ سے خود بھی نادر الوجود قیمتی یاقوت میں تبدیل ہوگئی تھی۔“

اباجان نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس لاش کے ٹکڑے دراصل مکمل انسانی اعضاءتھے جس طرح سائنسی ماڈل میں ہوتے ہیں اور اس بچے کے جسم میں اسی طرح فٹ ہورہے تھے ۔جب اباجان اچھی طرح اس لاش کو دیکھ چکے تو اس مخبوط الحواس شخص نے اطمینان کے ساتھ اپنی گٹھری کو سمیٹا اور گویا سلسلہ گفتگو ختم کرتے ہوئے وہاں سے اپنے گھر روانہ ہوگیا۔ یہ ایک ایسا نظارہ تھا جسے دیکھ کر اباجان حیران رہ گئے اور کچھ لمحوں کے لیے حواس باختہ ہوکر اس شخص کو جاتے ہوئے دیکھا کیے جو ان کی حیرت سے بے نیاز وہاں سے جاچکا تھا۔

یہ علاقے ان دنوں سرحدی گاندھی جناب عبدالغفار خان صاحب کے زیر اثر انڈین نیشنل کانگریس کا گڑھ سمجھے جاتے تھے اور وہاں پر آل انڈیا مسلم لیگ کی دال گلنی مشکل تھی۔وہاں پر ہر طرف پختونستان کا بول بالا تھا۔ ادھر اباجان اپنے خیالات کے اعتبار سے پکے مسلم لیگی تھے اور جہاں اسلام کی تبلیغ اپنی زندگی کا نصب العین بنائے ہوئے تھے وہیں تحریکِ پاکستان کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ اس سلسلے میں سرحد کے جس علاقے میں بھی جاتے، تحریکِ پاکستان کے لیے اپنے طور پر کام کرنے سے نہ چوکتے۔ گو انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیارتو نہیں کی، لیکن قائدِ اعظم کے ایک ادنیٰ کارکن کے طور پر کام کرنے کو ہمیشہ باعثِ افتخار سمجھا۔

چونکہ ان علاقوں میں اباجان کے اسلامی تشخص اور علمی و دینی لحاظ سے ان کے اعلیٰ مرتبے کی وجہ سے ان کی بڑی عزت کی جاتی اور کہیں بھی جانے پر پابندی یا روک ٹوک نہیں تھی، بلکہ ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے اور علاقے کے نوابوں کے مہمان خانے میں قیام ہوتا، لہٰذہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے کام کرنا بھی ان کے لیے نسبتاً آسان ہوتا۔مہمان خانے میں ان کے علاوہ اور بھی مہمان ٹھہرتے تھے جن سے اباجان کی ملاقات رہتی اور اباجان چپکے چپکے ان لوگوں تک مسلم لیگ کا پیغام پہنچاتے رہتے ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے، اباجان اپنے اسی قسم کے ایک دورے میں پچھلے کئی ماہ سے ریاست خار کے نواب صاحب کے مہمان خانے میں ٹھہرے ہوئے تھے اور اپنا تبلیغی مشن جاری رکھے ہوئے تھے کہ ایک دن انھیں مہمان خانے میں کچھ خاص قسم کی ہلچل کا اندازہ ہوا۔ یکبارگی بہت سارے مہمانانِ گرامی تشریف لے آئے۔ پتہ چلا کہ علاقے میں انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے خاص طور پر جرگہ بلایا گیا ہے۔اباجان خاموشی کے ساتھ یہ سب کچھ دیکھتے رہے اور اس دوران میں انھوں نے سب سے معمر مہمان کو تاڑ لیا۔رات آئی تو اباجان نے انھی بزرگ مہمان کے بستر کے ساتھ ڈیرہ جمالیا اور ان حضرت کے ساتھ علیک سلیک کے بعد باتیں شروع کیں۔

اباجان ساری رات ان بزرگ کے ساتھ کھسر پسر کرتے رہے اور اس دوران میں انھوں نے ان بزگوار پر واضح کر دیا کہ انڈین نیشنل کانگریس کتنی ہی اچھی جماعت سہی مگر اس کے کرتا دھرتا گاندھی جی ہیں اور گاندھی جی ایک متعصب قسم کے ہندو ہیں جب کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سب سے بڑے اور مرکزی لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح ہیں جو کتنے ہی برے سہی مگر ایک مسلمان ہیں اور ایک مسلمان ایک ہندو سے لاکھ درجے بہتر ہوتا ہے، لہٰذہ تمام ہندوستان کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایک ہندو کو ایک مسلمان پر ترجیح نہ دیں بلکہ ایک ہندو کے مقابلے میں ایک مسلمان کا ساتھ دیں ۔ بات سمجھ میں آنے والی تھی لہٰذہ انھوں نے اسے تسلیم کیا۔ ادھر انھیں پکا کرنے کے بعد ہی اباجان سوئے، لیکن سکون کی نیند کہاں۔ انھیں تو اس تمام کارروائی اور نفسیاتی طور پر ان بزرگ کی برین واشنگ کے باوجود ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا کہ جانے کل کیا ہو۔ پاکستان مسلم لیگ اور خود پاکستان کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا تھا ایسے میں انھیں سکون کی نیند بھلا کیسے آتی۔ وہ رات انھوں نے خدا خدا کرکے آنکھوں میں کاٹ دی۔ صبح ہوئی اور فجر کی نماز کے بعد جرگہ کی کارروائی شروع ہوئی تو اباجان بھی دور ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئے۔ بھس میں چنگاری تو وہ لگا ہی چکے تھے ، اب انھیں نتیجے کا انتظار تھا۔ تقریریں شروع ہوئیں تویکے بعد دیگرے کئی سرداروں اور سربرآوردہ اشخاص نے اپنی تقریروں میں کھل کر انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت میں بیان دیئے۔

آخر میں ان بزرگ کی باری آئی۔ بڑی مشکل سے وہ کھڑے ہوئے اور ایک نہایت دھیمی آواز اور پر اثر انداز میں یوںگویا ہوئے۔ 

” گاندھی مسلمان ہے یا ہندو ہے؟“ لوگوں نے جواباً کہا کہ وہ ہندو ہے۔ آپ پھر یوں گویا ہوئے۔

” محمد علی جناح مسلمان ہے یا ہندو ہے؟“ لوگوں نے جو ان کے اس اندازِ تخاطب سے بہت کچھ سمجھ چکے تھے ، مجبوراً جوب دیا کہ وہ ایک مسلمان ہیں۔

” تو پھر ایک مسلمان ایک ہندو سے لاکھ درجے بہتر ہے اور ہم ایک مسلمان کے مقابلے میں ایک ہندو کی کبھی بھی حمایت نہیں کر سکتے۔“

اس مختصر تقریرکے بعد وہ بیٹھ گئے۔دیگر لوگوں کی کئی گھنٹوں پر مشتمل تقریروں کا اثر منٹوں میں زایل ہوچکا تھا۔ اس معمر ترین بزرگ کی مخالفت کرنے کی ہمت کسی میں نہ تھی۔گومحفل پر سناٹا چھایا ہوا تھالیکن لوگوں کے دلوں میں ایک طوفان برپا تھا۔اباجان کی اس چھوٹی سی شرارت نے انتہائی سوچ بچار کے بعد بلائے ہوئے اس جرگے کا ستیاناس کردیا تھا۔

ادھر نواب صاحب خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ اس حادثے کا ذمہ دار کون ہے۔ کس شخص میں اتنی جرات اور اتنی سمجھ تھی کہ وہ سوچ سمجھ کر ان بزرگ کے ذہن میں یہ باتیں ڈال سکتا تھا۔ انھوں نے اباجان کو بلایا اورمختصر انداز میں اپنے تاثرات کا اظہارکچھ یوں کیا۔

” مولوی صاحب آپ نے یہ اچھا نہیں کیا“ ۔

بعد میں کھانے پر نواب صاحب نے اباجان کو مدعو نہیں کیا اور اس طرح گویا اپنی انتہائی ناراضگی کا بھی بر ملا اظہاربھی کردیا۔ ایک مہمان کی اس سے زیادہ بے عزتی ممکن نہیں ہوتی کہ میزبان اسے اپنے دستر خوان پر نہ بلائے۔ اباجان نے اپنا بوریا بستر سنبھالا اور بغیر میزبان سے ملاقات کیے وہاں سے نکل آئے، کبھی نہ واپس لوٹنے کے لیے۔ اس واقعے کے بعد اباجان نے زندگی بھر خار کے نواب صاحب سے ملاقات نہیں کی۔

مولوی امیر الدین صاحب بھی اباجان کے روحانی استادوں میں سے تھے جن سے اباجان نے اکتسابِ علم کیا۔ مولوی صاحب ان تبلیغیوں کی جد و جہد میں بھی ان کے ہم خیال تھے اور وقتاً فوقتاً انھیں اپنے مفید و قیمتی مشوروں سے نوازتے رہتے تھے۔ ادھر صورتحال یہ نظر آرہی تھی کہ ایک طرف تو انگریز بہادر سے چھٹکارہ حاصل کرنا مشکل نظر آرہا تھا اور دوسری طرف ہندو جو مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور حکومت کا ڈسا ہوا تھا اور اب پورے ہندوستان پر بلاشرکتِ غیرے حکومت کرنا چاہتا تھا۔

پٹھان بھی اپنے طور پر کچھ تیاریوں میں مصروف تھے اور انھوں نے امیر الدین صاحب کے مشورے سے علاقے کے عمائدین اور سرداروں کا ایک وفد ترتیب دیا جو ہندوستان بھر میں دورے کرکے جہاد کے لئے روپے پیسے اکٹھا کرنا چاہتا تھا۔ اباجان چونکہ پشتو بھی بہت اچھی طرح بول اور سمجھ سکتے تھے لہٰذہ ریاست حیدرآباد کے سفر میں ترجمان کا کام ان کے سپرد کیا گیا۔

وفد ہندوستان کی ریاست حیدرآباد پہنچا اور اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان صاحب سے ملاقات کی ٹھہری۔ ملااقات کے لیے پہلے سے وقت لیا گیا اور اس طرح ریاست حیدرآباد کے آخری فرمانروا میر عثمان علی خان نے شمال مغربی سرحدی صوبہ سے آئے ہوئے اس وفد کو شرفِ باریابی بخشا۔ وفدکو نظام حیدرآباد آصف جاہ ہفتم میر عثمان علی خانصاحب کے ڈرائینگ روم میں بٹھایا گیا اورانھوں نے ادب سے بیٹھ کر اعلیٰ حضرت کا انتظار شروع کیا۔ڈرائینگ روم پرانے دور کے فرنیچر سے بھرا ہوا تھاجو آصف جاہی جاہ حشمت اور عظمت کے منہ بولتے ثبوت کے طور پر آج بھی موجود تھا لیکن اس وقت اس فرنیچر پر منوں ٹنوں دھول مٹی جمع تھے اور یہ حال سرحد سے آئے ہوئے وفد نے بھی دیکھا اور ناک بھوں چڑھائی۔

اعلیٰ حضرت ڈرایئنگ روم میں جلوہ افرز ہوئے تو اس حال میں کہ انتہائی سادہ لباس زیبَ تن کیا ہوا تھا۔ ویسے بھی اعلیٰ حضرت کی کنجوسی مشہور تھی اور ان کی یہ شہرت وفد کے کانوں تک بھی پہنچ چکی تھی۔ جب سب حاضرین محفل اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تو باقاعدہ بات چیت شروع کرنے سے پہلے وفد کے سربراہ نے پشتو میں اباجان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حالات کے پیشِ نظر انھیں تو یہ لگتا ہے کہ اس ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ یہ بڈھا انھیں کوئی دیالو قسم کا نہیں لگتا۔

اعلیٰ حضرت جنھیں پشتو نہیں آتی تھی انھوںنے دلچسپی لیتے ہوئے وفد کے سربراہ کی طرف دیکھا تاکہ معلوم کریں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ادھر اباجان نے فوراً بات بنائی اور سردار کی طرف سے اچھی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

اعلیٰ حضرت نے اس پر خوشی کا اظہار فرمایا اور معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔سربراہ نے اب اپنی تقریر شروع کی اور موجودہ حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے جہاد کی ضرورت پر روشنی ڈالی اور اس سلسلے میں اپنے محدود وسائل کا حال بیان کیا اور اعلیٰ حضرت سے مالی امداد کی درخواست کی۔ اباجان نے فوراً کسی ماہر ترجمان کی طرح اس پشتو تقریر کا اردو ترجمہ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں پیش کردیا۔

اعلیٰ حضرت نے جواب میں کہا کہ اگرچہ موجودہ حالات میں خود ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں تاہم اس وہ اس درخواست کو رد بھی نہیں کرسکتے اس لیے کہ ان کے یہ مہمان بڑی دور سے چل کر ان کے پاس پہنچے ہیں، لہٰذہ سردست وہ انھیں صرف ایک لاکھ روپے ہی دے سکتے ہیں۔قارئین کرام کی توجہ کے لیے عرض ہے کہ یہ آج سے کوئی لگ بھگ ستر سال پہلے کا واقعہ ہے جس وقت ایک لاکھ روپے خاصی اہمیت رکھتے تھے۔ 

یہ سننا تھا کہ وفد کے سربراہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انھوں نے فرطِ جذبات میں اعلیٰ حضرت کے ہاتھ چوم لیے اور معافی کے طلبگار ہوئے کہ ملاقات کے شروع میں انھوں نے کچھ گستاخانہ کلمات کہے۔اباجان نے اس کا ترجمہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت کاشکریہ ادا کیا اور ان کی بہتر صحت کے دعا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اعلیٰ حضرت نے ان حضرات کی تشریف آوری کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کیا اور اس طرح سے یہ ملاقات اپنے انجام کو پہنچی۔

ادھر پٹھان گروپ تو میر عثمان علی خان سے خوش و خرم واپس روانہ ہوا ادھر اباجان اور ان کے گروہ نے بھی اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں۔ ان کی جماعت کا اصل مقصدہندوستان کے تمام ہندووﺅں کو مسلمان کرنا تھا اور اس کے دو طریقے نظر آتے تھے۔ ایک تو تبلیغ کے اس کام کے ذریعے سے جو اباجان اور ان کے ساتھیوں نے ایک عرصے سے جاری رکھا ہوا تھا اور دوسرا جہاد کا راستہ تھا۔ قومی اور بین الاقوامی حالات کو دیکھ کر یہی اندازہ ہورہا تھا کہ جہاد کا وقت قریب سے قریب تر آتا چلا جارہا ہے۔ اس کے لیے ایک طرف تو مسلمانوں یعنی بر صغیر کے مسلمانوں کو عمومی طور پر اور افغانوں کو خاص طور پر خوابِ غفلت سے جگانا، انھیںجذبہ جہاد سے سرشار کرنااور ایک لشکرِ عظیم تیار کرنا تھا جو ایک طرف تو انگریزوں کا مقابلا کرسکے اور دوسری طرف ہندوﺅں کو مات دیکرپورے ہندوستان میں غلبہ اسلام کی راہ ہموار کرسکے۔اس کے علاوہ اس عظیم لشکرکی تیاری اور اس کے لیے اسلحہ کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج تھا جو اس وقت ان مجاہدوں کو درپیش تھا۔ اباجان نے مولوی امیر الدین صاحب کے ساتھ مل کراس سرحدی علاقے میں اسلحے کا ایک کارخانہ لگانے کا پلان بنایا۔مولوی امیر الدین کے ذہنِ رسا کا بنایا ہوا یہ پلان بہت خوب تھا لیکن اس میں ایک معمولی سا سقم تھا۔ اس بڑے پیمانے پر اسلحہ کے کارخانے کے لیے ایک اچھی خاصی رقم درکار تھی اور رقم اس وقت ان کے پاس نہیں تھی۔ 

اباجان کے ذہنِ رسا نے بھی اس وقت اپنا کام دکھایا اور وہ بہت دور کی کوڑی لائے۔ پیر صاحب اور اباجان کی جماعت کے دیگر ساتھی ایک عرصے سے جہاد کی تیاری کے لیے چندہ مانگ رہے تھے اور اب تک پیر صاحب کے پاس ایک اچھی خاصی رقم جمع ہوچکی ہوگی۔ انھوں نے فنڈز کی فراہمی کاکام اپنے ذمے لے لیا اور اسی وقت بیٹھ کر پیر صاحب کو ایک لمبا چوڑا خط لکھا اور اس میں اسلحہ کی فراہمی کی شدید ضرورت کے پیش نظر قبایئلی علاقے میں اسلحہ کی فیکٹری کے قیام پر زور دیتے ہوئے اس کے لیے رقم کی ضرورت کا تذکرہ کیا اور پیر صاحب پر زور دیا کہ اس مد میں جمع کیے ہوئے روپے کسی ساتھی کے ہمراہ وہاں بھجوادیے جائیں تاکہ اس عظیم کام کی ابتداءکی جاسکے۔

یہ خط لکھ کر اباجان نے اپنے ایک تحریکی ساتھی کو چنا اور ان کی معرفت پیر صاحب تک وہ انتہائی اہم خط بھجوا دیا اور خود اس عرصے میں انتظار اور دیگر کاموں کی تیاری میں لگ گئے۔ ان کی خیال میں پیر صاحب جو خود اپنی کی ہوئی پیشن گوئیوں کے مطابق تمام ہندوستان کے مسلمان ہونے اور اپنے ہاتھوں فتح ہونے کے ایک عرصے سے انتظار میں تھے یہ سنہری موقع دیکھتے ہی خوشی سے جھوم اٹھیں گے اور فورا ً ہی فنڈز بھجوا کر اسلحہ کے اس کارخانے کی پہلی کھیپ کا انتظار کریں گے۔

پیر صاحب کا جواب آنے میں کافی تاخیر ہوئی تو اباجان کا ماتھا ٹھنکا لیکن پھر بھی انھوں نے حسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے اسے معمول کی انتظامی تاخیر سمجھا اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔آخر کار کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اورکوئی ڈھائی تین ماہ بعد اباجان کے ایک ساتھی پیر صاحب کا جواب لیکر حیدرآباد سے واپس پہنچ گئے۔

اباجان نے فوراً ان صاحب سے حال احوال پوچھا تو انھوں نے پیر صاحب کی تازہ چھپی ہوئی کتاب ” امام الجہاد“ کی کئی کاپیاں اباجان کی خدمت میں پیش کیں اور ساتھ ہی یہ کہتے ہوئے کہ جہاد کے لئے جمع کیے ہوئے پیسوں سے پیر صاحب کی اسی مقصد سے لکھی ہوئی کتاب کی اشاعت ممکن ہوپائی ہے لہٰذہ انھوں نے سردست اس معرکتہ الآراءکتاب کی چند کاپیاں اور چھ سو روپے بھجوائے ہیں اور ہدایت کی ہے کہ اس کتاب کی مدد سے مقامی لوگوں کو خوابِ غفلت سے جگا کر ان سے چندہ وصول کیا جائے تاکہ وہ اس مد میں استعمال ہوسکے۔

اباجان کے تو سر سے لگی ہے اور تلوؤں سے بجھی۔ ان کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک رنگ جاتا تھا۔ انھوں نے انتہائی غصے کی حالت میں وہ چھ سو روپے اٹھا کر پھینک دیئے جو ان کے ساتھی نے موقع غنیمت جان کر فوراً اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیے۔پھر اباجان نے اسی وقت پیر صاحب کو ایک خط لکھا اور ان کو ” کاغذی امام الجہاد “ قرار دیتے ہوئے انھیں آگاہ کیا کہ تیر و تلوار سے جہاد ان کے بس کی بات نہیں ہے اور ان سے استدعا کی کہ وہ جہاد وغیرہ کا خیال دل سے بالکل نکال دیں ۔آخر میں دعا کی کہ اللہ ان کے اور اباجان کے حال پر رحم فرمائے۔

کہتے ہیں کہ جب یہ خط ان کے پیر صاحب کو ملا تو انھوں نے یہ خاص طور پر اپنے مریدوں کو پڑھوایا کہ دیکھئے ایسے بھی مرید ہوتے ہیں جو اپنے پیر کو کاغذی امام الجہاد لکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔انھوں نے یہ خط انتہائی احتیاط سے اپنی دراز میں سنبھال کر رکھ لیا تا کہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔

بہرحال قادیانیت کے مسئلے کے بعد اس واقعے سے ایک طرف تو اباجان پر اپنے پیر کی مزید کرامات ظاہر ہوئیں اور دوسری طرف پیر صاحب کے تئیں خود ان کے اس خیال کو بھی مزید تقویت ملی کہ اباجان چونکہ گاؤں کے رہنے والے ایک لٹھ مار قسم کے انسان ہیں لہذہ ان کا سدھرنا ناممکن ہے۔

بہر حال اس طرح اباجان کا اسلحے کی تیاری اور اسمگلنگ کا خواب ادھورا ہی رہ گیا اور وہ وہاں سے بے نیل و مرام واپس لوٹے ، مزید یہ کہ اسکے بعد نہ توقبائل سے کوئی لشکرِ جرار دشمن کی سر کوبی کے لیے ہندوستان کی جانب روانہ ہوسکا اور نہ پیر صاحب کی پیشن گوئی کے مطابق پوراہندوستان ہی مسلمان ہوسکا۔اباجان جو اس سے پہلے کئی خزانوں اور دولت کے انبار کو ٹھکرا چکے تھے انھوں نے کبھی ترپتی اور ہمپی کا والی بھنڈار کے مندروں میں چھپے خزانوں کو درخورِ اعتناءنہیں سمجھا، ہاں البتہ باقی مریدوں کے لیے اس خزانے کا نہ ملنا ایک بہت بڑا نقصان تھا۔

اباجان سمجھتے تھے کہ ان علاقوں میں ابھی ان کا کام مکمل نہیں ہوا ہے، وہ علامہ اقبال کے بقول ” ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“ پر یقین رکھتے تھے اور ان لوگوں سے ابھی مایوس نہیں ہوئے تھے۔ وہ مزید کچھ عرصہ اس علاقے میں رہے اور اپنا کام کرتے رہے۔ ان کا دودھاری مشن اس بات کا متقاضی تھا کہ وہ اس علاقے کے مزیددورے کریں اور آنے والے دنوں نے ثابت کیا کہ نہ صرف دینی لحاظ سے بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی انھوں نے اس علاقے میں کئی کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔

۱۹۵۰ءمیں پاکستان آنے کے بعد بھی اباجان نے اس علاقے کے کئی چکر لگائے جن کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔پاکستان بننے سے پہلے آخری دورہ انھوں نے ۱۹۴۷ءمیں کیا اور جون میں میرا جان سیال صاحب کے گھر میں انھوں نے ۳ جون کا تاریخی اعلان سنا اوروہاں سے بوریا بستر سمیٹ کر حیدرآباد روانہ ہوئے تاکہ اس نئی صورتحال کے مقابلے کے لیے خود کو تیار کرسکیں۔

فسانہ آزاد::باب پنجم:: فتنہ قادیانیت اور اباجان کی جد و جہد

باب پنجم۔فسانہ آزاد
فتنہ قادیانیت اور اباجان کی جد و جہد

محمد خلیل الر حمٰن

]ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اباجان موجودہ ہزارہ ڈویژن کی کسی تحصیل میں موجود تھے اور ایک جلسہ گاہ میں تقریر کے لیے ان کا نام پکارا جاچکا تھا اور وہ اسٹیج پر جاکر کھڑے ہوئے ہی تھے کہ اسٹیج کے سامنے ایک لحیم شحیم بزرگ کھڑے ہوئے اور بآواز بلند کہنے لگے۔

” حضرات! تقریر کی دعوت دینے سے پہلے ذرا اس سے یہ تو پوچھ لیجئے کہ یہ مرزا کو کیا سمجھتا ہے۔“

اس سے پہلے کہ صدرِ محفل دخل اندازی فرماتے ، اباجان نے برملا ان صاحب کو مخاطب کرکے کہا۔

” قبلہ ! کون مرزا؟ میرے خاندان میں تو اس نام کا کوئی نہیں ہے۔ کیا یہ آپ کا کوئی رشتہ دار ہے؟“

”حضرات! یہ لونڈا میرے پوتے کی عمر کا ہے ۔ میں نے دس سال منطق پڑھائی ہے، یہ مجھے منطق پڑھا رہا ہے۔ اس سے پوچھیئے کہ یہ مرزا غلام احمد قادیانی کو کیا سمجھتا ہے۔ میرا گمان ہے کہ یہ قادیانیوں کی ہم خیال جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو ہمیں اس کی تقریر نہیں سننی ہے۔“

”جناب آپ سے درخواست ہے کہ اس سوال کا سیدھا سا جواب دے کر اپنی تقریر شروع کیجیے۔“ صدرِ محفل نے معاملے کو نمٹاتے ہوئے کہا۔“

” حضراتِ گرامی! اگرچہ اس سوال کا میری آج کی تقریر سے کوئی تعلق تو نہیں بنتا ، اسلیے کہ میری آج کی تقریر سیرتِ نبویﷺ سے متعلق ہے۔ پھر بھی اگر آپ کا اصرار ہے تو میں یہ برملا ، اللہ کو حاضرو ناضر جان کرکہے دیتا ہوں کہ میںمسمی محمد اسمٰعیل آزاد مرزا غلام ا حمد قادیانی کو

کافر ، کاذب اور دجال سمجھتا ہوں اور اس کو نبی ماننے والے کوپکا کافر گردانتا ہوں۔ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول تھے
اورنہ ان کے بعد کوئی نبی آیا ہے اور نہ قیامت تک کوئی اور نبی آسکے گا۔اب حضرات میں اس مسئلے کو ایک طرف چھوڑ کر اپنی آج کی تقریر کی طرف آتا ہوں ۔ میری آج کی تقریر کا عنوان ہے۔۔۔۔ “

لیکن اتنے میں سوال کرنے والے صاحب جو اسٹیج پر چڑھ چکے تھے اور دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے اباجان کی طرف بڑھ رہے تھے ، اباجان کے قریب پہنچ گئے اور انھیں فرطِ محبت سے لپٹالیا اور آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہنے لگے۔“

”معاف کیجیے گا حضرت، آپ تو میرے بھائی ہیں۔ میں آپ کو غلط فہمی میں اللہ جانے کیا سمجھتا تھا۔ “

اباجان نے بھی ان سے معانقہ کیا اور انھیں اپنے سے لپٹاے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ ان صاحب نے ا باجان کی داڑھی کو فرطِ عقیدت سے اپنے دونوں ہاتھوں سے چھوا اور اطمینان کے ساتھ اسٹیج سے نیچے اتر گئے۔ان کی تسلی ہوچکی تھی اور اب وہ نہایت مطمئن انداز میں بیٹھے اباجان کی تقریر سن رہے تھے۔

در اصل اباجان کے پیر صاحب جو بزعمِ خود اپنے آپ کو مامور من اللہ سمجھتے تھے اور من جانب اللہ کشف و الہام سے نوازے جانے کا دعویٰ کرتے تھے ( وللہ اعلم بالصواب)، مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی وغیرہ تو نہیں البتہ مامور من اللہ ضرور سمجھتے تھے اور اسی لئے ان کی اور ان کی جماعت کی جانب لوگوں کا گمان ِ غالب یہی تھا کہ وہ قادیانی ہیں۔ ادھر اباجان بچپن اور لڑکپن ہی سے کسی اور ہی راہ پر لگ چکے تھے، پھر پیر صاحب اور دیگر مریدوں کے برعکس بے انتہاءمطالعے کی عادت نے ان کو اس علمی مرتبہ پر پہنچادیا تھا کہ خود پیر صاحب بھی علمی محاذ اور علمی میدان میںانکے معتقد و معترف تھے، لہٰذہ اباجان دینی اعتقادات و مسائل اور فلسفہ میں اپنا ایک منفرد انداز اور طور طریقہ رکھتے تھے جو دیگر لوگوں کے غیر علمی انداز سے بالکل مختلف تھا۔ وہ اللہ کے رسول ﷺ کی ختم رسالت پر پختہ یقین رکھنے اور دیگر بدعات سے بریت کے باوصف ان خرافات سے کوسوں دور تھے۔

جلسے کے فوراً بعد اباجان کے ایک ساتھی نے انھیں الگ لے جاکر راز دارانہ انداز میں پوچھا کہ یہ کیاآپ نے مرزاغلام احمد قادیانی کو واقعی کافر ، کاذب اور دجال کہا ہے؟ اباجان کے ہاں کہنے پر وہ دوبارہ پوچھنے لگے کہ کیا واقعی آپ نے شرح ِ صدر کے ساتھ یہ کہا ہے یا وقتی مصلحت کے تحت ایسا کہا ہے۔ اباجان نے مسکراتے ہوئے انھیں بتایا کہ انھوں نے پورے شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہی ہے۔



پھر کیا تھا، اباجان کے ان ساتھی کی بدولت یہ خبر انکے پیر صاحب تک پہنچی

کہ اکبرنام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں۔

انھوں نے اباجان کے حیدرآباد آنے پر ان کی سرزنش کا پرو گرام بنالیا۔ جب اباجان اپنا دورہ مکمل کرکے حیدرآباد واپس پہنچے تو حسب توقع ان سے پیر صاحب نے وہی سوال کیا جو جلسے کے بعد ان کے ساتھی نے کیا تھا۔ اباجان کا جواب اب بھی وہی تھا کہ انھوں نے شرح صدر کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر، کاذب اور دجال کہا تھا۔

صورتحال کافی سنگین تھی لہٰذہ اس مسئلے پر غور کے لیے کئی بزرگ اصحاب پر مشتمل ایک کمٹی( کمیٹی) بنا دی گئی۔ اس کمٹی نے پہلے تو آپس میں اس مسئلے پر غورو خوض کیا لیکن جب کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکی تو اس نے ایک مناظرہ کروانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس مناظرے میں ایک طرف تو پیر صاحب اور ان کے بزرگ اصحاب وغیرہ شامل تھے تو دوسری جانب اباجان اور ان کے چند سرپھرے دوست شامل تھے۔

مناظرہ شروع ہوا تو کئی روز تک چلا۔ ہر روز نمازِ عشاءکے بعد مناظرہ شروع ہوتا اور رات گئے تک جاری رہتا۔ اباجان کی علمیت اور دینیت کا معاملہ تھا، وہ کیسے ہار جاتے۔ آج ا نھوں نے اپنا سب کچھ داﺅ پر لگا کر بھی یہ بازی جیت لی تو یہ گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں ہوگا۔انھوں نے اپنے یقین اور ایمان کے سہارے اپنی علمیت کو ٹٹولا اور وہ تمام دلائل و براہین نکال لائے جن کی انھیں اس وقت جتنی شدید ضرورت تھی شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ ہزارہ میں تو یقین کے ساتھ اقرار کے دوجملے کافی تھے لیکن یہاں ان ڈھلمل یقین لوگوں میں اباجان کو ٹھوس ثبوت و شواہد اور بین نشانیاں چاہیئے تھیں جو اللہ رب العزت نے ان کے ذہنِ رسا کو اس وقت عطا کیں ۔ انھوں نے اللہ کی مددکے سہارے اپنی بحث شروع کی اور کئی دن تک جاری رہنے کے بعد ایک عشاءکی نماز پڑھ کر اپنے دلائل کو سمیٹا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوچکا تھا۔ حق آچکا تھا اور باطل مٹ چکا تھا اور بے شک باطل مٹنے ہی کے لیے تھا۔ پیر صاحب بمع حاضرین محفل، اس بات کے قائل ہوگئے کہ غلام احمد قادیانی کذاب کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔نہ وہ نعوز باللہ نبی ہے اور نہ ہی وہ نعوذباللہ مامور من اللہ ہے۔ وہ کافر کاذب اور دجال ہے۔ طے پایا کہ اگلے روز نمازِ فجر کے بعد پیر صاحب اس بات کا باقاعدہ اعلان فرمایئں گے۔
اگلے دن صبح فجر کی نماز ادا کی گئی اور اس کے بعد اباجان اور ان کے باغی گروپ کی توقعات کے عین خلاف پیر صاحب نے اعلان کیا کہ

رات انھیں خواب میں کشف ہوا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر کہنا درست نہیں، لہٰذہ وہ اپنے رات کے فیصلے سے رجوع کرتے ہیں۔

اس کے جواب میں اباجان نے بھی نہایت سخت موقف اختیار کیا اور صاف صاف لفظوں میں پیر صاحب پر واضح کردیا کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کافر ہے۔ پیر صاحب کا کشف ان کے ساتھ، اگر اباجان پر اس قسم کا کشف ہوتا ہے تو وہ بھی اس سلسلے میں غور کریں گے، تب تک وہ مرزا کو کافر کہتے ، سمجھتے اور لکھتے رہیں گے
۔

فسانہ آزاد::باب چہارم :: میدانِ عمل میں

باب چہارم۔فسانہ آزاد
میدانِ عمل میں
محمد خلیل الر حمٰن

اباجان تبلیغ کے لیے نکلے تو اپنا سب کچھ بھول کر ایک اللہ کے نام کو متعارف کروانے اور اسے گھر گھر، بستی بستی، قریہ قریہ عام کرنے کے لیے اپنی ہستی کو مٹادیا ، اپنی ذات کو بھول گئے اور اپنے نفس امارہ کو مار کر صرف ایک بات کو یاد رکھا کہ وہ ذاتِ باری، وہ ہستی جس نے انھیں پیداکیا اور اس بات کا شعوراور اعزاز بخشا کہ وہ اسے پہچان کر اسکا نام اس دنیا میں پھیلا سکیں وہی اس دنیا کی واحد حقیقت ہے اور باقی سب دھوکے کی ٹٹی اور ایک ڈھکوسلہ ہے۔ جب وہ دورے کے لیے نکلتے تو نہ انھیں اپنی بھوک اورپیاس یاد رہتی اور نہ سفر کی طوالت ہی ان کے قدم ڈگمگا سکتی۔ صرف ایک اللہ اور اس کے رسول کے دین کا پرچار کرتے ہوئے چلتے تو نہ تو وہ خود باقی رہتے، نہ ان کی ذات، نہ ان کی بھوک پیاس اورسفر کی صعوبتیں اور نہ دوست یار ،احباب اور گھر والے۔سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے تھا، جب لاد چلے تھا بنجارہ۔رہے نام اللہ کا۔

ایسے ہی ایک سفرکے آغاز میں جب ڈیڑھ دوسو کلو میٹر دور ماہورکے قلعے کا قصد کیا تو نہ منزل مقصود کی دوری ، نہ راستے کی تھکن اورنہ گھنے جنگلات اور ان میں موجود وحشی درندوں کا خیال ہی انھیں اپنے اس تنہا طویل سفر سے باز رکھ سکا اور وہ اللہ کا نام لے کر یکبارگی اٹھے اور روانہ ہوگئے۔زادِ سفر قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں کے امیر المومنین حضرت عمرفاروقؓ اور مصر کے گورنر حضرت سعیدبن عامرؓکے نقشِ قدم پر انتہائی مختصر تھا۔

رات اور دن کی فکر نہ کرتے ہوئے، منزلیں طے کرتے، میدان مارتے ہوئے، درخت اور سبزہ زاروں کو پار کرتے، گھنے جنگل بیابان میں سے راستہ بناتے ہوئے، بستیوں اور ویرانوں کی سیر کرتے ہوئے، کبھی کچھ میسر آگیا تو کھالیتے ورنہ فاقہ کرتے ہوئے، اباجان چلے تو فاصلے سمٹتے چلے گئے۔ گز، فرلانگ اور میل طے ہوتے چلے گئے اور اباجان اپنی منزلِ مقصود سے قریب تر ہوتے چلے گئے۔

راستے میں ماہور کے قلعے سے نیچے، قلعے کی دیوار کے ساتھ ساتھ، پہاڑ کی ترائی میںایک گاﺅںتھا۔ اباجان شام کے وقت اس گاﺅں میں پہنچ گئے۔اباجان کے سر میں قلعے کا سودا سمایا ہوا تھا، ادھر گاﺅں والوں نے بھی اباجان کو کوئی ایسی خاص لفٹ نہیں کروائی، لہٰذہ اباجان نے زیادہ وقت اس گاﺅں میں گز ارنے کی بجائے جلد از جلد اس گاﺅں سے فارغ ہوکر قلعہ تک پہنچنے کی ٹھانی۔ اس گاﺅں سے قلعے کے پھاٹک تک جانے کے لیے کئی کلومیٹر لمبا ایک راستہ تھا، جہاں سے قلعے کے اندر جانے کا راستہ نکلتا تھا۔ادھر یہ صورتحال تھی کہ قلعہ کی دیوار بالکل گاﺅں کے ساتھ ایک گھنے جنگل میں سے ہوکر گزرتی تھی۔اباجان نے کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پھاٹک تک پہنچنے کی بجائے، جنگل سے گزر کر دیوار تک پہنچنے اور پھر دیوار پھلانگنے کا پروگرام بنایا اور مسجد میں لوگوں سے الوداعی ملاقات کرکے آگے جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔

جنگل میں سے گزرتے ہوئے اباجان کو اس رات بارہا اس چڑیل کا خیال آیا جسے انھو ںنے ایسی ہی ایک رات میں اپنے آبائی گاﺅں کے قریب کے جنگل میں چٹکی ہوئی چاندنی میں چھم چھم کرتے چلتے ہوئے دیکھا تھا۔ گو قریب آنے پر وہ گاﺅں کی ایک پاگل عورت نکلی تھی، لیکن کچھ دیر کے لیے تو اس نے اس پراسرار انداز میں چھم چھم کرتی پایل پہنے چلتے ہوئے اباجان کو پریشان کردیا تھا اور انھوں نے حفظ ِ ماتقدم کے طور پر اپنی تلوار بھی نکال لی تھی۔یہ جنگل نسبتاً خاموش تھا اور اس میں اباجان کی کسی چڑیل، بھوت پریت یا کسی وحشی جانور سے بھی ملاقات نہیں ہوئی اور وہ زندہ سلامت جنگل سے گزر کر قلعے کی دیوار تک پہنچ گئے۔

انھیں اپنی آسانی کے لیے دیوار کے قریب ایک برگد کا درخت بھی نظر آگیا جس پر چڑھ کر وہ بآسانی دیوار پھلانگ سکتے تھے۔ بچپن کا سیکھا ہوا درخت پر چڑھنا ان کے کام آیا اور وہ اس درخت پر چڑھ کر” کودا ترے آنگن میں کوئی یوں دھم سے نہ ہوگا“ کے مصداق دوسری طرف چھت پر پہنچے اور وہاں سے نیچے کود گئے۔

نیچے ایک صاف دالان نظر آیا تو اباجان نے وہیں ایک اینٹ کو سر کے نیچے رکھ کر تکیہ بنایا اور اپنے رومال کو کندھے سے اتار کر اوڑھ لیا اور لیٹ گئے۔ تھکے ہوئے تو تھے ہی ،تھکن کے مارے جو آنکھیں بند کی ہیں توجلد ہی نیند نے ان پر مکمل غلبہ حاصل کرلیا اور وہ اور لمبی تان کر سوگئے۔

صبح اذان کے وقت کچھ شور سنا ، ہڑ بڑا کر اٹھے تو دیکھا کہ دائیں اور بائیںدونوں طرف سے دو ہٹے کٹے ” مشٹنڈے “قسم کے آدمیوں نے انھیں دونوں بازوﺅںسے پکڑ ا ہوا ہے اور کشاں کشاں ایک طرف کو لے چلے ہیں۔ یہ چھت دراصل ایک مندر کی تھی ، اباجان اس مندر میں کود پڑے تھے اور اب پکڑے ہوئے اس مندر کے پجاری کے سامنے پیش ہونے کے لیے لے جائے جارہے تھے۔
اس دالان کے دوسری طرف ایک تخت پر گاﺅ تکیہ سے ٹیک لگائے پجاری صاحب نیم دراز تھے، اباجان جو یوں پکڑ کر ان کے سامنے پیش کیے گئے تو وہ بھی مارے حیرت کے اٹھ بیٹھے اور اپنے سامنے فرش پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھا، پھر اباجان کی طرف دیکھ کر گالی دینے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اباجان نے کڑک کر کہا۔
” گالی نہیں دینا مہاراج“

” ابے تو سالے چور، اچکے ، ڈاکو! تجھے اور کیا کہوں؟“ پجاری کے ساتھ ساتھ اس کے چیلے بھی اباجان کی اس دیدہ دلیری پر حیران رہ گئے۔

”میں چور ڈاکونہیں ہوں مہاراج“

” تو پھر کیا بھیک مانگنے آیا ہے؟“

” نہیں مہاراج، بھیک مانگنے نہیں بلکہ بھیک دینے آیا ہوں۔“

اباجان کے اس حیرت انگیز انکشاف پر نہ صرف پجاری بلکہ اس کے چیلے اور دیگر حاضرین بھی اس قدر حیرت زدہ ہوئے کہ ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔

سب سے پہلے پجاری نے اپنے آپ پر قابو پایا اور کہنے لگے۔

” ابے تو میرے پوترے (پوتے)کے برابر ہے لونڈے۔ تو مجھے بھیک دے گا؟“

”جی مہاراج۔“

” اچھا تو پھر چل ٹھیک ہے۔ دے ،مجھے بھیک دے۔“ پجاری نے گویا ہار مانتے ہوئے کہا۔

اباجان نے نہایت اطمینان کے ساتھ دونوں اشخاص سے اپنے بازو چھڑوائے اور اسی اطمینان کے ساتھ چل کر پجاری کے ساتھ تخت پر بیٹھ گئے۔ اب تو سب لوگ بہت سٹ پٹائے، دوتین تو اٹھے اور اباجان کی طرف بڑھے تاکہ انہیں تخت سے اتار کر نیچے پھینک دیں، لیکن پجاری نے ہاتھ اٹھاکر انھیں اس حرکت سے باز رکھا اور اباجان کی طرف متوجہ ہوگئے۔

ابا جان نے تلاوت کے سے انداز میں ہاتھ با ندھے، آنکھیں نیم وا کیں اور چند ساعتوں کی خاموشی کے بعد سنسکرت میں مہابھارت اور راماین سے کچھ اشلوک پڑھنا شروع کردیے۔ یہ سننا تھا کہ پجاری سمیت تمام حاضرینِ محفل نے ہاتھ جوڑ دیے اور ہمہ تن گوش ہوگئے۔

پوری محفل پر سناٹا چھایا ہوا تھا،غالباً کوئی پندرہ بیس منٹ تک اباجان یہ اشلوک پڑھتے رہے اور حاضرین جھومتے رہے۔ اباجان نے پڑھنا ختم کیا تو کافی دیر تک محفل پر سناٹاچھایا رہا، آخر کچھ دیر بعد پجاری جی نے اباجان کے سامنے ہاتھ جوڑدئیے اور کہنے لگے۔

” دھنہ باد سادھو جی! بہت اچھے۔پر اب مجھے بھیک دے۔“

اب اباجان نے اللہ کا نام لیکر اپنی تقریر شروع کی اور اپنا موقف خوب دل کھول کر بیان کیا۔
اباجان کی تقریر ختم ہوئی تو محفل کا سناٹا برقرار تھا۔ تمام لوگوں پر ایک سکوت طاری تھا۔ بالآخر پجاری نے اس سکوت کو توڑا اور یوں گویا ہوئے۔

” بات تو تیری سولہ آنے ٹھیک ہے۔ جس طرح تو نے بیان کیا ہے، درحقیقت اسلام ہی وہ دین ہے جو اس وقت انسانوں کے مسائل کا حل بتلاتاہے۔ میں تیری باتوں سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، لیکن مسلمان ہونا اس وقت میرے بس میں نہیں ہے۔اس وقت میں اس وسیع علاقے کے ہندوﺅں کا مذہبی نمائیندہ اور سب سے بڑا پجاری ہوں اور اس حیثیت کو نہیں چھوڑ سکتا۔“

اسی اثناءمیں علاقے کا ڈاکیا جو اس محفل میں موجود تھا، اجازت لیکر آگے بڑھا اور علاقے کے مختلف لوگوں کی جانب سے پجاری کو بھیجے گئے منی آرڈرکا کاغذ بصد احترام پجاری صاحب کی خدمت میں پیش کرکے ان کے دستخط حاصل کیے اور جیب سے کئی ہزار کے نوٹ نکال کر پجاری کی خدمت میں پیش کردیئے۔


پجاری نے جو اس وقت تک اباجان کی شخصیت و کردار اور ان کے فن تقریر سے بے حد متاثر ہوچکے تھے ، وہ تمام روپے اٹھا کر اباجان کی گود میں ڈال دیئے اور کہا۔

” اتنا ضرور میں کرسکتا ہوں کہ تجھے خوش کردوں۔ لے یہ رکھ لے۔“

اباجان نے فوراً ہی وہ ہزاروں روپے واپس اٹھا کر پجاری کی جھولی میں ڈالتے ہوئے کہا۔

”مہاراج ! مجھے یہ روپے دے کر شرمندہ نہ کریں اور نہ ہی مجھے اس اعزاز سے محروم کریں جو میں نے ابھی آپ کے سامنے اپنے دین کا پرچار کرکے حاصل کیا ہے۔“

”تو مجھے پاگل لگتا ہے۔“ پجاری ہنس پڑے اور اٹھ کر اباجان کو گلے لگا لیا، اپنے ساتھ ناشتہ کروایا اور پھر اباجان کے اجازت مانگنے پر انھیں ساتھ لےکر پھاٹک تک چھوڑنے کے لیے گئے۔ اس طرح اباجان پجاری صاحب کے ساتھ اس ملاقات سے فارغ ہوکر روانہ ہوئے اور واپس اسی گاﺅں کی طرف بڑھے۔

اِدھر اُس ڈاکیے نے جو مسلمان تھا اور اباجان سے پہلے وہاں سے نکل آیا تھا، فوراً اپنی سائیکل سنبھالی اور تیز تیز پیڈل مارتا ہوا وہاں سے روانہ ہوا۔ گاﺅں میں پہنچتے ہی اس نے سب گاﺅں والوں کو جمع کرکے اباجان کی تعریفوں کے پل باندھ دیے کہ کمال کے مولوی صاحب ہیں،ہزاروں روپے ٹھکرا دیئے اور ہندو پجاری کو اپنی تقریر اور اپنے طرزِ عمل سے اس قدر زیادہ متاثر کردیا کہ اس نے انھیں گلے لگالیا ا ور پھاٹک تک انھیںچھوڑنے کے لیے آیا۔

اباجان گاﺅں پہنچے تو گاﺅں والوں نے ایک جلوس کی شکل میں ان کا استقبال ، اعزاز و اکرام کیا۔ اس دن ان کی نظروں میں اباجان کی قدر و منزلت کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص انھیں اپنا مہمان بنانا چاہتا تھا۔ ان کی ہر روز کی دعوتیں شروع ہوئیں جو ختم ہونے میں نہ آتی تھیں۔ جس دن بھی اباجان واپسی کا قصد کرتے ،لوگ رو رو کر ان سے درخواست کرتے کہ آپ نے ہمارے گھر تو ابھی کھانا کھایا ہی نہیں۔ ہمیں بھی اپنی مہمانی کا
شرف بخشیے۔ اسطرح اباجان کوئی پندرہ بیس دن اس گاﺅں میں رہے اور جب تک سب گاﺅں والوں کے ہاں دعوت نہ کھالی ان کی جان بخشی نہیں ہوئی۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اباجان کے ایک پیر بھائی اپنے دورے کے دوران ایک علاقے میں پہنچے تو وہاں ایک عجیب منظر دیکھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے سیرت کانفرنس کے نام سے اباجان کے لیکچرز کا ایک سلسلہ جاری تھا۔ قبلہ نے فوراً منتظمینِ جلسہ سے رابطہ قائم کیا اور فرمائش کی کہ جلسے میں پہلے ان کی تقریر رکھی جائے ورنہ آزاد جو ابھی بچے ہیں کہیں معاملہ کو بگاڑ نہ دیں۔ جلسہ شروع ہوا تو جوق در جوق لوگ چاروں طرف سے امڈے چلے آتے تھے۔ قبلہ بہت خوش ہوئے اور اپنی تقریر کا اعلان ہونے سے پہلے ہی اسٹیج پر پہنچ گئے۔ ادھر لوگوں نے اباجان کے بجائے کسی اور مقرر کو دیکھا تو کھسکنے لگے، مگرمنتظمین نے فوراً اس صورتحال کا اد راک کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ آج پہلے مہمان مقرر تقریر فرمایئں گے اور اس کے بعد حسب ِ معمول مولانا اسمٰعیل آزاد صاحب کی تقریر ہوگی۔

ان صاحب کی تقریر شروع ہوئی تو لوگ جو پچھلے کئی دنوں سے اباجان کی علمی تقریر سننے کے لیے جمع ہورہے تھے بڑی مشکل سے اس جذباتی قسم کی بے معنی اور بے سر و پا تقریر کو برداشت کیا اور اپنے تاثرات سے مقرر کو یہ احساس دلاتے رہے کہ ان کی تقریر ۔۔۔ ۔جوں ہی انھوں نے اپنی ”تقریر “ ختم کی اور اباجان اسٹیج پر پہنچے، مجمع میں گویا زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی، انھوں نے اپنی اپنی ڈائریاں سنبھال لیں اور نوٹس لینے کے لیے تیار ہوگئے۔

قبلہ پیر بھائی کے لئے یہ ایک انوکھا موقعہ تھا جب لوگ ایک مقرر کی تقریر سننے کے لیے اپنے اپنے قلم اور نوٹ بک وغیرہ سنبھال کر بیٹھے تھے۔ا باجان نے اپنی تقریرشروع کی جس میں سیرت نبوی ﷺکے پہلوﺅں سے منطقی استد لال کیا گیا تھا۔ ایک گھنٹے کی انتہائی دلچسپ اور معلوماتی تقریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا جو تقریباً آدھے گھنٹے تک جاری رہا، جس میں سامعین کے سوالات جس علمیت کاتقاضا کرتے ، اباجان کے جوابات بھی اسی علمیت کے حامل ہوتے ۔

اگلے دن حضرت نے صبح سویرے ناشتے کے بعد اپنی رسید بک سنبھالی اور بازار کی طرف چلے۔ ایک سیٹھ صاحب سے ملاقات ہوئی تو اپنا مدعا بیان کیا کہ مجاہدوں کی تربیت و تیاری اور جہاد کے لیے چندہ درکار ہے۔ ان سیٹھ صاحب نے فرمایا کہ

” آپ ہی کی پارٹی سے ایک مولوی اسمٰعیل آزاد پچھلے کئی دنوں سے یہاں مقیم ہے اور سیرت نبوی ﷺپر جلسے کر رہا ہے اور اس نے اپنی سیرحاصل گفتگو سے سب کو متاثر کیا ہے، اس نے تو آج تک ایسی کوئی بات نہیں کی “ ( یعنی کوئی چندہ وغیرہ نہیں مانگا)

حضرت نے فرمایا ، ” اسمٰعیل ابھی بچہ ہے اور اسے ابھی کام کی نوعیت سے متعلق زیادہ معلومات وغیرہ نہیں ہیں۔“

سیٹھ صاحب بولے۔” حضرت جی! آج میری اس تجوری میں کئی ہزار روپے موجود ہیں۔ آپ آزاد کو ساتھ لے آئیے۔ وہ اگر مجھ سے سارے روپے بھی مانگ لے تو میں بلا تامل اسے دیدوں گا۔“

” سچ؟“

” جی بالکل“

حضرت جی خوش ہوگئے۔ اباجان کو وہاں لانا کیا مشکل تھا۔ میں ابھی جاﺅں گا اور لے آﺅں گا، انھوں نے سوچا اور لپکے تاکہ جلد از جلد اباجان کو لے کر وہاں پہنچیں اور ہزاروں روپے کا چندہ وصول کرلیں۔ مسجد پہنچے تو اباجان لیٹے ہوئے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے، غالباً رات کی تقریر کی تیاری کر رہے تھے۔ وہاں پہنچتے ہی انھوں نے اباجان کو اٹھاتے ہوئے کہا۔

” اسمٰعیل بھائی اٹھو چلو!“

”لیکن کہاں بھائی؟“

”سیٹھ ۔۔کے ہاں۔ وہ کہتا ہے کہ اگر تم کہو تو وہ اپنی تجوری سے کئی ہزار روپے نکال کر ہمیں چندہ دیدے گا۔بس ابھی چلو تاکہ وہ ہمیں پیسے دیدے“

”لیکن میں اس کے پاس مانگنے نہیں جاﺅں گا۔ اگر اس کا خیال اچھے مقصد کے لیے چندہ دینا ہے تو وہ یوں ہی آپ کو دیدیتا۔ میری اس کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے۔“

خیر صاحب ! انھوں نے لاکھ اباجان کی منتیں کیں لیکن اباجان نے نہ جانا تھا اور وہ نہیں گئے اور یوں حضرت کا ہزاروں روپے کا چندہ اباجان کی ”ہٹ دھرمی “کی نظر ہوگیا۔جب وہ دوبارہ اکیلے سیٹھ صاحب کے ہاں پہنچے تو سیٹھ صاحب نے انھیں چودہ آنے چندہ دیکر اپنی جان چھڑائی۔

شہر آکولا میں جلسے کی روداد قاضی فیاض علی صاحب اور اباجان کے لیکچر کا واقعہ اکبر چچا کی زبانی سنیے۔

”۰۴۹۱ءکے دور میںشہر آکولامیں بغرض تبلیغی دورے کے موقع پر سی پی کے کانگریسی لیڈرنے ان مبلغین کو دعوت دی کہ وہ دودنوں میں اپنا موقف بیان کریں اور سامعین کے سوالات کے جواب دیں جسے انھوں نے بصد شکریہ منظور کرلیا اور طے پایا کہ پہلے دن قاضی فیاض علی ایڈووکیٹ اپنے جوشِ خطابت کے جوہر دکھائیں گے اور دوسرے دن مولانا محمد اسمٰعیل آزاد خطاب کریں گے۔ قاضی صاحب لوگوں کو متوجہ نہ کرسکے بلکہ انھوں نے جو مشکل اور گھمبیر اندازِ تقریر اختیار کیا وہ لوگوں کے سروں کے اوپر سے گزر گیا۔ انھوں نے اتحادِ بین المذاہب اور اسلام کو قبول کرنے کی دعوت ایک ساتھ دے ڈالی اس کے متعلق جو سوالات ہوئے وہ ان کا بھی سامنا نہ کرسکے۔ بالخصوص اتحاد کے ساتھ ساتھ اسلام قبول کرنے کی کیا تک ہے۔

شہر کے مسلمانوں کو اس پر بڑی خفت اٹھانی پڑی۔ دوسرے دن آزاد صاحب کا لیکچر تھا لیکن وہ سارا دن معمول کی تفریحی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ دوپہر کو جب وہ فٹبال کا میچ دیکھنے میں مصروف تھے، شہر کے چند بزرگ گھبراکران کے پاس پہنچے اور لیکچےرکی تیاری کرنے کی درخواست کی۔انھوں نے اطمینان دلایا کہ سب ٹھیک ہوجائے گا، فکر نہ کریں اور فی الوقت بیٹھ کر مغل محمڈن کو فتح حاصل کرتا ہوا دیکھیں۔

مقررہ وقت پر مولانا محمد اسمٰعیل آزاد صاحب کا لیکچر شروع ہوا۔ انھوں نے مذھب کی تاریخ بیان کی اور بتلایا کہ مذھبی رہنماﺅں نے معاشی اور اخلاقی اصول مرتب کیے، اور اخلاقی ضابطے جاری کیے۔ ہندوستانی مذھب کے رہنماﺅں نے پتر جنم اور چار طبقاتی نظام پر مشتمل مذھب ایجاد کیا ۔ اس کی اچھائی اور برائی سے قطع نظر، اس مذھبی بندھن نے ہندوستانی عوام کو منظم ہونے اور رہنے کا موقع دیا۔ہندوستانی تہذیب و تمدن، صنعت و حرفت ،زراعت اور رسم و رواج نے دنیاءسے خراج تحسین وصول کیا۔دنیا والے ہندوستان کو سونے کی چڑیا کا نام دیتے تھے۔

یہودیت اور عیسائیت نے عرب ممالک میں جنم لیا، ان الہامی مذاھب نے انسان کو روحانی اور مادی خوشحالی عطا کی۔ عیسائیت کو رومی شہنشاہوں نے قبول کیا اور عالم گیر مذھب بنادیا۔

یہ تمام مذاہب مخصوص علاقوں ، قبیلوں اور برادریوں کے لیے مبعوث ہوئے۔لیکن حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی کے طور پر سارے عالم اور رہتی دنیا تک کے لیے مبعوث ہوئے۔ آپ ﷺ کو اللہ کا آخری کلام قرآن شریف دیا گیا۔ یہ کتاب بنی نوع انسان کے لیے سرچشمہ ہدایت قرار دی گئی۔ ختم الرسل ﷺ اور آپ پر نازل کی ہوئی کتاب کا ماننا ہر مرد و عورت پر فرض قرار دیا گیا۔ حضرت محمد ﷺ نے تعلیم دی کہ تمام انسان آپس میں بھائی بھائی اور برابر ہیں۔ گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل ہے۔ فضیلت اسی کو حاصل ہے جو تقویٰ میںسب سے برتر ہو۔ اسلام نے دیگر مذاہب کو موجود رہنے کی ضمانت دی۔ اور مذاہب کو ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا حکم دیا۔ ایک ہزار سالہ اسلامی دور میں عربی زبان میں ہر مذہب اور تہذیب کے مفکروں کی تصانیف ترجمہ کی گیئں اور اسلامی دنیا سے تمام عالم میں ان کے ترجمے بھجوائے گئے۔ ذمیوں کو بھی شہری حقوق برابری کی بنیاد پر دیے گئے۔

ادھر نئی تہذیب نے دیگر مہذب ملکوں کو فتح کرکے نوآبادی بنالیا، اور انھیں تہذیب سکھانا اپنا احسان بھی قرار دیا۔ نوآبادیوں کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا۔ انکی تہذیب ، تمدن اور ثقافت کو ناکارہ قرار دیا۔ ادھر جمہوریت کے نام پر صرف اپنے عوام کو حقوق دیئے ۔ رد عمل میں کمیونزم اور سوشلزم کے نظام پیدا ہوئے۔ کمیونسٹ ریاست سویٹ یونین بھی اپنا دعویٰ پورا کرنے میں ناکام ہورہی ہے۔ ادھر اسلام نے سود اور دوسرے کی محنت پر قبضہ کرنے کی ممانعت کی ۔ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیاعدل و انصاف کو ریاست کا پہلا فرض قرار دیا۔

یہ لیکچر دو گھنٹے جاری رہا اور اس میں بڑی محنت اور تفصیل سے اپنا موقف بیان کیا گیا۔ تقرِ یر ختم ہوئی تو صدرمحفل نے سوال کا تقاضا کرتے ہوئے ” کوئی سوال، کوئی سوال؟“ کے الفاظ بار بار دھرائے لیکن کسی طرف سے کوئی سوال نہیں آیا، جس کے بعد صدرِ محفل نے بھائی صاحب کو مبارکباد دی کہ انھوں نے اپنا موقف بڑی محنت سے بیان کیا اور سامعین نے اس کی افادیت تسلیم کی۔

آکولا شہر کے مسلمان اس لیکچر کی کامیابی او ربھائی صاحب کی اس عزت افزائی اور پزیرائی سے بہت خوش ہوئے۔“

فسانہ آزاد:: باب سوم:: جوانی دیوانی

باب سوم۔فسانہ آزاد

جوانی دیوانی
محمد خلیل الر حمٰن


اباجان نے آٹھویں جماعت پاس کی اور اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے حیدرآباد جانے کا قصد کیا ہی تھا کہ حیدرآباد سے ایک تبلیغی جماعت کے کچھ اصحاب باسم پہنچے اور وہاں پر جلسہ کیا اور اس میں تقریریں کیں ۔اس وفد کے سربراہ مولانا قاسم علی عرف تایا تھے جنھوں نے اباجان سے بات کی تو ان کے خیالات اور علمیت سے خاصے متاثر ہوئے اور ان کے اباسے درخواست کی کہ اللہ کے نام پر وہ اس بچے کو تبلیغ ِ اسلام کے لیے وقف کردیں اور انھیں اس بچے کو اپنے ساتھ حیدرآباد لے جانے کی اجازت دیں۔دادا نے بخوشی اجازت دیدی ۔گاﺅں میں ایک دکان دار ابراہیم بھائی جو اباجان سے کچھ سال بڑے تھے اور ان کے بہت اچھے دوست تھے ،وہ بھی اباجان کے ساتھ حیدرآباد جاکر دین کی خدمت کرنے کے لیے تیار ہوگئے، اس طرح اباجان سولہ سال کی عمر میں اپنے ماں باپ سے رخصت ہوکر، ابراہیم بھائی کے ساتھ دین کی خدمت اور االلہ کا کام کرنے کی نیت سے حیدرآباد پہنچ گئے اور پیر صاحب کی خدمت میں حاضری دی۔یہ وہ موقع تھا جس نے اباجان کے طرز زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا اور وہ باسم کے ایک کھلنڈرے لڑکے سے ایک نوجوان مبلغ میں تبدیل ہوگئے جس کاکام علم حاصل کرنا، دین کی اشاعت اور اللہ کے نام کو پھیلانے کی غرض سے ہندوستان کے طول و عرض میں دورے کرنا اور تقریروں اور مناظروں کے ذریعے اسلام پھیلانا تھا۔ 

حیدرآباد پہنچ کر اباجان نے وہاں کی بڑی بڑی لائبریریوں میں جانا اور وہاں سے اچھی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا، حیدرآباد کے ایک علاقے نام پلی میں یوسف شریف صاحب کی درگاہ سے ملحق ایک بڑی اور بہت اچھی لائبریری تھی۔اور وہاںپر ہر قسم کی علمی اور ادبی کتابیں دستیاب تھیں۔ اسی طرح جامعہ عثمانیہ کی آصفیہ لائبریری ۔اباجان نے اپنا زیادہ وقت ان لائبریریوں میں گزارنا شروع کردیا اور مطالعے کو اپنی عادت ثانیہ بنا لیا۔

اس مطالعے کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ اباجان نے اپنے پیر صاحب کے معمولی قسم کے خیالات کو اپنے ذہن میں بالکل جگہ نہ دی اور نہ ہی ان خیالات کو اپنی تقریروں کا حصہ بنایا۔جہاں پیر صاحب اور ان کے دیگر مرید جنھیں پڑھنے لکھنے سے قطعاً کوئی لگاﺅ نہیں تھا، ایک خود ساختہ فلسفے پر یقین رکھتے تھے جس کی بنیاد چند اوٹ پٹانگ قسم کی پیشن گویوں پر تھی جن کے مصداق، عنقریب ہندوستان تمام مسلمان ہونے والا تھا اور ترپتی اور ہمپی کا والی بھنڈار کے مندروں کے نیچے گڑے ہوئے سونے چاندی اور ہیرے جوہرات کے خزانے مسلمان مجاہدوں کے ہاتھ آنے والے تھے۔ شاید ان خزانوں کا چکر ہی اس لیے چلایا گیا تھا کہ مریدان ان کے گرد اکٹھے رہیں اور اس وقت کے انتظار میں چندہ کرکے اپنا وقت گزارتے رہیں جب انھیں ان خزانوں سے حاصل شدہ مالِ غنیمت میں سے ایک بڑا حصہ حاصل ہوجانا تھا۔

قارئین کی دلچسپی کے لیے ذیل میں ان پیشن گوئیوں کا خلا صہ پیش کیا جاتا ہے جو بقول پیر صاحب کے، آٹھ سو سال قبل بزرگانِ اہلِ ہنود نے کی تھیں اور ان میں پیش کردہ چن بسویشور دراصل خودیہی پیر صاحب ہیں۔لہٰذہ پیر صاحب اپنے تیئں چن بسویشور کہلاتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اس جنم میں مسلمان پیر بن کر وارد ہوئے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ پیر صاحب کے ماننے والے آوا گون میں یقین رکھتے تھے، اور اس معاملے میں عام مسلمانوں کے ذہن میں پیدہ ہونے والے شبہات کو دور کر نا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب گجرات کے ایک تاجر نجمی نے اباجان کے ساتھی سے اس بارے میں رہنمائی چاہی تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے اور آخر کار اباجان ہی نے جو آوا گون کی اس خرافات کو عین خلاف ِ اسلام سمجھتے تھے ، ان سے بات کی اور انھیں قائل کیا کہ اسلام ہی دینِ فطرت ہے جس میں آواگون جیسی خرافات کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔ یہ قصہ تفصیل کے ساتھ باب ہشتم ” سوئے منزل چلے“ میں آئے گا۔اب پڑھئے بشارات:۔

۱۔ آگے چن بسویشور جگت پاک کریں گے، چھ مذاہب اور ایک سو ایک ذات کے اختلافات مٹا کر ایک ہی مذہب وکرم ویر شیو قائم کریں گے۔

۲۔ کلیوگ سے پاپ دھویا جائیگا۔ چن بسویشور بارہ لاکھ فوج سے لیس ہوکر آئے گا۔ شری چندی گری( ترپتی کا مندر) خان خانوں کے ساتھ مل کر چلے گا۔ شری گری ( ترپتی کے مندر) میں خزانہ نکالے گا۔ والی کا خزانہ نکالنے کا وقت آئے گا۔ وقت آنے پر فوراً خزانہ نکال لیں گے۔ 

۳۔ اس وقت شہر بنگلور چار میناروں تک پھیل جائے گا۔ اور برباد ہوجائے گا۔ ترک ترپتی کے دیو استھان میں گھسیں گے۔ مسلمانوں کو 

دولت مل کر تین گھڑی میں بڑے بڑے گنبد اور مقبرے بنائیں گے۔

۴۔ شری گرو چن بسویشور ایک پدم سے تین پدم تک دولت والی بھنڈار سے نکالیں گے۔ وہ بھنڈار یعنی خزانہ نکال کر گدک میں سیوراج پٹن 
بنائیں گے۔ 

۵۔ اسی ہزار گھوڑے سوار، مست پٹھان بڑی ندی پار ہوکر کرناٹک میں داخل ہوں گے۔ہری ہر دیول کی مورتیاں توڑ دیں گے۔ مسلمانوں کی فوج بلند آواز سے نعرے مارتی ہوئی لڑے گی، ان کے مقابلے کی تاب کسی کو نہ ہوگی۔ اور ان گنت بے شمار مسلمانوں کی فوج ترپتی میں داخل ہوگی۔ شری وینکٹش کی دیول میں گھس کر نذر مانا ہوا خزانہ پھوڑیں گے۔وغیرہ وغیرہ۔

ان پرانی بشارات کو بنیاد بناتے ہوئے پیر صاحب کو غیب سے یہ الہام ہوچکا تھا کہ ہندوستان تمام مسلمان ہونے والا ہے اور وہی دراصل چن بسویشور ہیں جو اس نئے جنم میں مسلمان بن کر پیدا ہوئے ہیں،جن کے ہاتھ پر تمام ہندوستان مسلمان ہوگا۔ ادھر ان کے ساتھ رہنے والے مبلغین اور مجاہدین پر ہمپی کا والی بھنڈار اور ترپتی مندر اپنے خزانوں کے منہ کھول دیں گے۔پیسہ ہی پیسہ۔دولت ہی دولت۔

ادھر دوسری طرف اباجان ان خرافات پر ذرہ برابر بھی کان نہ دھرتے تھے۔ اباجان کا اندازِ تقریر بڑا سادہ مگر پر اثر تھا۔ وہ اگرچہ اپنے پیر بھائیوں کی طرح پیر صاحب کے اوٹ نٹانگ فلسفے کو بیان نہ کرتے ۔ ان کی تقریروں کا مآخذ مولانا شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی کی لکھی ہوئی سیرت النبی کے علاوہ مولانا مناظراحسن گیلانی اور ڈاکڑحمید اللہ کے وہ لیکچر ہوتے تھے جنہیں اباجان بڑے شوق سے سنتے تھے اور ان سے حاصل کردہ معلومات ان کے ذہن کے کمپﺅٹرمیں محفوظ ہوجاتی تھیں۔ وہ سادہ، علمی قسم کی گفتگو کرتے اور ہر مرتبہ ایک نئے انداز سے ایک نئے موضوع کو لے کر چلتے۔ نوجوان سامع حضرات ان کے اس انداز کو بہت پسند کیا کرتے تھے۔ ان کے جلسوں میں طالبانِ علم باقاعدہ کاپی پینسل لے کر بیٹھا کرتے تھے اور ان کے بیانیہ کے دوران نوٹس لیا کرتے۔

دوسال حیدرآباد میں گزارنے کے بعد پہلی مرتبہ گھر لوٹے ، اس دوران دونوں چھوٹے بھائی اکبر اور سرور ان کو تقریباً بھول چکے تھے، وہ اس چھوٹی سی داڑھی والے اس نوجوان مبلغ کو یوں بے دھڑک گھر میں گھستے ہوئے دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے اور دور جاکر چھپ گئے۔ ماں باپ نے گلے سے لگا لیا ، گاﺅں میں خوب واہ وا ہو گئی۔بارے داڑھی کا کچھ بیاں ہوجائے۔ نوجوانی میں اباجان اس تبلیغی جماعت میں مشولیت کرکے باقاعدہ اسلامی مبلغ اور عالم بن گئے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کی ابھی داڑھی نہیں نکل پائی تھی۔ ساتھیوں کے مشورے سے دونوں گالوں اور ٹھوڑی پر ایک خاص پودے کے پتوں کو لے کر ملا اوراس قسم کی کوششیں رنگ لائیں اور اباجان ایک عدد چھوٹی سی خشخشی داڑھی کے مالک بن گئے۔

انھی دنوں گاﺅں میں سیرت کانفرنس کا انعقاد ہوا تو ان نوجوان مولانا کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ اباجان کے ساتھ ان کے دادا، تایا، ابا اور تین چچا بھی اس جلسے کی کارروائی سننے کے لیے جلسہ گاہ پہنچے۔ اباجان کو جلسہ کے آغاز سے پہلے اسٹیج پر بیٹھنے کی دعوت دی گئی جسے انھوں نے شکریے کے ساتھ نامنظور کیا۔ ان کے بقول ان کے خاندان کی اتنی بڑی بڑی ہستیاں اس وقت جلسہ گاہ میں نیچے دری پر بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کی موجودگی میں وہ اسٹیج پر چڑھ کر بیٹھنے کو ان بزرگوں سے بے ادبی تصور کرتے ہوئے نیچے ہی بیٹھنا چاہتے تھے۔ جب ان کی باری آئے گی وہ اس وقت اسٹیج پر پہنچ جائیں گے تاکہ تقریر کرسکیں۔

اباجان کی باری آئی اور انکا نام پکارا گیا تو وہ انتہائی ساگی کے ساتھ اٹھے اور اسٹیج پر جاکر اپنی تقریر شروع کی۔ گاﺅں والوں اور خاندان والوں کے نزدیک وہ وہی چھوٹے تھے لیکن جب اباجان نے اپنی تقریر شروع کی تو پورے پنڈال میں سناٹا چھاگیا۔ اباجان نے اپنی سادہ مگر پر اثر تقریر سے نہ صرف اپنے خاندان والوں بلکہ پورے گاﺅں والوں کے دل جیت لیے۔سب لوگ باری باری اسٹیج پر آئے اور ان سے مصافحہ کیا۔ بڑوں نے انھیں گلے سے لگا لیا۔ خاص طور پر ان کے اسکول کے اساتذہ خان سر اور صدیقی سر نے ان کی تقریر کے انداز اور گفتگو کے فن کو خوب سراہا۔ یہ خان سروہی استاد تھے جنھوں نے انھیں اس تبلیغی جماعت میں شامل ہونے سے منع کیا تھا کہ یہ لوگ فراڈ لگتے ہیں تو ان میں جاکر شامل نہ ہواور اباجان کے یہ کہنے پر کہ یہ ان کے ابا کا حکم ہے کہ وہ اس جماعت میں شامل ہوکر اسلام کی خدمت کریں لہٰذا وہ اپنے باپ کا حکم نہیں ٹال سکتے، انھیں مارا بھی تھا۔ انھوں نے اباجان کی تقریر سنی تو باقاعدہ رودیئے۔انھوں نے اباجان کو ڈھیر ساری دعائیں بھی دیں ۔ گو وہ انھیں علیگڑھ بھیجنا چاہتے تھے مگر اباجان کی علم دوستی اور علمیت کودیکھ کر وہ خاصے متاثر ہوئے اور دعاگو ہوئے کہ اللہ تیری حفاظت فرمائے۔

ادھر گاﺅں والے اس جلسے کی کامیابی کا جشن منارہے تھے، ادھر اباجان کے دوستوں نے انھیں گھیر لیا اور اطلاع دی کہ گلاب نانا صاحب گاﺅں سے دور ایک ویرانے میں قبرستان والی مسجد میں چلہ کاٹ رہے ہیں تاکہ جنوں کو قابو کر سکیں۔ اباجان فوراً ان دوستوں کے ساتھ روانہ ہوگئے اور جنوں کی اس جماعت نے اس قبرستان پہنچ کر حالات کا جائزہ لیا۔ چاروں طرف سناٹا تھا اور ہو کا عالم ۔نہ آدم نہ آدم زاد۔ کسی طرف کوئی ذی ہوش نظر نہ آتا تھا۔ساون کا مہینہ اور برسات کے دن تھے۔ زمین پر ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ پھیلا ہوا تھا۔بادل چھائے ہوئے تھے۔ ذرا دیر میں اندھیرا چھا گیا۔ ان دوستوں نے سفید کورے لٹھے کے لمبے لمبے جبے اور لمبی لمبی ٹوپیاںپہلے ہی سے سی کر تیار رکھے ہوئے تھے۔سب دوست فورا ہی اپنے لباس تبدیل کرکے ایکشن کے لیے تیار ہوگئے۔ عشاءکا وقت ہوا تو گلاب نانا نے اپنا وظیفہ چھوڑا ، خود ہی کھڑے ہوکر اس ویرانے میں اذان دی ، اقامت کہی اورجنوں کے امام بن کر نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ 

دوستوں نے ایک عدد مہتابی کا پہلے ہی سے بندوبست کررکھا تھا۔ پانچ لڑکے تو فوراً ہی امام صاحب کے پیچھے صف بنا کر کھڑے ہوگئے۔ 

چھٹے نے کچھ دیر بعد مہتابی روشن کی اور اسے ایک طرف رکھ کر خود بھی نیت باندھ کر نماز میں شامل ہوگیا۔روشنی ہوتے ہی گلاب نانا نے پہلے تو کنکھیوں سے پیچھے کی جانب دیکھا اورپھر چونک کر مڑے ۔ اصلی جنوں کو دیکھتے ہی ان کی سٹی گم ہوگئی۔ نماز بھول کر یا علی کا ایک نعرہ مستانہ لگایا اور بے ہوش ہوکر زمین پر لڑھک گئے۔

مقتدی جنوں نے فوراًسے پیشتر سفید کورے لٹھے کے چوغے اتار پھینکے اور بھاگے تو گاﺅں واپس پہنچ کر ہی دم لیا۔ ادھر دو ساتھی پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت گاﺅں کے بڑے بوڑھوں کے پاس پہنچے اور گلاب نانا کے قبرستان کی مسجد میں بے ہوش پڑے ہونے کی اطلاع دی۔ ان کی خبر کے مطابق وہ داداکی قبر پر فاتحہ پڑھنے قبرستان گئے تھے کہ وہاں پر مسجد میں گلاب نانا کو دیکھا۔ گاﺅں والے بھاگتے ہوئے گئے اور گلاب نانا کو چارپائی پر ڈال کر واپس لیتے آئے۔چہرے پرپانی چھڑکا گیا تو ہوش میں آگئے پر اس دن کے بعد پھر گلاب نانا نے جنوں کو قابو کرنے کا نام تک نہ لیا۔ اباجان گاﺅں سے واپس حیدرآباد آگئے۔یہ دورہ اباجان کا اپنے آبائی گاﺅں باسم کا آخری دورہ ثابت ہوا 

اباجان کی اپنے گھر میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اباجان کے حیدرآباد منتقل ہونے کے کچھ ہی عرصے بعدجب ہندو مسلم کشیدگی بڑھی تو سارا گھرانا باسم ( سی پی برار ) سے حیدرآباد منتقل ہوگیا اور پیر صاحب کے کمپاﺅنڈ سے کچھ ہی فاصلے پر ایک گھر کرائے پر لے کر وہاں پر رہائش اختیار کر لی۔ ۔یہ وہ زمانہ تھا جب ۵۳۹۱ءکے پہلے جداگانہ انتخابات کے نتیجے میں کانگریس کو ایک بڑی کامیابی نصیب ہوئی تھی اور آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کی نشستوں پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پائی تھی۔ نتیجہ کے طور پر کانگریس کھل کھیلی اور اس کا مسلم دشمن رویہ سب کے سامنے آگیا۔ اس سے پہلے تمام علاقوں میں ہندو اور مسلمان مل جل کر رہتے تھے۔اباجان کا گاﺅں باسم جو ہندو اکثریت کا علاقہ تھا، وہاں پر بھی ہندو مسلمان مل جل کر رہتے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ وہ کباڑی کاکا ہوں یا ہندو نانی یا مسلمان بزر گ ہو ں وہ سب چھوٹوں کو چاہے وہ مسلمان ہوں یا ہندو اپنے بچے سمجھتے تھے۔کوئی بھی بزرگ کسی بھی بچے کو کسی بھی وقت کوئی بھی کام کہہ سکتا تھا، اور اس بچے کی مجال نہیں تھی کہ وہ اس بزرگ کو اس کام کے لیے انکار کردے۔ یہ تھا ۵۳۹۱ءسے پہلے کا ہندوستانی معاشرہ۔ جب اس سال جداگانہ انتخابات کا ایکٹ منظور ہوا اور کانگریس اقتدار میں آئی تو تمام علاقوں میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔فضاءمکدر ہوگئی۔ ہندو اپنے ڈھول تاشے والے جلوس نکالتے اور ان کا اصرار ہوتا کہ عین مسجد کے سامنے کھڑے ہوکر ڈھول پیٹیں گے۔ مسلمان اپنی مسجدوں کی یہ توہین برداشت نہ کرسکتے لیکن کچھ نہ کہہ سکتے۔ ان کی طرف سے جوبی اقدام کے طور پر مسجد کے صحن میں ایک گائے کو لاکر کھڑا کردیا جاتا اور اسے ذبح کرنے تیاریاں ہونے لگتیں۔ یہ دیکھ کر ہندوﺅں میں اشتعال پھیل جاتا اور یوں فسادات پھوٹ پڑتے۔


ادھر اباجان کی تبلیغ اور ہندوﺅں کے ساتھ ان کے مقا بلوں کی خبریں پھیل چکی تھیں اور ہندو خاص طور پر مرہٹے ان کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے ۔ اس لیے گھر والوں نے اباجان کو منع کردیا کہ وہ گاﺅں نہ آئیں۔جب صورتحال اور بگڑی تو اباجان کا تمام گھرانا باسم سے حیدرآباد دکن ہجرت کرگیا۔اباجان حیدرآباد میں ہوتے تو تینوں چھوٹے بھائی ، یعنی ہاشم چچا، سرور چچا اور اکبر چچا جو اباجان سے بہت زیادہ گہرا لگاﺅرکھتے تھے ، یہ تینوں ان کے ہی گرد منڈلایا کرتے۔ خاص طور پر نماز میں اباجان کے ہمراہ ہوتے۔

اسی دور میں اباجان نے اپنے کئی ساتھی بنالیے جو ان کے ارد گرد ہی رہتے اور ان کی شوخیءطبع اور مزاج کی رنگینی کے شایق و گرویدہ تھے۔ ان کے یہ جاں نثار ساتھی ان کے ایک اشارے پر کٹ مرنے تک کے لیے تیار رہتے تھے، ان میں سر فہرست سیف اللہ تھے۔ پیر صاحب کی پہلی بیوی کے چھوٹے بھائی ننھے ماموںبھی اباجان کے اس گروہ میں شامل تھے۔یہ تمام ساتھی فارغ وقت میں اباجان کے ساتھ مل کر تلوار کے داو پیچ اور کرتب سیکھا کرتے تھے۔اباجان کا شعری ذوق بہت اچھا تھا اور کبھی کبھی خود بھی شعر کہا کرتے تھے ، لہٰذاکبھی کبھار شعر و شاعری کی محفلیں بھی سجا کرتیں۔ اباجان ہی کی طرح یہ لوگ بھی چائے اور پان وغیرہ کے شوقین تھے۔ چائے پینے اور پان کھانے کے لیے اپنے کمپاﺅنڈ سے دور ایک ہوٹل تک جایا کرتے اور وہاں پر اپنے مشاغل سے فارغ ہوکر عشاءکی نماز کے لیے یا محفل کے لیے مسجد پہنچتے تو پہلے خوب اچھی طرح کلی وغیرہ کرلیتے تاکہ پان کا رنگ ان کے ہونٹوں یا زبان سے ظاہر نہ ہو۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے ، یہ لوگ چائے پینے کے لیے ہوٹل پہنچے تو ہوٹل والے نے جو غمگین بیٹھا ہوا تھا ان لوگوں سے چاﺅشوں کی شکایت کی۔ چاﺅش دراصل نسلاً عرب تھے جو شاید صدیوں پہلے ہندوستان آئے تھے اور یہیں کے ہورہے تھے۔ انھوں نے علاقے میں اپنی دہشتپھیلا رکھی تھی۔ تاڑی ( ایک قسم کا نشہ) پینے میں ماہر تھے۔ نشے میں،لوگوں کو وقتاً فوقتاً لوٹ لیا کرتے، یا ان سے بدتمیزی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ہوٹل والے نے بتایا کہ وہ لوگ اس کے پاس کھانا کھانے آئے تھے اور اس کے پیسے مانگنے پر اسے مارا پیٹا تھا اور پیسے دیے بغیر ہی چلے گئے تھے۔ اباجان اور ان کے ساتھیوں کو تویہ موقع خدا نے دیا تھا۔ ایک مظلوم کی داد رسی ان کا فرضِ اولین تھا۔ ان سب نے اپنی تلواریں سونت لیں اور دندناتے ہوئے چاﺅشوں کے ڈیرے پر پہنچ گئے اور انھیںباہر بلا کر پہلے تو خوب مارا پیٹا اور آخر کار ان سے ہوٹل والے کے پیسے لے کر لوٹے۔

اگلے دن چاﺅشوں کا گروپ پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اباجان اور ان کے گروہ کی شکایت کی۔ بات نکلی تو بات کھل گئی۔ چاﺅش اپنے کرتوتوں پر شرمندہ ہوئے اور خود ہی معافی مانگ کر وہاں سے رخصت ہوئے۔یہ وہ دن تھا کہ اطراف میں اباجان کے ساتھیوں کی دہشت اس علاقے میں پھیل گئی اور وہاں کے غنڈے بھی ان اللہ والوں سے ڈرنے لگے۔

جہاں دوسرے مرید اپنے تبلیغی دوروں میں چندہ مانگنا اپنا دینی اور دنیاوی فریضہ سمجھتے تھے وہیں اباجان کا وطیرہ یہ تھا کہ جو مل گیا صبر و شکر کے ساتھ کھا لیا، کبھی کچھ نہ ملا تو بھوکے سو گئے۔ انھوں نے زندگی بھر کسی بھی انسان کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا۔دراصل پیر صاحب نے دیگر مریدوں کے ساتھ یہ سلسلہ رکھا تھا کہ مرید کے لائے ہوئے چندے کے تین حصے کیے جاتے، ایک حصہ اس مرید کو لوٹا دیا جاتا، دوسرا حصہ پیر صاحب کی جیب مبارک میں جاتا اور تیسرا حصہ بیت المال میں جمع کردیا جاتا۔ اباجان جیسے سرپھرے مبلغ ، زیادہ نہیں پر دوچار توتھے ہی، وہ جب چندہ نہ لاتے تو انھیں اسی بیت المال سے ایک معمولی سی رقم جیب خرچ کے لیے دیدی جاتی جس سے وہ اپنا گھر بمشکل چلا پاتے تھے۔

ہمارے نانا جناب عبدالشکور صاحب بنگلور کے ایک متمول آدمی تھے اور ان کے خاندان کے دیگر لوگوں کی طرح ان کے اپنے بھی کافی اور الائچی کے کئی باغات تھے جہاں سے ماہانہ لاکھوں روپے کی آمدنی ہوتی۔شادی بھی ایک متمول گھرانے میں ہوئی۔ آدمی سیدھے سادے تھے۔ جب ان تک اللہ کا پیغام پہنچانے کی دعوت پہنچی تو فوراً راضی ہوگئے اور اپنا گھر اورباغ اونے پونے بیچ کر تمام روپیہ لیا بیوی بچوں کو ہمراہ لیا اور پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ سارا روپیہ پیسہ پیر صاحب کے قدموں میں ڈال دیا اور اللہ کے دین کی خدمت میں مگن ہوگئے۔ اللہ نے بیٹیاں ہی بیٹیاں دی تھیں، جن کا بچپن امیری میں گزرا تھا۔ بیوی اور بچے بھی صبر و شکر کے ساتھ وہیں پیر صاحب کے احاطے میں ملے ہوئے ایک معمولی گھر میں رہنے لگے۔ نانا بھی دیگر مریدوں کی طرح دوروں پر جاتے، اللہ کے دین کو پھیلاتے، چندہ کرتے اور لاکر پیر صاحب کی خدمت میں پیش کردیا کرتے ، جیسا کہ وہاں کا دستور تھا۔ پیر صاحب حسبِ معمول ایک تہائی حصہ انھیں لوٹادیتے اور یوں ان کی زندگی کی گاڑی آگے بڑھنے لگی۔ 

چند سال پہلے چھوٹا بھائی ریاض اپنی سسرال بنگلور ہندوستان پہنچا تو رشتہ داروں نے نانا کی چھوڑی ہوئی حویلی دکھائی جو اب بھی اپنی عظمتِ رفتہ کی کہانیاں سنارہی تھی ۔وہیں پیر حاحب کے مریدوں میں سے ایک صاحب کے ساتھ نانا نے اپنی بڑی بیٹی کا نکاح کردیا۔ اماں دوسرے نمبر کی بیٹی تھیں لہٰذا ان کے بعد نانا اماں کے لیے ایک مناسب بر کی تلاش میں تھے۔

اباجان جہاں بھی گئے تقریروں میں انھوں نے بقول اکبر چچا اپنی ہی بات کی ، کسی دوسرے کے خیالات مستعار نہیں لیے۔ اپنے پیر صاحب یا پیر بھائیوں کے فلسفے کو نہیں بیان کیا۔ سیرت پر اتنا اچھا بولتے تھے ،اتنا ڈوب کر اور اس قدر پیار اور محبت سے بولتے تھے کہ لوگ ان کی تقریروں سے بڑے متاثر ہوتے۔ مدراس میں اباجان کی ان تقریروں کی وجہ سے خاکسار ان کے دوست بن گئے اور اپنے ہر جلسے میں اباجان کو مدعو کرنے لگے۔وہاں پر جب سیرت کانفرنس ہوئی تو لوگوں اباجان کو سننا شروع کیا اور بہت مقبول ہوئے۔ یہاں تک کہ ایک ایسا موقعہ آیا کہ لوگوں نے حیدرآبادکے مقامی علماءکو سننے سے انکار کردیا۔اس بات سے مقامی مولوی حضرات بڑے ناراض ہوئے۔

اسی طرح کے جلسوں میں ہندو بھی موجود ہوتے اور اباجان کی تقریریں بڑے شوق سے سنتے، حالانکہ مدراس بڑا پر تعصب شہر سمجھا جاتا تھا جہاں پر لوگ صرف انگریزی یا تامل بولنا چاہتے تھے،اردو بولنے یا سننے کے لیے تیار نہ ہوتے، لیکن اباجان کی اردو زبان میں کی ہوئی تقریریں یہی لوگ بہت شوق و انہماک سے سنتے تھے۔اسی طرح اندور میں اباجان کے جلسوں کو بڑی پذیرائی ملی۔ مہاراجہ اندور ان کی تقریریں سن کر بہت متاثر ہوا۔ وہ انھیں ہر سال جلسے میں مدعو کیا کرتا تھا۔

انھی جلسوں میں نانا اور خالو ابا نے اباجان کو دیکھا اور ان کی تقریریں سنیں تو ان سے بہت متاثر ہوئے اور دونوں نے آپس کے مشورے کے بعد طے کیا کہ اباجان اور اماں کی شادی کی بات چلائی جائے۔ حیدرآباد پہنچے تو یہی بات پیر صاحب کے گوش گزار کی جنہوں نے اس تجویز کو پسند کیا اور خود اباجان سے بات کی اور انھیں شادی پر آمادہ کرلیا۔

وقتِ مقررہ پر اباجان کو نکاح کے لیے بٹھایا گیا، مسجد میں سب مریدان موجود تھے۔ اباجان سے ایجاب و قبول کا مرحلہ شروع ہوا۔ پیر صاحب نے ایک مرتبہ اباجان سے پوچھا کہ وہ مولوی عبدالشکور صاحب کی صاحبزادی کو ان کے نکاح میں دے رہے ہیں، کیا انھوں نے قبول کیا؟ اباجان خاموش رہے۔ پیر صاحب نے پھر اپنا سوال دہرایا تو اباجان پھر بھی خاموش رہے۔ پیر صاحب نے تیسری مرتبہ یہی بات دہرا کر اباجان سوال کیا تو انھوں نے کہا۔” پھر اور کس لیے میں یہاں آکر بیٹھا ہوا ہوں۔“

نکاح ہوگیا اور یوں اماں اباجان کے عقد میں آئیں اور اپنے گھر سے رخصت ہوکر اباجان کے گھر پہنچیں۔ شادی سے پہلے تک اباجان مسجد ہی میں قیام پذیر ہوتے تھے، کیونکہ گھر صرف شادی شدہ لوگوں ہی کو الاٹ ہوتے تھے۔ اباجان کی شادی ہوئی تو ہنگامی طور پر انھیں ایک گھر الاٹ کردیا گیا اور یوں اباجان اور اماں کی شادی شدہ زندگی کا آغاز ہوا۔

شادی ہوگئی۔ گھر کابھی انتظام ہوگیا، لیکن اب سوال یہ تھا کہ اب گھر کا خرچہ کیسے چلے۔ چندہ ایک طرف، اباجان نے کبھی کسی سے کچھ بھی نہیں مانگاتھا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہی پیر صاحب نے شاید بیت المال قائم کیا ہوا تھا ، لہٰذا اباجان کے اس مختصر سے خاندان کے لیے بھی وظیفہ مقرر ہوگیا جو اباجان نے تو کبھی وصول نہیں کیا اس لیے کہ شادی کے بعد بھی وہ ٹک کر حیدرآباد میں نہیں رہے، بلکہ ایک آدھ ہفتہ گھر پرگزارنے کے بعد دور دراز کے علاقوں کے دورو ں پرنکل جاتے اور مہینوں شکل نہ دکھاتے۔ اس پر فتن دور میں یہی معمولی سا وظیفہ اماں اور بعد میں بڑے بھائی کی گزر بسر کے لیے کافی ہوتا۔اس تنگدستی میں زندگی گزارنا اور وہ بھی اس حال میں کہ شوہر کو گھر کی کوئی پرواہ نہ ہو، وہ دنیا میں اللہ کا پیغام پھیلانے میں مصروف ہو، جان جوکھوں کا کام تھا۔ نازوں کی پالی اماں صبر و استقامت سے اس صورتحال کو سہتی رہیں اور اف تک نہ کی۔ نانا کا گھر اسی کمپاﺅنڈ میں ہونے کے باوجود اماں نہ کبھی اباجان کی غیر موجودگی میں اپنا گھر چھوڑکر وہاں گئیں اور نہ ہی ان سے کوئی مالی مدد وغیرہ قبول کی۔ شوہر کی عزت کی خاطر اپنے گھر کے قلعے کو سنبھالے ہوئے اسی تنگدستی میں گزارہ کرتی رہیں مگر مجال ہے جو باہر کسی کو پتہ بھی چلا ہو یا چہرے پر کوئی رنگ بھی آیا ہو۔ وہ واقعی صبر و استقامت کی پتلی تھیں۔

اسی اثناءمیں بڑے بھائی حبیب الرحمٰن پیدا ہوئے اور اپنی پیدائش کے کئی ماہ بعد تک باپ کی شکل کو ترستے رہے۔ کئی ماہ بعد جب اباجان سرحد کے دورے سے واپس آئے تو بیٹے سے ملاقات کی اور اسے سینے سے لگایا۔