Tuesday, March 27, 2012

فسانہ آزاد :: باب ششم:: او غافِل افغان

باب ششم۔فسانہ آزاد
او غافل افغان
محمد خلیل الر حمٰن

موجودہ پاکستان اور افغانستان کے قبائیلی علاقے یاغستان، باجوڑ ، ڈبراور خار وغیرہ اباجان کے لیے ایک دوسرے گھر کی حیثیت رکھتے تھے، جہاں پر اباجان نے ۱۹۴۰ء سے جانا شروع کیا اور ۱۹۵۵ءتک جاتے رہے۔ ۱۹۵۰ءمیں ہندوستان سے پاکستان پہنچے اور پشاور میں قیام کیا تو یہاں سے بھی علاقہ غیر کے کئی چکر لگائے۔یاغستان ، ڈبر اورخار میں تویہ وہاں کے سرداروں، نوابوں اور خانوں کے خاص مہمان بن کر رہتے تھے۔

گو ہندوستان پر مسلمانوں کاسب سے پہلا حملہ اور آمد تو محمد بن قاسم نے سندھ کی طرف سے کیا تھا لیکن اس کے بعد کے تمام حملوں میں مسلمان حملہ آور بادشاہوں یا اسلام کی تبلیغ کے لیے آنے والے صوفیوں اور دیگر بزرگانِ دین کا واحدراستہ افغانستان ہی رہا، لہٰذہ مغلوں کی شکست اور انگریزوں کی آمد کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد امید افغانستان کی طرف سے آنے والے مسلمانوں سے بندھی رہی تاکہ وہ آکر انھیں ان انگریزوں اور ہندو ¾وں سے نجات دلا سکیں۔ اباجان کے پیر صاحب نے بھی کچھ پیشن گوئیاں کر کھی تھیں اور ان پیشن گوئیوں کے مطابق اس باربھی ہندوستان کو فتح کرنے والا لشکر افغانستان کی جانب ہی سے آنے والا تھا، جسکی کمانڈ پیر صاحب ہی کرنے والے تھے ، اور نتیجتاً تمام ہندوستان مسلمان ہونے والا تھا۔مسلمانوں اور خاص طور پر اسلامی مجاہدوں کو ترپتی اور ہمپی کا والی بھنڈار کے مندروں سے دستیاب ہونے والاسارا سونا اور دیگر قیمتی نوادرات مالِ غنیمت میں ملنے والے تھے، لہٰذہ ان کے تمام مریدوں کی خاص توجہ کا مرکز یہ سرحدی علاقہ ہی تھا جہاں سے مجاہدوں کی آمد متوقع تھی۔ وہ اس علاقے میں پہنچ کر لوگوں کوخوابِ غفلت سے جگانا اور جہاد کے لیے تیار کرنا اپنا فرضِ عین تصور کرتے تھے۔اکثر و بیشتر ان مبلغین کی جماعت حیدرآباد سے ان علاقوں میں پہنچی ہوئی ہوتی تھی اور ان سوئے ہوئے افغانوں کو جگانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہوتی تھی۔

اباجان باسم سے پیر صاحب کے پاس حیدرآباد پہنچے اور وہاں رہائش اختیار کی تو ان کے والدین اس وقت باسم ہی میں تھے لہٰذہ اباجان کے لیے حیدرآباد میں قیام یا ہندوستان کے کسی اور علاقے میں قیام ایک ہی بات تھی۔انھیں سرحد کچھ اتنا پسند آیا کہ انھوں نے اس علاقے کے بہتیرے چکر لگائے اور ہر مرتبہ کئی کئی ماہ وہاں قیام کیا۔ وہاں قیام کے دوران انھوں نے نہ صرف پشتو سیکھی اور اس میں بول چال میں مہارت حاصل کی بلکہ ان کا رہن سہن اور کپڑے پہننے کا انداز بھی اپنا لیا اود دیگر یہ کہ ان علاقوں کے علماءکے ساتھ بیٹھ کر ان کی شاگردی اختیار کی اورنہ صرف دینی مسائل اور علومِ دینیہ میں مہارت حاصل کی بلکہ اسی اثناءمیں ان استادوں سے بہترین عربی اور فارسی بھی سیکھ لی۔

علاقائی زبان سیکھنے اور وہاں کی بول چال، رہن سہن اور طورطریقے اختیار کرنے اور پٹھانوں کی نفسیات کا قریب سے مطالعہ کرنے کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں پر اباجان نے بہت سے دوست بنا لیے اور ان میں گھل مل گئے۔اباجان کے ان قابلِ قدر دوستوں میں مولوی امیر الدین صاحب، میرا جان سیال صاحب، ڈبر کے نواب صاحب اور خار کے نواب صاحب خاص طور پر شامل ہیں۔

بھابی ( زوجہ امین بھائی مرحوم ) فرماتی ہیں کہ ایک دن اباجان نے انھیں اس علاقے میں اپنے ساتھ گزرا ہوا ایک عجیب و غریب واقعہ سنایا۔ کہنے لگے۔

” بہو بیگم! اس علاقے میں ایک مرتبہ میرے ساتھ ایک بہت عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ایک دن میں اپنے بنائے ہوے ان نئے پٹھان دوستوں میں سے ایک کے ساتھ بیٹھا تھاا ور اس علاقے کے پہاڑوں اور اس میں سے نکلنے والے قیمتی پتھروں عقیق یاقوت اور لاجورد وغیرہ کے متعلق بات چیت ہو رہی تھی ۔ یہ شخص جو کچھ مخبوط الحواس سا دکھائی دیتا تھا ، گاؤں والوں میں لیونئی ( یعنی دیوانہ) کے نام سے مشہور تھا ۔ ا س شخص نے دورانِ گفتگو ایک موقعے پراپنا ذہن بناتے ہوئے کچھ سوچا اور پھراچانک مجھے مخاطب کیا اور کہنے لگا کہ وہ مجھے ایک نرالی شے دکھانا چاہتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور اپنے گھر کی جانب چل دیا ، کچھ دیر بعد وہ اپنے گھر سے واپس پہنچا تو اس کے ہاتھوں میں ایک گٹھری تھی جسے اس نے میرے سامنے بہت احتیاط سے کھولا تو اس میں قیمتی یاقوت کے کئی بڑے بڑے ٹکڑے موجود تھے۔ اب اس نے ان ٹکڑوں کو آپس میں جوڑنا شروع کیا ۔ جب وہ انھیں جوڑچکا تو اس نے یہ شاہکار میرے سامنے کردیا۔ میں اس پتھر کو دیکھ کر حیران رہ گیا جو دراصل ایک نوزائیدہ بچے کی لاش تھی جو ہزاروں سال پتھروں میں دبے رہنے کی وجہ سے خود بھی نادر الوجود قیمتی یاقوت میں تبدیل ہوگئی تھی۔“

اباجان نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس لاش کے ٹکڑے دراصل مکمل انسانی اعضاءتھے جس طرح سائنسی ماڈل میں ہوتے ہیں اور اس بچے کے جسم میں اسی طرح فٹ ہورہے تھے ۔جب اباجان اچھی طرح اس لاش کو دیکھ چکے تو اس مخبوط الحواس شخص نے اطمینان کے ساتھ اپنی گٹھری کو سمیٹا اور گویا سلسلہ گفتگو ختم کرتے ہوئے وہاں سے اپنے گھر روانہ ہوگیا۔ یہ ایک ایسا نظارہ تھا جسے دیکھ کر اباجان حیران رہ گئے اور کچھ لمحوں کے لیے حواس باختہ ہوکر اس شخص کو جاتے ہوئے دیکھا کیے جو ان کی حیرت سے بے نیاز وہاں سے جاچکا تھا۔

یہ علاقے ان دنوں سرحدی گاندھی جناب عبدالغفار خان صاحب کے زیر اثر انڈین نیشنل کانگریس کا گڑھ سمجھے جاتے تھے اور وہاں پر آل انڈیا مسلم لیگ کی دال گلنی مشکل تھی۔وہاں پر ہر طرف پختونستان کا بول بالا تھا۔ ادھر اباجان اپنے خیالات کے اعتبار سے پکے مسلم لیگی تھے اور جہاں اسلام کی تبلیغ اپنی زندگی کا نصب العین بنائے ہوئے تھے وہیں تحریکِ پاکستان کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ اس سلسلے میں سرحد کے جس علاقے میں بھی جاتے، تحریکِ پاکستان کے لیے اپنے طور پر کام کرنے سے نہ چوکتے۔ گو انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیارتو نہیں کی، لیکن قائدِ اعظم کے ایک ادنیٰ کارکن کے طور پر کام کرنے کو ہمیشہ باعثِ افتخار سمجھا۔

چونکہ ان علاقوں میں اباجان کے اسلامی تشخص اور علمی و دینی لحاظ سے ان کے اعلیٰ مرتبے کی وجہ سے ان کی بڑی عزت کی جاتی اور کہیں بھی جانے پر پابندی یا روک ٹوک نہیں تھی، بلکہ ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے اور علاقے کے نوابوں کے مہمان خانے میں قیام ہوتا، لہٰذہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے کام کرنا بھی ان کے لیے نسبتاً آسان ہوتا۔مہمان خانے میں ان کے علاوہ اور بھی مہمان ٹھہرتے تھے جن سے اباجان کی ملاقات رہتی اور اباجان چپکے چپکے ان لوگوں تک مسلم لیگ کا پیغام پہنچاتے رہتے ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے، اباجان اپنے اسی قسم کے ایک دورے میں پچھلے کئی ماہ سے ریاست خار کے نواب صاحب کے مہمان خانے میں ٹھہرے ہوئے تھے اور اپنا تبلیغی مشن جاری رکھے ہوئے تھے کہ ایک دن انھیں مہمان خانے میں کچھ خاص قسم کی ہلچل کا اندازہ ہوا۔ یکبارگی بہت سارے مہمانانِ گرامی تشریف لے آئے۔ پتہ چلا کہ علاقے میں انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے خاص طور پر جرگہ بلایا گیا ہے۔اباجان خاموشی کے ساتھ یہ سب کچھ دیکھتے رہے اور اس دوران میں انھوں نے سب سے معمر مہمان کو تاڑ لیا۔رات آئی تو اباجان نے انھی بزرگ مہمان کے بستر کے ساتھ ڈیرہ جمالیا اور ان حضرت کے ساتھ علیک سلیک کے بعد باتیں شروع کیں۔

اباجان ساری رات ان بزرگ کے ساتھ کھسر پسر کرتے رہے اور اس دوران میں انھوں نے ان بزگوار پر واضح کر دیا کہ انڈین نیشنل کانگریس کتنی ہی اچھی جماعت سہی مگر اس کے کرتا دھرتا گاندھی جی ہیں اور گاندھی جی ایک متعصب قسم کے ہندو ہیں جب کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سب سے بڑے اور مرکزی لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح ہیں جو کتنے ہی برے سہی مگر ایک مسلمان ہیں اور ایک مسلمان ایک ہندو سے لاکھ درجے بہتر ہوتا ہے، لہٰذہ تمام ہندوستان کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایک ہندو کو ایک مسلمان پر ترجیح نہ دیں بلکہ ایک ہندو کے مقابلے میں ایک مسلمان کا ساتھ دیں ۔ بات سمجھ میں آنے والی تھی لہٰذہ انھوں نے اسے تسلیم کیا۔ ادھر انھیں پکا کرنے کے بعد ہی اباجان سوئے، لیکن سکون کی نیند کہاں۔ انھیں تو اس تمام کارروائی اور نفسیاتی طور پر ان بزرگ کی برین واشنگ کے باوجود ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا کہ جانے کل کیا ہو۔ پاکستان مسلم لیگ اور خود پاکستان کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا تھا ایسے میں انھیں سکون کی نیند بھلا کیسے آتی۔ وہ رات انھوں نے خدا خدا کرکے آنکھوں میں کاٹ دی۔ صبح ہوئی اور فجر کی نماز کے بعد جرگہ کی کارروائی شروع ہوئی تو اباجان بھی دور ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئے۔ بھس میں چنگاری تو وہ لگا ہی چکے تھے ، اب انھیں نتیجے کا انتظار تھا۔ تقریریں شروع ہوئیں تویکے بعد دیگرے کئی سرداروں اور سربرآوردہ اشخاص نے اپنی تقریروں میں کھل کر انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت میں بیان دیئے۔

آخر میں ان بزرگ کی باری آئی۔ بڑی مشکل سے وہ کھڑے ہوئے اور ایک نہایت دھیمی آواز اور پر اثر انداز میں یوںگویا ہوئے۔ 

” گاندھی مسلمان ہے یا ہندو ہے؟“ لوگوں نے جواباً کہا کہ وہ ہندو ہے۔ آپ پھر یوں گویا ہوئے۔

” محمد علی جناح مسلمان ہے یا ہندو ہے؟“ لوگوں نے جو ان کے اس اندازِ تخاطب سے بہت کچھ سمجھ چکے تھے ، مجبوراً جوب دیا کہ وہ ایک مسلمان ہیں۔

” تو پھر ایک مسلمان ایک ہندو سے لاکھ درجے بہتر ہے اور ہم ایک مسلمان کے مقابلے میں ایک ہندو کی کبھی بھی حمایت نہیں کر سکتے۔“

اس مختصر تقریرکے بعد وہ بیٹھ گئے۔دیگر لوگوں کی کئی گھنٹوں پر مشتمل تقریروں کا اثر منٹوں میں زایل ہوچکا تھا۔ اس معمر ترین بزرگ کی مخالفت کرنے کی ہمت کسی میں نہ تھی۔گومحفل پر سناٹا چھایا ہوا تھالیکن لوگوں کے دلوں میں ایک طوفان برپا تھا۔اباجان کی اس چھوٹی سی شرارت نے انتہائی سوچ بچار کے بعد بلائے ہوئے اس جرگے کا ستیاناس کردیا تھا۔

ادھر نواب صاحب خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ اس حادثے کا ذمہ دار کون ہے۔ کس شخص میں اتنی جرات اور اتنی سمجھ تھی کہ وہ سوچ سمجھ کر ان بزرگ کے ذہن میں یہ باتیں ڈال سکتا تھا۔ انھوں نے اباجان کو بلایا اورمختصر انداز میں اپنے تاثرات کا اظہارکچھ یوں کیا۔

” مولوی صاحب آپ نے یہ اچھا نہیں کیا“ ۔

بعد میں کھانے پر نواب صاحب نے اباجان کو مدعو نہیں کیا اور اس طرح گویا اپنی انتہائی ناراضگی کا بھی بر ملا اظہاربھی کردیا۔ ایک مہمان کی اس سے زیادہ بے عزتی ممکن نہیں ہوتی کہ میزبان اسے اپنے دستر خوان پر نہ بلائے۔ اباجان نے اپنا بوریا بستر سنبھالا اور بغیر میزبان سے ملاقات کیے وہاں سے نکل آئے، کبھی نہ واپس لوٹنے کے لیے۔ اس واقعے کے بعد اباجان نے زندگی بھر خار کے نواب صاحب سے ملاقات نہیں کی۔

مولوی امیر الدین صاحب بھی اباجان کے روحانی استادوں میں سے تھے جن سے اباجان نے اکتسابِ علم کیا۔ مولوی صاحب ان تبلیغیوں کی جد و جہد میں بھی ان کے ہم خیال تھے اور وقتاً فوقتاً انھیں اپنے مفید و قیمتی مشوروں سے نوازتے رہتے تھے۔ ادھر صورتحال یہ نظر آرہی تھی کہ ایک طرف تو انگریز بہادر سے چھٹکارہ حاصل کرنا مشکل نظر آرہا تھا اور دوسری طرف ہندو جو مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور حکومت کا ڈسا ہوا تھا اور اب پورے ہندوستان پر بلاشرکتِ غیرے حکومت کرنا چاہتا تھا۔

پٹھان بھی اپنے طور پر کچھ تیاریوں میں مصروف تھے اور انھوں نے امیر الدین صاحب کے مشورے سے علاقے کے عمائدین اور سرداروں کا ایک وفد ترتیب دیا جو ہندوستان بھر میں دورے کرکے جہاد کے لئے روپے پیسے اکٹھا کرنا چاہتا تھا۔ اباجان چونکہ پشتو بھی بہت اچھی طرح بول اور سمجھ سکتے تھے لہٰذہ ریاست حیدرآباد کے سفر میں ترجمان کا کام ان کے سپرد کیا گیا۔

وفد ہندوستان کی ریاست حیدرآباد پہنچا اور اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان صاحب سے ملاقات کی ٹھہری۔ ملااقات کے لیے پہلے سے وقت لیا گیا اور اس طرح ریاست حیدرآباد کے آخری فرمانروا میر عثمان علی خان نے شمال مغربی سرحدی صوبہ سے آئے ہوئے اس وفد کو شرفِ باریابی بخشا۔ وفدکو نظام حیدرآباد آصف جاہ ہفتم میر عثمان علی خانصاحب کے ڈرائینگ روم میں بٹھایا گیا اورانھوں نے ادب سے بیٹھ کر اعلیٰ حضرت کا انتظار شروع کیا۔ڈرائینگ روم پرانے دور کے فرنیچر سے بھرا ہوا تھاجو آصف جاہی جاہ حشمت اور عظمت کے منہ بولتے ثبوت کے طور پر آج بھی موجود تھا لیکن اس وقت اس فرنیچر پر منوں ٹنوں دھول مٹی جمع تھے اور یہ حال سرحد سے آئے ہوئے وفد نے بھی دیکھا اور ناک بھوں چڑھائی۔

اعلیٰ حضرت ڈرایئنگ روم میں جلوہ افرز ہوئے تو اس حال میں کہ انتہائی سادہ لباس زیبَ تن کیا ہوا تھا۔ ویسے بھی اعلیٰ حضرت کی کنجوسی مشہور تھی اور ان کی یہ شہرت وفد کے کانوں تک بھی پہنچ چکی تھی۔ جب سب حاضرین محفل اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تو باقاعدہ بات چیت شروع کرنے سے پہلے وفد کے سربراہ نے پشتو میں اباجان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حالات کے پیشِ نظر انھیں تو یہ لگتا ہے کہ اس ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ یہ بڈھا انھیں کوئی دیالو قسم کا نہیں لگتا۔

اعلیٰ حضرت جنھیں پشتو نہیں آتی تھی انھوںنے دلچسپی لیتے ہوئے وفد کے سربراہ کی طرف دیکھا تاکہ معلوم کریں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ادھر اباجان نے فوراً بات بنائی اور سردار کی طرف سے اچھی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

اعلیٰ حضرت نے اس پر خوشی کا اظہار فرمایا اور معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔سربراہ نے اب اپنی تقریر شروع کی اور موجودہ حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے جہاد کی ضرورت پر روشنی ڈالی اور اس سلسلے میں اپنے محدود وسائل کا حال بیان کیا اور اعلیٰ حضرت سے مالی امداد کی درخواست کی۔ اباجان نے فوراً کسی ماہر ترجمان کی طرح اس پشتو تقریر کا اردو ترجمہ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں پیش کردیا۔

اعلیٰ حضرت نے جواب میں کہا کہ اگرچہ موجودہ حالات میں خود ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں تاہم اس وہ اس درخواست کو رد بھی نہیں کرسکتے اس لیے کہ ان کے یہ مہمان بڑی دور سے چل کر ان کے پاس پہنچے ہیں، لہٰذہ سردست وہ انھیں صرف ایک لاکھ روپے ہی دے سکتے ہیں۔قارئین کرام کی توجہ کے لیے عرض ہے کہ یہ آج سے کوئی لگ بھگ ستر سال پہلے کا واقعہ ہے جس وقت ایک لاکھ روپے خاصی اہمیت رکھتے تھے۔ 

یہ سننا تھا کہ وفد کے سربراہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انھوں نے فرطِ جذبات میں اعلیٰ حضرت کے ہاتھ چوم لیے اور معافی کے طلبگار ہوئے کہ ملاقات کے شروع میں انھوں نے کچھ گستاخانہ کلمات کہے۔اباجان نے اس کا ترجمہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت کاشکریہ ادا کیا اور ان کی بہتر صحت کے دعا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اعلیٰ حضرت نے ان حضرات کی تشریف آوری کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کیا اور اس طرح سے یہ ملاقات اپنے انجام کو پہنچی۔

ادھر پٹھان گروپ تو میر عثمان علی خان سے خوش و خرم واپس روانہ ہوا ادھر اباجان اور ان کے گروہ نے بھی اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں۔ ان کی جماعت کا اصل مقصدہندوستان کے تمام ہندووﺅں کو مسلمان کرنا تھا اور اس کے دو طریقے نظر آتے تھے۔ ایک تو تبلیغ کے اس کام کے ذریعے سے جو اباجان اور ان کے ساتھیوں نے ایک عرصے سے جاری رکھا ہوا تھا اور دوسرا جہاد کا راستہ تھا۔ قومی اور بین الاقوامی حالات کو دیکھ کر یہی اندازہ ہورہا تھا کہ جہاد کا وقت قریب سے قریب تر آتا چلا جارہا ہے۔ اس کے لیے ایک طرف تو مسلمانوں یعنی بر صغیر کے مسلمانوں کو عمومی طور پر اور افغانوں کو خاص طور پر خوابِ غفلت سے جگانا، انھیںجذبہ جہاد سے سرشار کرنااور ایک لشکرِ عظیم تیار کرنا تھا جو ایک طرف تو انگریزوں کا مقابلا کرسکے اور دوسری طرف ہندوﺅں کو مات دیکرپورے ہندوستان میں غلبہ اسلام کی راہ ہموار کرسکے۔اس کے علاوہ اس عظیم لشکرکی تیاری اور اس کے لیے اسلحہ کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج تھا جو اس وقت ان مجاہدوں کو درپیش تھا۔ اباجان نے مولوی امیر الدین صاحب کے ساتھ مل کراس سرحدی علاقے میں اسلحے کا ایک کارخانہ لگانے کا پلان بنایا۔مولوی امیر الدین کے ذہنِ رسا کا بنایا ہوا یہ پلان بہت خوب تھا لیکن اس میں ایک معمولی سا سقم تھا۔ اس بڑے پیمانے پر اسلحہ کے کارخانے کے لیے ایک اچھی خاصی رقم درکار تھی اور رقم اس وقت ان کے پاس نہیں تھی۔ 

اباجان کے ذہنِ رسا نے بھی اس وقت اپنا کام دکھایا اور وہ بہت دور کی کوڑی لائے۔ پیر صاحب اور اباجان کی جماعت کے دیگر ساتھی ایک عرصے سے جہاد کی تیاری کے لیے چندہ مانگ رہے تھے اور اب تک پیر صاحب کے پاس ایک اچھی خاصی رقم جمع ہوچکی ہوگی۔ انھوں نے فنڈز کی فراہمی کاکام اپنے ذمے لے لیا اور اسی وقت بیٹھ کر پیر صاحب کو ایک لمبا چوڑا خط لکھا اور اس میں اسلحہ کی فراہمی کی شدید ضرورت کے پیش نظر قبایئلی علاقے میں اسلحہ کی فیکٹری کے قیام پر زور دیتے ہوئے اس کے لیے رقم کی ضرورت کا تذکرہ کیا اور پیر صاحب پر زور دیا کہ اس مد میں جمع کیے ہوئے روپے کسی ساتھی کے ہمراہ وہاں بھجوادیے جائیں تاکہ اس عظیم کام کی ابتداءکی جاسکے۔

یہ خط لکھ کر اباجان نے اپنے ایک تحریکی ساتھی کو چنا اور ان کی معرفت پیر صاحب تک وہ انتہائی اہم خط بھجوا دیا اور خود اس عرصے میں انتظار اور دیگر کاموں کی تیاری میں لگ گئے۔ ان کی خیال میں پیر صاحب جو خود اپنی کی ہوئی پیشن گوئیوں کے مطابق تمام ہندوستان کے مسلمان ہونے اور اپنے ہاتھوں فتح ہونے کے ایک عرصے سے انتظار میں تھے یہ سنہری موقع دیکھتے ہی خوشی سے جھوم اٹھیں گے اور فورا ً ہی فنڈز بھجوا کر اسلحہ کے اس کارخانے کی پہلی کھیپ کا انتظار کریں گے۔

پیر صاحب کا جواب آنے میں کافی تاخیر ہوئی تو اباجان کا ماتھا ٹھنکا لیکن پھر بھی انھوں نے حسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے اسے معمول کی انتظامی تاخیر سمجھا اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔آخر کار کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اورکوئی ڈھائی تین ماہ بعد اباجان کے ایک ساتھی پیر صاحب کا جواب لیکر حیدرآباد سے واپس پہنچ گئے۔

اباجان نے فوراً ان صاحب سے حال احوال پوچھا تو انھوں نے پیر صاحب کی تازہ چھپی ہوئی کتاب ” امام الجہاد“ کی کئی کاپیاں اباجان کی خدمت میں پیش کیں اور ساتھ ہی یہ کہتے ہوئے کہ جہاد کے لئے جمع کیے ہوئے پیسوں سے پیر صاحب کی اسی مقصد سے لکھی ہوئی کتاب کی اشاعت ممکن ہوپائی ہے لہٰذہ انھوں نے سردست اس معرکتہ الآراءکتاب کی چند کاپیاں اور چھ سو روپے بھجوائے ہیں اور ہدایت کی ہے کہ اس کتاب کی مدد سے مقامی لوگوں کو خوابِ غفلت سے جگا کر ان سے چندہ وصول کیا جائے تاکہ وہ اس مد میں استعمال ہوسکے۔

اباجان کے تو سر سے لگی ہے اور تلوؤں سے بجھی۔ ان کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک رنگ جاتا تھا۔ انھوں نے انتہائی غصے کی حالت میں وہ چھ سو روپے اٹھا کر پھینک دیئے جو ان کے ساتھی نے موقع غنیمت جان کر فوراً اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیے۔پھر اباجان نے اسی وقت پیر صاحب کو ایک خط لکھا اور ان کو ” کاغذی امام الجہاد “ قرار دیتے ہوئے انھیں آگاہ کیا کہ تیر و تلوار سے جہاد ان کے بس کی بات نہیں ہے اور ان سے استدعا کی کہ وہ جہاد وغیرہ کا خیال دل سے بالکل نکال دیں ۔آخر میں دعا کی کہ اللہ ان کے اور اباجان کے حال پر رحم فرمائے۔

کہتے ہیں کہ جب یہ خط ان کے پیر صاحب کو ملا تو انھوں نے یہ خاص طور پر اپنے مریدوں کو پڑھوایا کہ دیکھئے ایسے بھی مرید ہوتے ہیں جو اپنے پیر کو کاغذی امام الجہاد لکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔انھوں نے یہ خط انتہائی احتیاط سے اپنی دراز میں سنبھال کر رکھ لیا تا کہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔

بہرحال قادیانیت کے مسئلے کے بعد اس واقعے سے ایک طرف تو اباجان پر اپنے پیر کی مزید کرامات ظاہر ہوئیں اور دوسری طرف پیر صاحب کے تئیں خود ان کے اس خیال کو بھی مزید تقویت ملی کہ اباجان چونکہ گاؤں کے رہنے والے ایک لٹھ مار قسم کے انسان ہیں لہذہ ان کا سدھرنا ناممکن ہے۔

بہر حال اس طرح اباجان کا اسلحے کی تیاری اور اسمگلنگ کا خواب ادھورا ہی رہ گیا اور وہ وہاں سے بے نیل و مرام واپس لوٹے ، مزید یہ کہ اسکے بعد نہ توقبائل سے کوئی لشکرِ جرار دشمن کی سر کوبی کے لیے ہندوستان کی جانب روانہ ہوسکا اور نہ پیر صاحب کی پیشن گوئی کے مطابق پوراہندوستان ہی مسلمان ہوسکا۔اباجان جو اس سے پہلے کئی خزانوں اور دولت کے انبار کو ٹھکرا چکے تھے انھوں نے کبھی ترپتی اور ہمپی کا والی بھنڈار کے مندروں میں چھپے خزانوں کو درخورِ اعتناءنہیں سمجھا، ہاں البتہ باقی مریدوں کے لیے اس خزانے کا نہ ملنا ایک بہت بڑا نقصان تھا۔

اباجان سمجھتے تھے کہ ان علاقوں میں ابھی ان کا کام مکمل نہیں ہوا ہے، وہ علامہ اقبال کے بقول ” ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“ پر یقین رکھتے تھے اور ان لوگوں سے ابھی مایوس نہیں ہوئے تھے۔ وہ مزید کچھ عرصہ اس علاقے میں رہے اور اپنا کام کرتے رہے۔ ان کا دودھاری مشن اس بات کا متقاضی تھا کہ وہ اس علاقے کے مزیددورے کریں اور آنے والے دنوں نے ثابت کیا کہ نہ صرف دینی لحاظ سے بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی انھوں نے اس علاقے میں کئی کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔

۱۹۵۰ءمیں پاکستان آنے کے بعد بھی اباجان نے اس علاقے کے کئی چکر لگائے جن کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔پاکستان بننے سے پہلے آخری دورہ انھوں نے ۱۹۴۷ءمیں کیا اور جون میں میرا جان سیال صاحب کے گھر میں انھوں نے ۳ جون کا تاریخی اعلان سنا اوروہاں سے بوریا بستر سمیٹ کر حیدرآباد روانہ ہوئے تاکہ اس نئی صورتحال کے مقابلے کے لیے خود کو تیار کرسکیں۔

No comments:

Post a Comment