Tuesday, March 27, 2012

فسانہ آزاد:: باب دوم:: مافوق الفطرت عناصر اور ابا جان

باب دوم۔فسانہ آزاد
مافوق الفطرت عناصر اور اباجان
محمد خلیل الر حمٰن

اباجان کے بچپن میں ایک دن کا واقعہ ہے کہ اباجان سارا دن اسکول اور پھر اسکے بعد کھیل کود میں مصروف رہے اور مغرب کی نماز کے بعد گھر میں داخل ہوئے۔ تھوڑی ہی دیر میں چاروں طرف گھپ اندھیرا چھا گیا اور رات کا سناٹا اپنا جادو جگانے لگا۔ اباجان نے گھر والوں کے ساتھ کھانا کھایا اور ٹہلنے کے لیے گھر کے آنگن میں پہنچ گئے۔ چاند ابھی نکلا نہیں تھا اور کمروں کے دروازوں پر پڑی چلمنوں سے چھن چھن کر آتی ہوئی ہلکی ہلکی روشنی ماحول پر ایک عجیب سا تاثر ڈال رہی تھی۔ اباجان ٹہلتے ہوئے گھر کی بیرونی دیوار تک پہنچے توآنگن میں موجود ایک بڑے درخت کے ساتھ باہر کی دیوار پر انھوں نے اپنی زندگی کا سب سے عجیب نظارہ دیکھا۔ رات کے اندھیرے میں دیوار پر ان کے چھوٹے چچا جھانک رہے تھے ۔ ان کا چہرہ عجیب انداز میں مسخ شدہ لگ رہا تھا اور اندھیرے میں چمک بھی رہا تھا۔ جونہی اباجان کی نظر اپنے چھوٹے چچا کے چہرے پر ٹھہری انھوں نے خوفناک انداز میں ہنستے ہوئے اباجان کی طرف دیکھ کر منہ چڑادیا۔ 

اباجان کو چھوٹے چچا کی اس گندی حرکت پر بہت غصہ آیا اور انھوں نے فوراً چچا کو سبق دینے کی ٹھانی۔ انھوں نے اسی وقت اپنی اماںجان کو آواز لگائی۔
” اما ں جان! دیکھو چھوٹے چچادرخت پر چڑھے ہوئے بیٹھے ہیں اورمجھے منہ چڑا رہے ہیں اور بری بری شکلیں بنا رہے ہیں ۔ “

کچھ دیر کے لیے گویا ماحول پر چھایا ہوا سناٹا اور زیادہ گہرا ہوگیا تھا۔ درخت پر موجود ہیولیٰ اپنی ہیبت ناک شکل کے ساتھ اباجان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں اباجان کی دادی اماں لپکتی ہوئی باہر نکلیں اور اباجان کا ہاتھ پکڑ کر اندر کی طرف لے چلیں۔ساتھ ہی وہ اباجان کو بہلانے کے لیے کہتی جارہی تھیں۔

” اچھا اچھا! اسے ڈانٹ دیں گے۔ اب کمرے میں آجاﺅ رات بہت ہوگئی ہے۔“
انھوں نے اباجان کو ان کے بستر تک پہنچایا اور انھیں لٹاتے ہوئے کہا۔” چلو اب سوجاﺅ۔“
اباجان بستر پر لیٹ گئے اور سونے کی خاطر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ تقریبا ً دس پندرہ منٹ تک اسی طرح لیٹے رہنے کے باوجود نیند ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اسی اثناءمیںانھیں دادی اماں کی غصہ بھری آواز سنائی دی جو اماں جان کے لتے لے رہی تھیں۔

” بچوں کا خیال نہیں کرتی ہو اور انھیں باہر اندھیرے میں اکیلے بھیج دیتی ہو۔ اب اسے درخت پر چھوٹا نظر آرہا ہے جبکہ چھوٹا تو بہت دیر سے اندر سورہا ہے۔ بچوں کو ہرگز باہر اندھیرے میں مت بھیجا کرو۔جانے کون کون سے بھوت پریت اس وقت وہاں موجود ہوتے ہیں۔“

اباجان نے آنکھیں بند کیے ہوئے یہ سنا تو ان کی سٹی گم ہوگئی۔ کیا وہ چھوٹے چچا نہیں تھے؟ یہی روح فرسا خیال انھیں اس رات بہت دیر تک تنگ کرتا رہا اور وہ جاگتے رہے۔ بار بار ان کی نگاہ باہر کے دروازے کی طرف اٹھ جاتی اور وہ گھبرا کر نظر پھیر لیتے۔ جانے کب تک وہ جاگتے رہے اور جانے کب وہ سوئے لیکن صبح جب وہ اٹھے تو سارا جسم بخار سے تپ رہا تھا۔ کئی دن تک اس بخار میں پھنکنے کے بعد ہی اباجان کو اس بیماری سے نجات ملی اور اس طرح اباجان نے اپنی زندگی میں پہلی اورغالباً آخری مرتبہ کسی مافوق الفطرت ہیولے کو اپنے روبرو دیکھا۔

گو اس موقعے پر اباجان بہت ڈر گئے تھے اور نتیجتاً کئی دن تک بخار کی کیفیت میں مبتلا رہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ آیئندہ کبھی بھی اباجان جن بھوت وغیرہ سے نہیں ڈرے اور نہ ہی انھیں اپنی زندگی میں کسی قسم کی اہمیت دی۔ حالانکہ انکا ارد گرد کا ماحول وہی دقیانوسی قسم کا ماحول تھا جس میں پل بڑھ کر گاﺅں کے سیدھے سادھے ضعیف الاعتقاد لوگ بھوت پریت وغیرہ اور ان کی کارستانیوںپر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اکثر و بیشتر ان کے جھوٹے سچے چنگلوں میں بھی پھنسے ہوتے ہیں۔

اباجان اپنے لڑکپن میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مہم جوئی پر نکلتے تو ان کا پہلا نشانہ گھنے جنگلوں میں موجود ہندوﺅں کے مندر ہوتے جہاں پر ان لڑکوں کو کھانے کے لیے بہترین کھانوں اور پھلوں کی اچھی خاصی مقدار مل جاتی جو ہندو ان مندروں میں چڑھاوے کے طور پر چڑھایا کرتے تھے۔ گروہ کے تمام لڑکے ان پھلوں اور دیگر نعمتوں پر پل پڑتے اور پلک جھپکتے میں انھیں چٹ کر جاتے۔اس وقت نہ انھیں بھوت پریت کا کوئی ڈر ہوتا اور نہ ہی ہندوﺅں کی ان بری ارواح کا جوان سنسان مندروں اور شمشان گھاٹوں میں منڈلایا کرتی ہوں گی ۔اس طرح گویا اباجان نے گاﺅں کے ماحول میں آنکھ کھولنے کے باوجود راسخ العقیدہ مسلمان کے طور پر جن بھوت پریت اور اس قسم کی تمام مخلوقات کے انسان پر حاوی ہونے کے تصور کو مکمل طور پر رد کیا۔


اباجان کے پہلے روحانی استاد جناب عبدالغفور محمد حضت( حضرت) کی تعلیمات کا اثر اباجان پر ساری عمر رہا اور اپنے تمام تر بنیادی خیالات، تصورات، اعتقادات و ایمانیات اباجان نے انھی سے اخذ کیں اور ساری زندگی انھی پر اپنے پورے پختہ یقین کے ساتھ عمل پیرا رہے۔ دینی استاد مولانا غفور محمد حضرت جو دیوبندی عقیدے کے سیدھے سادے عالم تھے، انھوں نے اباجان کو ساری زندگی کے لیے ایک پختہ عقیدہ اور لائحہ عمل عطا کیا۔اللہ رب العزت کی وحدانیت اور اس کے آخری رسول ﷺ کی بشریت، ختم ِرسالت، حُرمت اور معصومیت پر پختہ یقین اور بدعات سے بریت اس عقیدے کے خاص جزو تھے۔

اپنے لڑکپن میں اباجان نے جن لوگوں سے اثر لیا ان میں ایک صاحب گڑبڑ شاہ بھی تھے جو ایک راجپوت ہندو کے گھر پیدا ہوئے ، اللہ نے ان پر کرم کیا اور انھیں اسلام قبول کرنے کی توفیق بخشی۔فوج میں ایک سپاہی کے طور پر اپنی خدمات پیش کرچکے تھے اور پھیر پٹے اور ڈنڈے بازی، تلوار بازی اور لٹھ بازی اور اس قسم کے دیگر فنون سے بخوبی واقف تھے ۔ لوگوں کو نہ صرف ان فنون میں مہارت بہم پہنچاتے بلکہ انھیں جن بھوت و دیگر توہمات سے دور رہنے کی تلقین کرتے اور یقین دلاتے کہ حضرتِ انسان خود ان بھوت پریت وغیرہ سے زیادہ طاقتور ہے۔انسان اشرف المخلوقات ہے۔ لہذہ انسانوں کو چاہیئے کہ وہ اپنی صحت بہتر بنانے پر خاص توجہ دیں، دوسروں کی مدد کریں، ہنر سیکھیں اور کوشش کرکے حلال روزی کمائیں۔محرم کے جلوسوں اور عرس وغیرہ میں شریک ہوتے ، میلاد پڑھتے اور اپنے فن کا مظاہرا کرتے،چندہ کرتے اور مسجدیں بنواتے یا ان کی مرمت کا بندوبست کرتے۔چندہ جمع کرنے کے لیے ہرو قت ہاتھ میں کوڑا ہوتا ، اگر کوئی چندہ دینے میں پس و پیش کرتا تو بقول اکبر چچا پہلے تو اس کوڑے سے اپنے آپ کو پیٹتے اور پھر اسی سے چندہ نہ دینے والے کی توضع فرماتے۔ 

ایک مرتبہ اباجان اور ان کے گروہ کے لڑکے ان حضرت کے ساتھ بازار میں گشت کر رہے تھے کہ ان کی نظر ایک پیر صاحب پر پڑی جو ایک عورت پر آئے ہوئے جن کو اتارنے کی کوششوں میں مصروف تھے ۔ ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جسے وہ آزادانہ طور پر اس عورت پراستعمال کر رہے تھے اور کہتے جاتے تھے۔

” نکل یہاں سے ۔ خبردار جو اب اس عور ت پر حاوی ہونے کی کوشش کی ۔ نکل یہاں سے مردود۔“

اُدھر وہ مردود کافی ڈھیٹ واقع ہوا تھا اور پیر صاحب کی ان تمام کوششوں کے باوجود اس عورت کے جسم پر قبضہ کیے بیٹھا تھا۔ادھر وہ بیچاری عورت مار کھاتی جاتی تھی اور تکلیف اور بے عزتی کے دکھ کے مارے روتی اور چیختی جاتی تھی ۔گڑبڑ شاہ صاحب ایک لمحہ کو وہاں رکے، صورتحال کا جائزہ لیا اور پھر آﺅ دیکھا نا تاﺅ اور اس جعلی پیر پر پل پڑے اور اسی کی چھڑی سے مار مار کر اسکا حلیہ بگاڑ دیا۔ کافی پیٹنے کے بعد اسے اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ بھاگ سکے۔ پھر اس عورت کے شوہر پر اپنی توجہ مرکوز کی اور اسے پیٹتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے۔

” نکل یہاں سے ۔ خبردار جو اب اس عور ت پر حاوی ہونے کی کوشش کی ۔ نکل یہاں سے مردود۔“

بہت پیٹ چکے تو اسے لعنت ملامت کی کہ کیوں اس بھرے بازار میں اپنی عورت کی عزت لٹانے پر تلا ہوا تھا۔اسے بھی اپنی عورت سمیت بھگا کر لاری میں بیٹھے اور گاﺅں سے روانہ ہوئے۔

ادھر اباجان اس قضیئے سے فارغ ہوکر گھر پہنچے ہی تھے کہ گھر پر پولیس وارد ہوگئی اور اباجان کا نام لے کر انھیں گھر کے اندر سے بلایا تو دادا جان حیرت سے دنگ رہ گئے ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ گھر پر پولیس آئی تھی۔ کس قدر بے عزتی اور بدنامی کا موقع تھا۔ اس کی وجہ وہ اباجان کو قرار دے رہے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ آخر اباجان نے کون سا ایسا بدنامِ زمانہ کام کیا ہے کہ پولیس گھر پر آئی ہے۔

ادھر اباجان حیران تھے اور کہہ رہے تھے کہ انھوں نے تو کچھ بھی نہیں کیا، انھوں نے تو کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ پولیس ان کے پیچھے آئے۔ آخر جب پولیس نے اپنے سوالات شروع کیے تو یہ عقدہ کھلا۔ وہ انھی گڑبڑ شاہ کی تلاش میں آئی تھی جنھوں نے آج بازار میں کچھ لوگوں کو مارا پیٹا تھا۔ اباجان اور ان کے دیگر ساتھیوں نے پولیس کو بتایا کہ گڑبڑ شاہ تو گاﺅں چھوڑ چکے اور کسی نامعلوم منزل کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔

محرم ، بقول اباجان کے، جس اہتمام اور شان و شوکت کے ساتھ باسم میں منائے جاتے تھے شاید ہی کسی اور علاقے میں منائے جاتے ہوں۔ محرم کا چاند نظر آتے ہی گویا گھروں کے باورچی خانوں کو تالا لگ جاتا اور سب گھر والے باہر لنگروں اور محرم کے احترام اور منت کے بنائے ہوئے کھانے کھاتے، جو انھیں باصرار اور با منت و سماجت کھلائے جاتے۔” ارے ادھر آرے بیٹے، ذرا دو نوالے تو کھالے۔“

محرم شروع ہونے سے کئی دن پہلے خواتین منت کے میٹھے بنانا شرو ع کرتیںتاکہ محرم شروع ہونے سے پہلے ان کے پکوان مکمل ہوجایئں۔ جنھیں باقاعدہ فاتحہ دلوا کر یومِ عاشور کو لوگوں کو کھلایا جانا ہوتا۔ ایسے ہی ایک محرم میں دادی اماں نے اہتمام کے ساتھ کمرہ کی لیپا پوتی مکمل کی اور میٹھا آٹا گوندھ کر رات کو چولھا جلا کر اس پر کڑھائی میں گھی کڑکڑایا اور روٹ تلنے شروع کیے۔ اِدھر اباجان فٹبال کے میچ سے تھک کر فارغ ہوکر چپکے سے کمرے میں آئے اور سردی سے بچنے کے لیے قریب ہی سر سے پاﺅں تک چادر اوڑھ کر لیٹ گئے اور آنکھیں بند کرکے چولھے کی گرماہٹ کے مزے لینے لگے۔ ادھر دادی اماں نے تلے ہوئے روٹ ایک جگہ ترتیب سے جمانے شروع کیے اور ان کی میٹھی میٹھی خوشبو اباجان کی ناک میں پہنچی تو وہ نیند وغیرہ سب بھول کے اس مٹھاس کے مزے لینے لگے۔ اشتہاءانگیز خوشبو سے بھوک اورزیادہ چمک اٹھی تو اباجان نے ہاتھ بڑھایا اور چار چھ روٹ اٹھا کر اپنے سینے پر رکھ لیے اور مزے لے لے کر کھانے لگے۔ 

دوتین دفعہ دادی اماں نے گمان کیا کہ شاید بلی اندر گھس آئی ہے لہٰذہ انھوں نے ہش ہش کرکے اس خیالی بلی کو بھگایا۔پھر بھی جب کٹر کٹر کی آواز ختم نہ ہوئی تو انھوں نے چور پکڑ لیا۔ یکبارگی جو چادر پکڑ کر کھینچی ہے تو دیکھا کہ اباجان مزے سے روٹ اپنے سینے پر رکھے کھارہے ہیں۔ محرم کے یہ روٹ یومِ عاشور کو فاتحہ کے بعد کھائے جانے تھے۔ دادی ماں نے ان کی بے حرمتی ہوتے دیکھی تو کلیجا تھام لیا اور ” ھائے اما م حسین“ کہہ کر اباجان کے ہاتھ سے باقی ماندہ روٹ چھینے اور ماتم کرنے لگیں کہ ھائے اب کیا ہوگا۔ اباجان نے سمجھایا کہ کچھ نہیں ہوگا لیکن دادی اماں کی حالت دیکھ کر ان کے سامنے اعلان کیا کہ اب یہ روٹ ان کے لیے حرام ہیں اور وہ ان کو ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے۔ چنانچہ یہی ہوا اور سارا محرم دادی ان سے التجاءکرتی رہیں کہ وہ یہ فاتحہ کے روٹ چکھ لیں لیکن اباجان نے پھر وہ روٹ نہ چکھے۔ دادی اماں نے یہ حال اور اباجان کا تیقن دیکھا تو ان فاتحہ وغیرہ کی رسموں پر سے ان کا بھی اعتقاد جاتا رہا۔

محرم کے جلوس بھی بڑی د ھوم دھام سے نکالے جاتے۔ ڈھول تاشوں اور باجوں گاجوں کے ساتھ شہدائے کربلاءکی سواریاں نکالی جاتیں۔ ان سواریوں کو اس شان اور اہتمام سے بنایا جاتا کہ دور سے دیکھنے پر یوں لگتا گویا کوئی سر اور ہاتھ کٹا شہسوار ہے جو شان سے چلا جاتا ہے۔ اس ڈھول تاشے کی محفل میں کئی ایک بڑے بوڑھوں کو حال آجاتا، گویا شہداءکی روح ان میں سماجاتی۔ پھر بڑے احترام و اہتمام کے ساتھ ان حال آنے والے حضرت پر سوار کو کسا جاتا اور اس طرح سے جلوس اپنی منزل کی طرف گامزن ہوتا۔ چھوٹی سواریوں کو لے جاکر بڑی سواری سے ملاقات کروائی جاتی اور اس طرح جلوس آگے بڑھتا۔ اکثر حال آئے لوگوں کو قابو کرنا مشکل ہوتا تو کئی ہٹے کٹے لوگوں کی ڈیوٹی لگائی جاتی کہ وہ ان کو سنبھال کر منزل مقصود کی طرف گامزن رکھیں۔ 

ایک دفعہ محرم میں شبِ عاشور کو کسی بڑے بزرگ کو حال نہیں آیا، ابھی شرکائے جلوس اس شش و پنچ میں تھے کہ کیا کریں، اتنے میں اباجان کے ایک ساتھی شاہ نور کو حال آگیا۔ فوری طور پر چاروں طرف لوگوں کا گھیرا ڈال کر اسے قابو کیا گیا۔ ادھر گاﺅں کے بڑے بوڑھوں نےدیکھا کہ اس دفعہ ایک لڑکے کو حال آیا ہے تو انھوں نے فوراً اس کے تمام ہم عمر ساتھیوں کو بلایا جن میں اباجان بھی شامل تھے، اور انھیں ہدایت کی کہ اب اس حال آئے ہوئے شاہ نور کو سنبھالنا تمہارا کام ہے۔ لہٰذہ سب لڑکوں نے اس کے گرد گھیرا ڈال دیا۔ دو نے اسے بغلوں سے سہارہ دیا ، اس کی کمر پر شہسوار کسا گیا اور یوں وہ جلوس لے چلنے کے لیے تیا ر کیا گیا۔ جلوس روانہ ہوا، اس شان کے ساتھ کہ اس دفعہ حال ایک لڑکے پر آیا تھا اور وہی سواری بنا ہوا تھا۔ کچھ دیر کے لیے اباجان کی بھی باری آئی اور انھوں نے ایک طرف سے شاہ نور کی بغل میں ہاتھ ڈال اسے سہارہ دیا اور چل پڑے۔ خود بتاتے تھے کہ اس روز اس کا زور اتنا تھا کہ سنبھالا نہ جاتا تھا۔ حال آنے کی وجہ سے اس کی جوتیاں ادھر ادھر ہوگئی تھیں اور وہ ننگے پیر چل رہا تھا جبکہ دونوں اطراف دونوں لڑکے چپلیں پہنے ہوئے تھے۔ یک بارگی کسی کا پیر اس کے پیر پر آیا تو اس نے فوراً دونوں ساتھیوں کو ہلکی آواز میں گالی دے کر احتیاط سے چلنے کو کہا۔ اباجان اور دوسرا ساتھی چونک پڑے۔ حال کی حقیقت ان پر آشکارہ ہوچکی تھی۔ اب تو دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کیے اور ایکشن کے لیے تیار ہوگئے۔ اب جو انھوں نے شاہ نور کو لیکر بھاگنا شروع کیا ہے تو اس کی تو میا ہی مر گئی، وہ تھک کر چور ہوگیا لیکن دونوں نے باز نہ آنا تھا اور وہ نہ آئے اور اسے لیکر بھاگتے ہی رہے۔ لوگوں نے مارے حیرت کے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں، واقعی اس مرتبہ تو اس لڑکے پر بڑا زبردست حال آیا تھا۔ آخر خدا خدا کرکے وہ رکے اور وہ بھی اس طرح کہ چاروں طرف سے معتقدین کے ہجوم نے انھیں روکا اور مارے عقیدت کے بھر پور نعرے بازی کی ۔ وہ محرم باسم کا ایک یاد گار محرم بن گیا۔

وقت گزرتا رہا، دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے رہے، ان حالات و واقعات اوران جیسے بے شمار دیگر دلچسپ واقعات نے بچپن ہی میں اباجان کی کردار سازی میں بھرپور حصہ لیا اور یوں اپنی زندگی کے اوائل ہی میں وہ ایک پختہ اور غیر متزلزل کردار کے مالک بن چکے تھے۔ مطالعہ کی عادت جو گاﺅں کے مڈل اسکول نے ڈالی ، زندگی بھر ان کے محبوب ترین مشغلہ کے طور پر ساتھ رہی۔ بچپن میں بڑے ماموں کی کتابوں کا ذخیرہ ہاتھ آیا اور اس پر خوب فیاضی کے ساتھ ہاتھ صاف کیا۔ علم ، ادب ، دیومالا، شاعری غرض ہر قسم کی کتابیں پڑھیں۔ لڑکپن میں جب گھر سے رخصت ہوکر تبلیغ دین کے لیے اس تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کی اور حیدرآباد پہنچے تو جامعہ عثمانیہ کی عثمانیہ لائبریری اورحیدرآباد کی دیگرپبلک لائیبریریوں سے استفادہ کیا اور خوب کیا۔

ایک رات اپنے بڑے بھائی کے ساتھ گھر آرہے تھے ۔ رات کا سناٹا پھیل چکا تھا اور گھروں میں چراغ اور دئیے بھی بجھ چکے تھے جس کے باعث اندھیرا اور بڑھ گیا تھا۔ گھر کے قریب پہنچے تو سناٹے میں ایک جانب سے گھنگرؤوں کی آ واز ابھری اور قریب آتی چلی گئی۔

یہ بات لوگوں مین مشہور تھی کہ یہاں رات کو گھنگرو بجنے کی آواز آتی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہاں کوئی چڑیل ہے ۔ اسلئے لوگ رات کو یہاں سے گزرنے سے گریز کرتے تھے ۔ گھنگرؤوں کی آواز سن کر دونوں بھائیوں کے دل میںخیال چڑیل ہی کا آیا۔ تایا تو بہت گھبرائے ۔کہنے لگے، ” اسماعیل آج غلط پھنس گئے، بس بھاگ چلو!“

لیکن اباجان کے ذہن میں اس وقت ڈر یا خوف کا نام و نشان تک نہ تھا۔اباجان نے اس ہیبت ناک ماحول میں ا س نئی بپتاءکو کس طرح برداشت کیا اور ان کا پہلا رد عمل کیا تھا؟ خود کہتے تھے کہ یہ آواز سنتے ہی انھوں نے جھٹ اپنی تلوار نکال لی اور ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار کرلیا۔ آواز قریب آتی چلی گئی اور پھر اچانک ایک درخت کے پیچھے سے ایک عورت پیروں میں گھنگرو پہنے چھن چھن کرتی ہوئی نمودار ہوئی تو اباجان نے تلوار سونت لی اور تلوار اس کے پیٹ کی طرف کرکے دوڑے تاکہ اس کے پیٹ میں گھونپ دیںلیکن نشانہ خطا ہوا اور وہ عورت بہت تھوڑے سے فرق سے بچ گئی۔ قریب پہنچ کر جب اس چڑیل پر نظر پڑی تو اباجان سناٹے میں آگئے۔ وہ عورت کوئی چڑیل نہیں بلکہ گاﺅں کی ایک پاگل عورت عظیم دیوانی تھی جو گھنگرو باندھے گھوماکرتی تھی۔اباجان اللہ کا شکر ادا کرتے تھے کہ اس دن ان کا نشانہ خطا ہوگیا اور وہ د ۔ یوانی عورت ان کے وار سے بچ گئی۔

ذرا غور کیجیے ، ایک چڑیل کا مقابلہ کسی وظیفے سے نہیں بلکہ اپنی تلوار سے۔ یہ وہ رویہ تھا جو اباجان نے ساری زندگی مافوق الفطرت کے بارے میں روا رکھا، جس میں ان کی اپنی زندگی کے حالات و واقعات کے علاوہ تاریخ اسلامی کا بھی اسی انداز سے مطالعہ شامل تھا۔سال ہا سال بعد جیل کے اندر ایک تعویز بنا کر جیلر کو دیا ضرور تھا اور اس تعویز نے اپنا اثر بھی دکھلایا تھا، لیکن اللہ بہتر جانتا ہے کہ کن حالات میں ، کس ذہنی کیفیت میں اورکس موڈ میں انھوں نے یہ تعویز بنایاتھا، کیونکہ وہ تعویز گنڈوں، جن بھوتوں ، چڑیلوں ، عملیات و کرامات اور معجزات میں یقین نہیں رکھتے تھے۔مرض الموت میں ایک مرتبہ بھائی نے ان سے اجازت چاہی کہ وہ ایک بزرگ سے اباجان کا روحانی علاج کرواسکے۔ اباجان نے صاف انکار کردیا۔

ان سب کے باوجود اباجان کی زندگی ایسے محیر العقل کارناموں سے بھری پڑی ہے جو ایک عام انسان کے بس میں نہیں۔ایک مرتبہ دریاے سندھ عبور کرتے ہوئے دوسرے کنارے پر موجود لوگوں نے نجانے کیا سوچ کر اباجان کو آواز دے کر پوچھا تھا کہ وہ آدمی ہیں یا جن ہیں۔ تھے تووہ انسان ہی ، اسلئے کہ انسان ہی اشرف المخلوقات ہے مگر وہ ایک ایسے گوہر کی طرح تھے جو اپنی تمام تر خوبصورتی سمیت اپنے سیپ میں چھپا رہتا ہے۔

No comments:

Post a Comment