Tuesday, March 27, 2012

فسانہ آزاد::باب پنجم:: فتنہ قادیانیت اور اباجان کی جد و جہد

باب پنجم۔فسانہ آزاد
فتنہ قادیانیت اور اباجان کی جد و جہد

محمد خلیل الر حمٰن

]ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اباجان موجودہ ہزارہ ڈویژن کی کسی تحصیل میں موجود تھے اور ایک جلسہ گاہ میں تقریر کے لیے ان کا نام پکارا جاچکا تھا اور وہ اسٹیج پر جاکر کھڑے ہوئے ہی تھے کہ اسٹیج کے سامنے ایک لحیم شحیم بزرگ کھڑے ہوئے اور بآواز بلند کہنے لگے۔

” حضرات! تقریر کی دعوت دینے سے پہلے ذرا اس سے یہ تو پوچھ لیجئے کہ یہ مرزا کو کیا سمجھتا ہے۔“

اس سے پہلے کہ صدرِ محفل دخل اندازی فرماتے ، اباجان نے برملا ان صاحب کو مخاطب کرکے کہا۔

” قبلہ ! کون مرزا؟ میرے خاندان میں تو اس نام کا کوئی نہیں ہے۔ کیا یہ آپ کا کوئی رشتہ دار ہے؟“

”حضرات! یہ لونڈا میرے پوتے کی عمر کا ہے ۔ میں نے دس سال منطق پڑھائی ہے، یہ مجھے منطق پڑھا رہا ہے۔ اس سے پوچھیئے کہ یہ مرزا غلام احمد قادیانی کو کیا سمجھتا ہے۔ میرا گمان ہے کہ یہ قادیانیوں کی ہم خیال جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو ہمیں اس کی تقریر نہیں سننی ہے۔“

”جناب آپ سے درخواست ہے کہ اس سوال کا سیدھا سا جواب دے کر اپنی تقریر شروع کیجیے۔“ صدرِ محفل نے معاملے کو نمٹاتے ہوئے کہا۔“

” حضراتِ گرامی! اگرچہ اس سوال کا میری آج کی تقریر سے کوئی تعلق تو نہیں بنتا ، اسلیے کہ میری آج کی تقریر سیرتِ نبویﷺ سے متعلق ہے۔ پھر بھی اگر آپ کا اصرار ہے تو میں یہ برملا ، اللہ کو حاضرو ناضر جان کرکہے دیتا ہوں کہ میںمسمی محمد اسمٰعیل آزاد مرزا غلام ا حمد قادیانی کو

کافر ، کاذب اور دجال سمجھتا ہوں اور اس کو نبی ماننے والے کوپکا کافر گردانتا ہوں۔ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول تھے
اورنہ ان کے بعد کوئی نبی آیا ہے اور نہ قیامت تک کوئی اور نبی آسکے گا۔اب حضرات میں اس مسئلے کو ایک طرف چھوڑ کر اپنی آج کی تقریر کی طرف آتا ہوں ۔ میری آج کی تقریر کا عنوان ہے۔۔۔۔ “

لیکن اتنے میں سوال کرنے والے صاحب جو اسٹیج پر چڑھ چکے تھے اور دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے اباجان کی طرف بڑھ رہے تھے ، اباجان کے قریب پہنچ گئے اور انھیں فرطِ محبت سے لپٹالیا اور آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہنے لگے۔“

”معاف کیجیے گا حضرت، آپ تو میرے بھائی ہیں۔ میں آپ کو غلط فہمی میں اللہ جانے کیا سمجھتا تھا۔ “

اباجان نے بھی ان سے معانقہ کیا اور انھیں اپنے سے لپٹاے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ ان صاحب نے ا باجان کی داڑھی کو فرطِ عقیدت سے اپنے دونوں ہاتھوں سے چھوا اور اطمینان کے ساتھ اسٹیج سے نیچے اتر گئے۔ان کی تسلی ہوچکی تھی اور اب وہ نہایت مطمئن انداز میں بیٹھے اباجان کی تقریر سن رہے تھے۔

در اصل اباجان کے پیر صاحب جو بزعمِ خود اپنے آپ کو مامور من اللہ سمجھتے تھے اور من جانب اللہ کشف و الہام سے نوازے جانے کا دعویٰ کرتے تھے ( وللہ اعلم بالصواب)، مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی وغیرہ تو نہیں البتہ مامور من اللہ ضرور سمجھتے تھے اور اسی لئے ان کی اور ان کی جماعت کی جانب لوگوں کا گمان ِ غالب یہی تھا کہ وہ قادیانی ہیں۔ ادھر اباجان بچپن اور لڑکپن ہی سے کسی اور ہی راہ پر لگ چکے تھے، پھر پیر صاحب اور دیگر مریدوں کے برعکس بے انتہاءمطالعے کی عادت نے ان کو اس علمی مرتبہ پر پہنچادیا تھا کہ خود پیر صاحب بھی علمی محاذ اور علمی میدان میںانکے معتقد و معترف تھے، لہٰذہ اباجان دینی اعتقادات و مسائل اور فلسفہ میں اپنا ایک منفرد انداز اور طور طریقہ رکھتے تھے جو دیگر لوگوں کے غیر علمی انداز سے بالکل مختلف تھا۔ وہ اللہ کے رسول ﷺ کی ختم رسالت پر پختہ یقین رکھنے اور دیگر بدعات سے بریت کے باوصف ان خرافات سے کوسوں دور تھے۔

جلسے کے فوراً بعد اباجان کے ایک ساتھی نے انھیں الگ لے جاکر راز دارانہ انداز میں پوچھا کہ یہ کیاآپ نے مرزاغلام احمد قادیانی کو واقعی کافر ، کاذب اور دجال کہا ہے؟ اباجان کے ہاں کہنے پر وہ دوبارہ پوچھنے لگے کہ کیا واقعی آپ نے شرح ِ صدر کے ساتھ یہ کہا ہے یا وقتی مصلحت کے تحت ایسا کہا ہے۔ اباجان نے مسکراتے ہوئے انھیں بتایا کہ انھوں نے پورے شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہی ہے۔



پھر کیا تھا، اباجان کے ان ساتھی کی بدولت یہ خبر انکے پیر صاحب تک پہنچی

کہ اکبرنام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں۔

انھوں نے اباجان کے حیدرآباد آنے پر ان کی سرزنش کا پرو گرام بنالیا۔ جب اباجان اپنا دورہ مکمل کرکے حیدرآباد واپس پہنچے تو حسب توقع ان سے پیر صاحب نے وہی سوال کیا جو جلسے کے بعد ان کے ساتھی نے کیا تھا۔ اباجان کا جواب اب بھی وہی تھا کہ انھوں نے شرح صدر کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر، کاذب اور دجال کہا تھا۔

صورتحال کافی سنگین تھی لہٰذہ اس مسئلے پر غور کے لیے کئی بزرگ اصحاب پر مشتمل ایک کمٹی( کمیٹی) بنا دی گئی۔ اس کمٹی نے پہلے تو آپس میں اس مسئلے پر غورو خوض کیا لیکن جب کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکی تو اس نے ایک مناظرہ کروانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس مناظرے میں ایک طرف تو پیر صاحب اور ان کے بزرگ اصحاب وغیرہ شامل تھے تو دوسری جانب اباجان اور ان کے چند سرپھرے دوست شامل تھے۔

مناظرہ شروع ہوا تو کئی روز تک چلا۔ ہر روز نمازِ عشاءکے بعد مناظرہ شروع ہوتا اور رات گئے تک جاری رہتا۔ اباجان کی علمیت اور دینیت کا معاملہ تھا، وہ کیسے ہار جاتے۔ آج ا نھوں نے اپنا سب کچھ داﺅ پر لگا کر بھی یہ بازی جیت لی تو یہ گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں ہوگا۔انھوں نے اپنے یقین اور ایمان کے سہارے اپنی علمیت کو ٹٹولا اور وہ تمام دلائل و براہین نکال لائے جن کی انھیں اس وقت جتنی شدید ضرورت تھی شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ ہزارہ میں تو یقین کے ساتھ اقرار کے دوجملے کافی تھے لیکن یہاں ان ڈھلمل یقین لوگوں میں اباجان کو ٹھوس ثبوت و شواہد اور بین نشانیاں چاہیئے تھیں جو اللہ رب العزت نے ان کے ذہنِ رسا کو اس وقت عطا کیں ۔ انھوں نے اللہ کی مددکے سہارے اپنی بحث شروع کی اور کئی دن تک جاری رہنے کے بعد ایک عشاءکی نماز پڑھ کر اپنے دلائل کو سمیٹا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوچکا تھا۔ حق آچکا تھا اور باطل مٹ چکا تھا اور بے شک باطل مٹنے ہی کے لیے تھا۔ پیر صاحب بمع حاضرین محفل، اس بات کے قائل ہوگئے کہ غلام احمد قادیانی کذاب کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔نہ وہ نعوز باللہ نبی ہے اور نہ ہی وہ نعوذباللہ مامور من اللہ ہے۔ وہ کافر کاذب اور دجال ہے۔ طے پایا کہ اگلے روز نمازِ فجر کے بعد پیر صاحب اس بات کا باقاعدہ اعلان فرمایئں گے۔
اگلے دن صبح فجر کی نماز ادا کی گئی اور اس کے بعد اباجان اور ان کے باغی گروپ کی توقعات کے عین خلاف پیر صاحب نے اعلان کیا کہ

رات انھیں خواب میں کشف ہوا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر کہنا درست نہیں، لہٰذہ وہ اپنے رات کے فیصلے سے رجوع کرتے ہیں۔

اس کے جواب میں اباجان نے بھی نہایت سخت موقف اختیار کیا اور صاف صاف لفظوں میں پیر صاحب پر واضح کردیا کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کافر ہے۔ پیر صاحب کا کشف ان کے ساتھ، اگر اباجان پر اس قسم کا کشف ہوتا ہے تو وہ بھی اس سلسلے میں غور کریں گے، تب تک وہ مرزا کو کافر کہتے ، سمجھتے اور لکھتے رہیں گے
۔

No comments:

Post a Comment