Tuesday, March 27, 2012

فسانہ آزاد:: باب سوم:: جوانی دیوانی

باب سوم۔فسانہ آزاد

جوانی دیوانی
محمد خلیل الر حمٰن


اباجان نے آٹھویں جماعت پاس کی اور اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے حیدرآباد جانے کا قصد کیا ہی تھا کہ حیدرآباد سے ایک تبلیغی جماعت کے کچھ اصحاب باسم پہنچے اور وہاں پر جلسہ کیا اور اس میں تقریریں کیں ۔اس وفد کے سربراہ مولانا قاسم علی عرف تایا تھے جنھوں نے اباجان سے بات کی تو ان کے خیالات اور علمیت سے خاصے متاثر ہوئے اور ان کے اباسے درخواست کی کہ اللہ کے نام پر وہ اس بچے کو تبلیغ ِ اسلام کے لیے وقف کردیں اور انھیں اس بچے کو اپنے ساتھ حیدرآباد لے جانے کی اجازت دیں۔دادا نے بخوشی اجازت دیدی ۔گاﺅں میں ایک دکان دار ابراہیم بھائی جو اباجان سے کچھ سال بڑے تھے اور ان کے بہت اچھے دوست تھے ،وہ بھی اباجان کے ساتھ حیدرآباد جاکر دین کی خدمت کرنے کے لیے تیار ہوگئے، اس طرح اباجان سولہ سال کی عمر میں اپنے ماں باپ سے رخصت ہوکر، ابراہیم بھائی کے ساتھ دین کی خدمت اور االلہ کا کام کرنے کی نیت سے حیدرآباد پہنچ گئے اور پیر صاحب کی خدمت میں حاضری دی۔یہ وہ موقع تھا جس نے اباجان کے طرز زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا اور وہ باسم کے ایک کھلنڈرے لڑکے سے ایک نوجوان مبلغ میں تبدیل ہوگئے جس کاکام علم حاصل کرنا، دین کی اشاعت اور اللہ کے نام کو پھیلانے کی غرض سے ہندوستان کے طول و عرض میں دورے کرنا اور تقریروں اور مناظروں کے ذریعے اسلام پھیلانا تھا۔ 

حیدرآباد پہنچ کر اباجان نے وہاں کی بڑی بڑی لائبریریوں میں جانا اور وہاں سے اچھی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا، حیدرآباد کے ایک علاقے نام پلی میں یوسف شریف صاحب کی درگاہ سے ملحق ایک بڑی اور بہت اچھی لائبریری تھی۔اور وہاںپر ہر قسم کی علمی اور ادبی کتابیں دستیاب تھیں۔ اسی طرح جامعہ عثمانیہ کی آصفیہ لائبریری ۔اباجان نے اپنا زیادہ وقت ان لائبریریوں میں گزارنا شروع کردیا اور مطالعے کو اپنی عادت ثانیہ بنا لیا۔

اس مطالعے کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ اباجان نے اپنے پیر صاحب کے معمولی قسم کے خیالات کو اپنے ذہن میں بالکل جگہ نہ دی اور نہ ہی ان خیالات کو اپنی تقریروں کا حصہ بنایا۔جہاں پیر صاحب اور ان کے دیگر مرید جنھیں پڑھنے لکھنے سے قطعاً کوئی لگاﺅ نہیں تھا، ایک خود ساختہ فلسفے پر یقین رکھتے تھے جس کی بنیاد چند اوٹ پٹانگ قسم کی پیشن گویوں پر تھی جن کے مصداق، عنقریب ہندوستان تمام مسلمان ہونے والا تھا اور ترپتی اور ہمپی کا والی بھنڈار کے مندروں کے نیچے گڑے ہوئے سونے چاندی اور ہیرے جوہرات کے خزانے مسلمان مجاہدوں کے ہاتھ آنے والے تھے۔ شاید ان خزانوں کا چکر ہی اس لیے چلایا گیا تھا کہ مریدان ان کے گرد اکٹھے رہیں اور اس وقت کے انتظار میں چندہ کرکے اپنا وقت گزارتے رہیں جب انھیں ان خزانوں سے حاصل شدہ مالِ غنیمت میں سے ایک بڑا حصہ حاصل ہوجانا تھا۔

قارئین کی دلچسپی کے لیے ذیل میں ان پیشن گوئیوں کا خلا صہ پیش کیا جاتا ہے جو بقول پیر صاحب کے، آٹھ سو سال قبل بزرگانِ اہلِ ہنود نے کی تھیں اور ان میں پیش کردہ چن بسویشور دراصل خودیہی پیر صاحب ہیں۔لہٰذہ پیر صاحب اپنے تیئں چن بسویشور کہلاتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اس جنم میں مسلمان پیر بن کر وارد ہوئے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ پیر صاحب کے ماننے والے آوا گون میں یقین رکھتے تھے، اور اس معاملے میں عام مسلمانوں کے ذہن میں پیدہ ہونے والے شبہات کو دور کر نا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب گجرات کے ایک تاجر نجمی نے اباجان کے ساتھی سے اس بارے میں رہنمائی چاہی تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے اور آخر کار اباجان ہی نے جو آوا گون کی اس خرافات کو عین خلاف ِ اسلام سمجھتے تھے ، ان سے بات کی اور انھیں قائل کیا کہ اسلام ہی دینِ فطرت ہے جس میں آواگون جیسی خرافات کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔ یہ قصہ تفصیل کے ساتھ باب ہشتم ” سوئے منزل چلے“ میں آئے گا۔اب پڑھئے بشارات:۔

۱۔ آگے چن بسویشور جگت پاک کریں گے، چھ مذاہب اور ایک سو ایک ذات کے اختلافات مٹا کر ایک ہی مذہب وکرم ویر شیو قائم کریں گے۔

۲۔ کلیوگ سے پاپ دھویا جائیگا۔ چن بسویشور بارہ لاکھ فوج سے لیس ہوکر آئے گا۔ شری چندی گری( ترپتی کا مندر) خان خانوں کے ساتھ مل کر چلے گا۔ شری گری ( ترپتی کے مندر) میں خزانہ نکالے گا۔ والی کا خزانہ نکالنے کا وقت آئے گا۔ وقت آنے پر فوراً خزانہ نکال لیں گے۔ 

۳۔ اس وقت شہر بنگلور چار میناروں تک پھیل جائے گا۔ اور برباد ہوجائے گا۔ ترک ترپتی کے دیو استھان میں گھسیں گے۔ مسلمانوں کو 

دولت مل کر تین گھڑی میں بڑے بڑے گنبد اور مقبرے بنائیں گے۔

۴۔ شری گرو چن بسویشور ایک پدم سے تین پدم تک دولت والی بھنڈار سے نکالیں گے۔ وہ بھنڈار یعنی خزانہ نکال کر گدک میں سیوراج پٹن 
بنائیں گے۔ 

۵۔ اسی ہزار گھوڑے سوار، مست پٹھان بڑی ندی پار ہوکر کرناٹک میں داخل ہوں گے۔ہری ہر دیول کی مورتیاں توڑ دیں گے۔ مسلمانوں کی فوج بلند آواز سے نعرے مارتی ہوئی لڑے گی، ان کے مقابلے کی تاب کسی کو نہ ہوگی۔ اور ان گنت بے شمار مسلمانوں کی فوج ترپتی میں داخل ہوگی۔ شری وینکٹش کی دیول میں گھس کر نذر مانا ہوا خزانہ پھوڑیں گے۔وغیرہ وغیرہ۔

ان پرانی بشارات کو بنیاد بناتے ہوئے پیر صاحب کو غیب سے یہ الہام ہوچکا تھا کہ ہندوستان تمام مسلمان ہونے والا ہے اور وہی دراصل چن بسویشور ہیں جو اس نئے جنم میں مسلمان بن کر پیدا ہوئے ہیں،جن کے ہاتھ پر تمام ہندوستان مسلمان ہوگا۔ ادھر ان کے ساتھ رہنے والے مبلغین اور مجاہدین پر ہمپی کا والی بھنڈار اور ترپتی مندر اپنے خزانوں کے منہ کھول دیں گے۔پیسہ ہی پیسہ۔دولت ہی دولت۔

ادھر دوسری طرف اباجان ان خرافات پر ذرہ برابر بھی کان نہ دھرتے تھے۔ اباجان کا اندازِ تقریر بڑا سادہ مگر پر اثر تھا۔ وہ اگرچہ اپنے پیر بھائیوں کی طرح پیر صاحب کے اوٹ نٹانگ فلسفے کو بیان نہ کرتے ۔ ان کی تقریروں کا مآخذ مولانا شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی کی لکھی ہوئی سیرت النبی کے علاوہ مولانا مناظراحسن گیلانی اور ڈاکڑحمید اللہ کے وہ لیکچر ہوتے تھے جنہیں اباجان بڑے شوق سے سنتے تھے اور ان سے حاصل کردہ معلومات ان کے ذہن کے کمپﺅٹرمیں محفوظ ہوجاتی تھیں۔ وہ سادہ، علمی قسم کی گفتگو کرتے اور ہر مرتبہ ایک نئے انداز سے ایک نئے موضوع کو لے کر چلتے۔ نوجوان سامع حضرات ان کے اس انداز کو بہت پسند کیا کرتے تھے۔ ان کے جلسوں میں طالبانِ علم باقاعدہ کاپی پینسل لے کر بیٹھا کرتے تھے اور ان کے بیانیہ کے دوران نوٹس لیا کرتے۔

دوسال حیدرآباد میں گزارنے کے بعد پہلی مرتبہ گھر لوٹے ، اس دوران دونوں چھوٹے بھائی اکبر اور سرور ان کو تقریباً بھول چکے تھے، وہ اس چھوٹی سی داڑھی والے اس نوجوان مبلغ کو یوں بے دھڑک گھر میں گھستے ہوئے دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے اور دور جاکر چھپ گئے۔ ماں باپ نے گلے سے لگا لیا ، گاﺅں میں خوب واہ وا ہو گئی۔بارے داڑھی کا کچھ بیاں ہوجائے۔ نوجوانی میں اباجان اس تبلیغی جماعت میں مشولیت کرکے باقاعدہ اسلامی مبلغ اور عالم بن گئے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کی ابھی داڑھی نہیں نکل پائی تھی۔ ساتھیوں کے مشورے سے دونوں گالوں اور ٹھوڑی پر ایک خاص پودے کے پتوں کو لے کر ملا اوراس قسم کی کوششیں رنگ لائیں اور اباجان ایک عدد چھوٹی سی خشخشی داڑھی کے مالک بن گئے۔

انھی دنوں گاﺅں میں سیرت کانفرنس کا انعقاد ہوا تو ان نوجوان مولانا کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ اباجان کے ساتھ ان کے دادا، تایا، ابا اور تین چچا بھی اس جلسے کی کارروائی سننے کے لیے جلسہ گاہ پہنچے۔ اباجان کو جلسہ کے آغاز سے پہلے اسٹیج پر بیٹھنے کی دعوت دی گئی جسے انھوں نے شکریے کے ساتھ نامنظور کیا۔ ان کے بقول ان کے خاندان کی اتنی بڑی بڑی ہستیاں اس وقت جلسہ گاہ میں نیچے دری پر بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کی موجودگی میں وہ اسٹیج پر چڑھ کر بیٹھنے کو ان بزرگوں سے بے ادبی تصور کرتے ہوئے نیچے ہی بیٹھنا چاہتے تھے۔ جب ان کی باری آئے گی وہ اس وقت اسٹیج پر پہنچ جائیں گے تاکہ تقریر کرسکیں۔

اباجان کی باری آئی اور انکا نام پکارا گیا تو وہ انتہائی ساگی کے ساتھ اٹھے اور اسٹیج پر جاکر اپنی تقریر شروع کی۔ گاﺅں والوں اور خاندان والوں کے نزدیک وہ وہی چھوٹے تھے لیکن جب اباجان نے اپنی تقریر شروع کی تو پورے پنڈال میں سناٹا چھاگیا۔ اباجان نے اپنی سادہ مگر پر اثر تقریر سے نہ صرف اپنے خاندان والوں بلکہ پورے گاﺅں والوں کے دل جیت لیے۔سب لوگ باری باری اسٹیج پر آئے اور ان سے مصافحہ کیا۔ بڑوں نے انھیں گلے سے لگا لیا۔ خاص طور پر ان کے اسکول کے اساتذہ خان سر اور صدیقی سر نے ان کی تقریر کے انداز اور گفتگو کے فن کو خوب سراہا۔ یہ خان سروہی استاد تھے جنھوں نے انھیں اس تبلیغی جماعت میں شامل ہونے سے منع کیا تھا کہ یہ لوگ فراڈ لگتے ہیں تو ان میں جاکر شامل نہ ہواور اباجان کے یہ کہنے پر کہ یہ ان کے ابا کا حکم ہے کہ وہ اس جماعت میں شامل ہوکر اسلام کی خدمت کریں لہٰذا وہ اپنے باپ کا حکم نہیں ٹال سکتے، انھیں مارا بھی تھا۔ انھوں نے اباجان کی تقریر سنی تو باقاعدہ رودیئے۔انھوں نے اباجان کو ڈھیر ساری دعائیں بھی دیں ۔ گو وہ انھیں علیگڑھ بھیجنا چاہتے تھے مگر اباجان کی علم دوستی اور علمیت کودیکھ کر وہ خاصے متاثر ہوئے اور دعاگو ہوئے کہ اللہ تیری حفاظت فرمائے۔

ادھر گاﺅں والے اس جلسے کی کامیابی کا جشن منارہے تھے، ادھر اباجان کے دوستوں نے انھیں گھیر لیا اور اطلاع دی کہ گلاب نانا صاحب گاﺅں سے دور ایک ویرانے میں قبرستان والی مسجد میں چلہ کاٹ رہے ہیں تاکہ جنوں کو قابو کر سکیں۔ اباجان فوراً ان دوستوں کے ساتھ روانہ ہوگئے اور جنوں کی اس جماعت نے اس قبرستان پہنچ کر حالات کا جائزہ لیا۔ چاروں طرف سناٹا تھا اور ہو کا عالم ۔نہ آدم نہ آدم زاد۔ کسی طرف کوئی ذی ہوش نظر نہ آتا تھا۔ساون کا مہینہ اور برسات کے دن تھے۔ زمین پر ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ پھیلا ہوا تھا۔بادل چھائے ہوئے تھے۔ ذرا دیر میں اندھیرا چھا گیا۔ ان دوستوں نے سفید کورے لٹھے کے لمبے لمبے جبے اور لمبی لمبی ٹوپیاںپہلے ہی سے سی کر تیار رکھے ہوئے تھے۔سب دوست فورا ہی اپنے لباس تبدیل کرکے ایکشن کے لیے تیار ہوگئے۔ عشاءکا وقت ہوا تو گلاب نانا نے اپنا وظیفہ چھوڑا ، خود ہی کھڑے ہوکر اس ویرانے میں اذان دی ، اقامت کہی اورجنوں کے امام بن کر نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ 

دوستوں نے ایک عدد مہتابی کا پہلے ہی سے بندوبست کررکھا تھا۔ پانچ لڑکے تو فوراً ہی امام صاحب کے پیچھے صف بنا کر کھڑے ہوگئے۔ 

چھٹے نے کچھ دیر بعد مہتابی روشن کی اور اسے ایک طرف رکھ کر خود بھی نیت باندھ کر نماز میں شامل ہوگیا۔روشنی ہوتے ہی گلاب نانا نے پہلے تو کنکھیوں سے پیچھے کی جانب دیکھا اورپھر چونک کر مڑے ۔ اصلی جنوں کو دیکھتے ہی ان کی سٹی گم ہوگئی۔ نماز بھول کر یا علی کا ایک نعرہ مستانہ لگایا اور بے ہوش ہوکر زمین پر لڑھک گئے۔

مقتدی جنوں نے فوراًسے پیشتر سفید کورے لٹھے کے چوغے اتار پھینکے اور بھاگے تو گاﺅں واپس پہنچ کر ہی دم لیا۔ ادھر دو ساتھی پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت گاﺅں کے بڑے بوڑھوں کے پاس پہنچے اور گلاب نانا کے قبرستان کی مسجد میں بے ہوش پڑے ہونے کی اطلاع دی۔ ان کی خبر کے مطابق وہ داداکی قبر پر فاتحہ پڑھنے قبرستان گئے تھے کہ وہاں پر مسجد میں گلاب نانا کو دیکھا۔ گاﺅں والے بھاگتے ہوئے گئے اور گلاب نانا کو چارپائی پر ڈال کر واپس لیتے آئے۔چہرے پرپانی چھڑکا گیا تو ہوش میں آگئے پر اس دن کے بعد پھر گلاب نانا نے جنوں کو قابو کرنے کا نام تک نہ لیا۔ اباجان گاﺅں سے واپس حیدرآباد آگئے۔یہ دورہ اباجان کا اپنے آبائی گاﺅں باسم کا آخری دورہ ثابت ہوا 

اباجان کی اپنے گھر میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اباجان کے حیدرآباد منتقل ہونے کے کچھ ہی عرصے بعدجب ہندو مسلم کشیدگی بڑھی تو سارا گھرانا باسم ( سی پی برار ) سے حیدرآباد منتقل ہوگیا اور پیر صاحب کے کمپاﺅنڈ سے کچھ ہی فاصلے پر ایک گھر کرائے پر لے کر وہاں پر رہائش اختیار کر لی۔ ۔یہ وہ زمانہ تھا جب ۵۳۹۱ءکے پہلے جداگانہ انتخابات کے نتیجے میں کانگریس کو ایک بڑی کامیابی نصیب ہوئی تھی اور آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کی نشستوں پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پائی تھی۔ نتیجہ کے طور پر کانگریس کھل کھیلی اور اس کا مسلم دشمن رویہ سب کے سامنے آگیا۔ اس سے پہلے تمام علاقوں میں ہندو اور مسلمان مل جل کر رہتے تھے۔اباجان کا گاﺅں باسم جو ہندو اکثریت کا علاقہ تھا، وہاں پر بھی ہندو مسلمان مل جل کر رہتے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ وہ کباڑی کاکا ہوں یا ہندو نانی یا مسلمان بزر گ ہو ں وہ سب چھوٹوں کو چاہے وہ مسلمان ہوں یا ہندو اپنے بچے سمجھتے تھے۔کوئی بھی بزرگ کسی بھی بچے کو کسی بھی وقت کوئی بھی کام کہہ سکتا تھا، اور اس بچے کی مجال نہیں تھی کہ وہ اس بزرگ کو اس کام کے لیے انکار کردے۔ یہ تھا ۵۳۹۱ءسے پہلے کا ہندوستانی معاشرہ۔ جب اس سال جداگانہ انتخابات کا ایکٹ منظور ہوا اور کانگریس اقتدار میں آئی تو تمام علاقوں میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔فضاءمکدر ہوگئی۔ ہندو اپنے ڈھول تاشے والے جلوس نکالتے اور ان کا اصرار ہوتا کہ عین مسجد کے سامنے کھڑے ہوکر ڈھول پیٹیں گے۔ مسلمان اپنی مسجدوں کی یہ توہین برداشت نہ کرسکتے لیکن کچھ نہ کہہ سکتے۔ ان کی طرف سے جوبی اقدام کے طور پر مسجد کے صحن میں ایک گائے کو لاکر کھڑا کردیا جاتا اور اسے ذبح کرنے تیاریاں ہونے لگتیں۔ یہ دیکھ کر ہندوﺅں میں اشتعال پھیل جاتا اور یوں فسادات پھوٹ پڑتے۔


ادھر اباجان کی تبلیغ اور ہندوﺅں کے ساتھ ان کے مقا بلوں کی خبریں پھیل چکی تھیں اور ہندو خاص طور پر مرہٹے ان کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے ۔ اس لیے گھر والوں نے اباجان کو منع کردیا کہ وہ گاﺅں نہ آئیں۔جب صورتحال اور بگڑی تو اباجان کا تمام گھرانا باسم سے حیدرآباد دکن ہجرت کرگیا۔اباجان حیدرآباد میں ہوتے تو تینوں چھوٹے بھائی ، یعنی ہاشم چچا، سرور چچا اور اکبر چچا جو اباجان سے بہت زیادہ گہرا لگاﺅرکھتے تھے ، یہ تینوں ان کے ہی گرد منڈلایا کرتے۔ خاص طور پر نماز میں اباجان کے ہمراہ ہوتے۔

اسی دور میں اباجان نے اپنے کئی ساتھی بنالیے جو ان کے ارد گرد ہی رہتے اور ان کی شوخیءطبع اور مزاج کی رنگینی کے شایق و گرویدہ تھے۔ ان کے یہ جاں نثار ساتھی ان کے ایک اشارے پر کٹ مرنے تک کے لیے تیار رہتے تھے، ان میں سر فہرست سیف اللہ تھے۔ پیر صاحب کی پہلی بیوی کے چھوٹے بھائی ننھے ماموںبھی اباجان کے اس گروہ میں شامل تھے۔یہ تمام ساتھی فارغ وقت میں اباجان کے ساتھ مل کر تلوار کے داو پیچ اور کرتب سیکھا کرتے تھے۔اباجان کا شعری ذوق بہت اچھا تھا اور کبھی کبھی خود بھی شعر کہا کرتے تھے ، لہٰذاکبھی کبھار شعر و شاعری کی محفلیں بھی سجا کرتیں۔ اباجان ہی کی طرح یہ لوگ بھی چائے اور پان وغیرہ کے شوقین تھے۔ چائے پینے اور پان کھانے کے لیے اپنے کمپاﺅنڈ سے دور ایک ہوٹل تک جایا کرتے اور وہاں پر اپنے مشاغل سے فارغ ہوکر عشاءکی نماز کے لیے یا محفل کے لیے مسجد پہنچتے تو پہلے خوب اچھی طرح کلی وغیرہ کرلیتے تاکہ پان کا رنگ ان کے ہونٹوں یا زبان سے ظاہر نہ ہو۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے ، یہ لوگ چائے پینے کے لیے ہوٹل پہنچے تو ہوٹل والے نے جو غمگین بیٹھا ہوا تھا ان لوگوں سے چاﺅشوں کی شکایت کی۔ چاﺅش دراصل نسلاً عرب تھے جو شاید صدیوں پہلے ہندوستان آئے تھے اور یہیں کے ہورہے تھے۔ انھوں نے علاقے میں اپنی دہشتپھیلا رکھی تھی۔ تاڑی ( ایک قسم کا نشہ) پینے میں ماہر تھے۔ نشے میں،لوگوں کو وقتاً فوقتاً لوٹ لیا کرتے، یا ان سے بدتمیزی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ہوٹل والے نے بتایا کہ وہ لوگ اس کے پاس کھانا کھانے آئے تھے اور اس کے پیسے مانگنے پر اسے مارا پیٹا تھا اور پیسے دیے بغیر ہی چلے گئے تھے۔ اباجان اور ان کے ساتھیوں کو تویہ موقع خدا نے دیا تھا۔ ایک مظلوم کی داد رسی ان کا فرضِ اولین تھا۔ ان سب نے اپنی تلواریں سونت لیں اور دندناتے ہوئے چاﺅشوں کے ڈیرے پر پہنچ گئے اور انھیںباہر بلا کر پہلے تو خوب مارا پیٹا اور آخر کار ان سے ہوٹل والے کے پیسے لے کر لوٹے۔

اگلے دن چاﺅشوں کا گروپ پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اباجان اور ان کے گروہ کی شکایت کی۔ بات نکلی تو بات کھل گئی۔ چاﺅش اپنے کرتوتوں پر شرمندہ ہوئے اور خود ہی معافی مانگ کر وہاں سے رخصت ہوئے۔یہ وہ دن تھا کہ اطراف میں اباجان کے ساتھیوں کی دہشت اس علاقے میں پھیل گئی اور وہاں کے غنڈے بھی ان اللہ والوں سے ڈرنے لگے۔

جہاں دوسرے مرید اپنے تبلیغی دوروں میں چندہ مانگنا اپنا دینی اور دنیاوی فریضہ سمجھتے تھے وہیں اباجان کا وطیرہ یہ تھا کہ جو مل گیا صبر و شکر کے ساتھ کھا لیا، کبھی کچھ نہ ملا تو بھوکے سو گئے۔ انھوں نے زندگی بھر کسی بھی انسان کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا۔دراصل پیر صاحب نے دیگر مریدوں کے ساتھ یہ سلسلہ رکھا تھا کہ مرید کے لائے ہوئے چندے کے تین حصے کیے جاتے، ایک حصہ اس مرید کو لوٹا دیا جاتا، دوسرا حصہ پیر صاحب کی جیب مبارک میں جاتا اور تیسرا حصہ بیت المال میں جمع کردیا جاتا۔ اباجان جیسے سرپھرے مبلغ ، زیادہ نہیں پر دوچار توتھے ہی، وہ جب چندہ نہ لاتے تو انھیں اسی بیت المال سے ایک معمولی سی رقم جیب خرچ کے لیے دیدی جاتی جس سے وہ اپنا گھر بمشکل چلا پاتے تھے۔

ہمارے نانا جناب عبدالشکور صاحب بنگلور کے ایک متمول آدمی تھے اور ان کے خاندان کے دیگر لوگوں کی طرح ان کے اپنے بھی کافی اور الائچی کے کئی باغات تھے جہاں سے ماہانہ لاکھوں روپے کی آمدنی ہوتی۔شادی بھی ایک متمول گھرانے میں ہوئی۔ آدمی سیدھے سادے تھے۔ جب ان تک اللہ کا پیغام پہنچانے کی دعوت پہنچی تو فوراً راضی ہوگئے اور اپنا گھر اورباغ اونے پونے بیچ کر تمام روپیہ لیا بیوی بچوں کو ہمراہ لیا اور پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ سارا روپیہ پیسہ پیر صاحب کے قدموں میں ڈال دیا اور اللہ کے دین کی خدمت میں مگن ہوگئے۔ اللہ نے بیٹیاں ہی بیٹیاں دی تھیں، جن کا بچپن امیری میں گزرا تھا۔ بیوی اور بچے بھی صبر و شکر کے ساتھ وہیں پیر صاحب کے احاطے میں ملے ہوئے ایک معمولی گھر میں رہنے لگے۔ نانا بھی دیگر مریدوں کی طرح دوروں پر جاتے، اللہ کے دین کو پھیلاتے، چندہ کرتے اور لاکر پیر صاحب کی خدمت میں پیش کردیا کرتے ، جیسا کہ وہاں کا دستور تھا۔ پیر صاحب حسبِ معمول ایک تہائی حصہ انھیں لوٹادیتے اور یوں ان کی زندگی کی گاڑی آگے بڑھنے لگی۔ 

چند سال پہلے چھوٹا بھائی ریاض اپنی سسرال بنگلور ہندوستان پہنچا تو رشتہ داروں نے نانا کی چھوڑی ہوئی حویلی دکھائی جو اب بھی اپنی عظمتِ رفتہ کی کہانیاں سنارہی تھی ۔وہیں پیر حاحب کے مریدوں میں سے ایک صاحب کے ساتھ نانا نے اپنی بڑی بیٹی کا نکاح کردیا۔ اماں دوسرے نمبر کی بیٹی تھیں لہٰذا ان کے بعد نانا اماں کے لیے ایک مناسب بر کی تلاش میں تھے۔

اباجان جہاں بھی گئے تقریروں میں انھوں نے بقول اکبر چچا اپنی ہی بات کی ، کسی دوسرے کے خیالات مستعار نہیں لیے۔ اپنے پیر صاحب یا پیر بھائیوں کے فلسفے کو نہیں بیان کیا۔ سیرت پر اتنا اچھا بولتے تھے ،اتنا ڈوب کر اور اس قدر پیار اور محبت سے بولتے تھے کہ لوگ ان کی تقریروں سے بڑے متاثر ہوتے۔ مدراس میں اباجان کی ان تقریروں کی وجہ سے خاکسار ان کے دوست بن گئے اور اپنے ہر جلسے میں اباجان کو مدعو کرنے لگے۔وہاں پر جب سیرت کانفرنس ہوئی تو لوگوں اباجان کو سننا شروع کیا اور بہت مقبول ہوئے۔ یہاں تک کہ ایک ایسا موقعہ آیا کہ لوگوں نے حیدرآبادکے مقامی علماءکو سننے سے انکار کردیا۔اس بات سے مقامی مولوی حضرات بڑے ناراض ہوئے۔

اسی طرح کے جلسوں میں ہندو بھی موجود ہوتے اور اباجان کی تقریریں بڑے شوق سے سنتے، حالانکہ مدراس بڑا پر تعصب شہر سمجھا جاتا تھا جہاں پر لوگ صرف انگریزی یا تامل بولنا چاہتے تھے،اردو بولنے یا سننے کے لیے تیار نہ ہوتے، لیکن اباجان کی اردو زبان میں کی ہوئی تقریریں یہی لوگ بہت شوق و انہماک سے سنتے تھے۔اسی طرح اندور میں اباجان کے جلسوں کو بڑی پذیرائی ملی۔ مہاراجہ اندور ان کی تقریریں سن کر بہت متاثر ہوا۔ وہ انھیں ہر سال جلسے میں مدعو کیا کرتا تھا۔

انھی جلسوں میں نانا اور خالو ابا نے اباجان کو دیکھا اور ان کی تقریریں سنیں تو ان سے بہت متاثر ہوئے اور دونوں نے آپس کے مشورے کے بعد طے کیا کہ اباجان اور اماں کی شادی کی بات چلائی جائے۔ حیدرآباد پہنچے تو یہی بات پیر صاحب کے گوش گزار کی جنہوں نے اس تجویز کو پسند کیا اور خود اباجان سے بات کی اور انھیں شادی پر آمادہ کرلیا۔

وقتِ مقررہ پر اباجان کو نکاح کے لیے بٹھایا گیا، مسجد میں سب مریدان موجود تھے۔ اباجان سے ایجاب و قبول کا مرحلہ شروع ہوا۔ پیر صاحب نے ایک مرتبہ اباجان سے پوچھا کہ وہ مولوی عبدالشکور صاحب کی صاحبزادی کو ان کے نکاح میں دے رہے ہیں، کیا انھوں نے قبول کیا؟ اباجان خاموش رہے۔ پیر صاحب نے پھر اپنا سوال دہرایا تو اباجان پھر بھی خاموش رہے۔ پیر صاحب نے تیسری مرتبہ یہی بات دہرا کر اباجان سوال کیا تو انھوں نے کہا۔” پھر اور کس لیے میں یہاں آکر بیٹھا ہوا ہوں۔“

نکاح ہوگیا اور یوں اماں اباجان کے عقد میں آئیں اور اپنے گھر سے رخصت ہوکر اباجان کے گھر پہنچیں۔ شادی سے پہلے تک اباجان مسجد ہی میں قیام پذیر ہوتے تھے، کیونکہ گھر صرف شادی شدہ لوگوں ہی کو الاٹ ہوتے تھے۔ اباجان کی شادی ہوئی تو ہنگامی طور پر انھیں ایک گھر الاٹ کردیا گیا اور یوں اباجان اور اماں کی شادی شدہ زندگی کا آغاز ہوا۔

شادی ہوگئی۔ گھر کابھی انتظام ہوگیا، لیکن اب سوال یہ تھا کہ اب گھر کا خرچہ کیسے چلے۔ چندہ ایک طرف، اباجان نے کبھی کسی سے کچھ بھی نہیں مانگاتھا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہی پیر صاحب نے شاید بیت المال قائم کیا ہوا تھا ، لہٰذا اباجان کے اس مختصر سے خاندان کے لیے بھی وظیفہ مقرر ہوگیا جو اباجان نے تو کبھی وصول نہیں کیا اس لیے کہ شادی کے بعد بھی وہ ٹک کر حیدرآباد میں نہیں رہے، بلکہ ایک آدھ ہفتہ گھر پرگزارنے کے بعد دور دراز کے علاقوں کے دورو ں پرنکل جاتے اور مہینوں شکل نہ دکھاتے۔ اس پر فتن دور میں یہی معمولی سا وظیفہ اماں اور بعد میں بڑے بھائی کی گزر بسر کے لیے کافی ہوتا۔اس تنگدستی میں زندگی گزارنا اور وہ بھی اس حال میں کہ شوہر کو گھر کی کوئی پرواہ نہ ہو، وہ دنیا میں اللہ کا پیغام پھیلانے میں مصروف ہو، جان جوکھوں کا کام تھا۔ نازوں کی پالی اماں صبر و استقامت سے اس صورتحال کو سہتی رہیں اور اف تک نہ کی۔ نانا کا گھر اسی کمپاﺅنڈ میں ہونے کے باوجود اماں نہ کبھی اباجان کی غیر موجودگی میں اپنا گھر چھوڑکر وہاں گئیں اور نہ ہی ان سے کوئی مالی مدد وغیرہ قبول کی۔ شوہر کی عزت کی خاطر اپنے گھر کے قلعے کو سنبھالے ہوئے اسی تنگدستی میں گزارہ کرتی رہیں مگر مجال ہے جو باہر کسی کو پتہ بھی چلا ہو یا چہرے پر کوئی رنگ بھی آیا ہو۔ وہ واقعی صبر و استقامت کی پتلی تھیں۔

اسی اثناءمیں بڑے بھائی حبیب الرحمٰن پیدا ہوئے اور اپنی پیدائش کے کئی ماہ بعد تک باپ کی شکل کو ترستے رہے۔ کئی ماہ بعد جب اباجان سرحد کے دورے سے واپس آئے تو بیٹے سے ملاقات کی اور اسے سینے سے لگایا۔

No comments:

Post a Comment