Tuesday, March 27, 2012

فسانہ آزاد::باب چہارم :: میدانِ عمل میں

باب چہارم۔فسانہ آزاد
میدانِ عمل میں
محمد خلیل الر حمٰن

اباجان تبلیغ کے لیے نکلے تو اپنا سب کچھ بھول کر ایک اللہ کے نام کو متعارف کروانے اور اسے گھر گھر، بستی بستی، قریہ قریہ عام کرنے کے لیے اپنی ہستی کو مٹادیا ، اپنی ذات کو بھول گئے اور اپنے نفس امارہ کو مار کر صرف ایک بات کو یاد رکھا کہ وہ ذاتِ باری، وہ ہستی جس نے انھیں پیداکیا اور اس بات کا شعوراور اعزاز بخشا کہ وہ اسے پہچان کر اسکا نام اس دنیا میں پھیلا سکیں وہی اس دنیا کی واحد حقیقت ہے اور باقی سب دھوکے کی ٹٹی اور ایک ڈھکوسلہ ہے۔ جب وہ دورے کے لیے نکلتے تو نہ انھیں اپنی بھوک اورپیاس یاد رہتی اور نہ سفر کی طوالت ہی ان کے قدم ڈگمگا سکتی۔ صرف ایک اللہ اور اس کے رسول کے دین کا پرچار کرتے ہوئے چلتے تو نہ تو وہ خود باقی رہتے، نہ ان کی ذات، نہ ان کی بھوک پیاس اورسفر کی صعوبتیں اور نہ دوست یار ،احباب اور گھر والے۔سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے تھا، جب لاد چلے تھا بنجارہ۔رہے نام اللہ کا۔

ایسے ہی ایک سفرکے آغاز میں جب ڈیڑھ دوسو کلو میٹر دور ماہورکے قلعے کا قصد کیا تو نہ منزل مقصود کی دوری ، نہ راستے کی تھکن اورنہ گھنے جنگلات اور ان میں موجود وحشی درندوں کا خیال ہی انھیں اپنے اس تنہا طویل سفر سے باز رکھ سکا اور وہ اللہ کا نام لے کر یکبارگی اٹھے اور روانہ ہوگئے۔زادِ سفر قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں کے امیر المومنین حضرت عمرفاروقؓ اور مصر کے گورنر حضرت سعیدبن عامرؓکے نقشِ قدم پر انتہائی مختصر تھا۔

رات اور دن کی فکر نہ کرتے ہوئے، منزلیں طے کرتے، میدان مارتے ہوئے، درخت اور سبزہ زاروں کو پار کرتے، گھنے جنگل بیابان میں سے راستہ بناتے ہوئے، بستیوں اور ویرانوں کی سیر کرتے ہوئے، کبھی کچھ میسر آگیا تو کھالیتے ورنہ فاقہ کرتے ہوئے، اباجان چلے تو فاصلے سمٹتے چلے گئے۔ گز، فرلانگ اور میل طے ہوتے چلے گئے اور اباجان اپنی منزلِ مقصود سے قریب تر ہوتے چلے گئے۔

راستے میں ماہور کے قلعے سے نیچے، قلعے کی دیوار کے ساتھ ساتھ، پہاڑ کی ترائی میںایک گاﺅںتھا۔ اباجان شام کے وقت اس گاﺅں میں پہنچ گئے۔اباجان کے سر میں قلعے کا سودا سمایا ہوا تھا، ادھر گاﺅں والوں نے بھی اباجان کو کوئی ایسی خاص لفٹ نہیں کروائی، لہٰذہ اباجان نے زیادہ وقت اس گاﺅں میں گز ارنے کی بجائے جلد از جلد اس گاﺅں سے فارغ ہوکر قلعہ تک پہنچنے کی ٹھانی۔ اس گاﺅں سے قلعے کے پھاٹک تک جانے کے لیے کئی کلومیٹر لمبا ایک راستہ تھا، جہاں سے قلعے کے اندر جانے کا راستہ نکلتا تھا۔ادھر یہ صورتحال تھی کہ قلعہ کی دیوار بالکل گاﺅں کے ساتھ ایک گھنے جنگل میں سے ہوکر گزرتی تھی۔اباجان نے کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پھاٹک تک پہنچنے کی بجائے، جنگل سے گزر کر دیوار تک پہنچنے اور پھر دیوار پھلانگنے کا پروگرام بنایا اور مسجد میں لوگوں سے الوداعی ملاقات کرکے آگے جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔

جنگل میں سے گزرتے ہوئے اباجان کو اس رات بارہا اس چڑیل کا خیال آیا جسے انھو ںنے ایسی ہی ایک رات میں اپنے آبائی گاﺅں کے قریب کے جنگل میں چٹکی ہوئی چاندنی میں چھم چھم کرتے چلتے ہوئے دیکھا تھا۔ گو قریب آنے پر وہ گاﺅں کی ایک پاگل عورت نکلی تھی، لیکن کچھ دیر کے لیے تو اس نے اس پراسرار انداز میں چھم چھم کرتی پایل پہنے چلتے ہوئے اباجان کو پریشان کردیا تھا اور انھوں نے حفظ ِ ماتقدم کے طور پر اپنی تلوار بھی نکال لی تھی۔یہ جنگل نسبتاً خاموش تھا اور اس میں اباجان کی کسی چڑیل، بھوت پریت یا کسی وحشی جانور سے بھی ملاقات نہیں ہوئی اور وہ زندہ سلامت جنگل سے گزر کر قلعے کی دیوار تک پہنچ گئے۔

انھیں اپنی آسانی کے لیے دیوار کے قریب ایک برگد کا درخت بھی نظر آگیا جس پر چڑھ کر وہ بآسانی دیوار پھلانگ سکتے تھے۔ بچپن کا سیکھا ہوا درخت پر چڑھنا ان کے کام آیا اور وہ اس درخت پر چڑھ کر” کودا ترے آنگن میں کوئی یوں دھم سے نہ ہوگا“ کے مصداق دوسری طرف چھت پر پہنچے اور وہاں سے نیچے کود گئے۔

نیچے ایک صاف دالان نظر آیا تو اباجان نے وہیں ایک اینٹ کو سر کے نیچے رکھ کر تکیہ بنایا اور اپنے رومال کو کندھے سے اتار کر اوڑھ لیا اور لیٹ گئے۔ تھکے ہوئے تو تھے ہی ،تھکن کے مارے جو آنکھیں بند کی ہیں توجلد ہی نیند نے ان پر مکمل غلبہ حاصل کرلیا اور وہ اور لمبی تان کر سوگئے۔

صبح اذان کے وقت کچھ شور سنا ، ہڑ بڑا کر اٹھے تو دیکھا کہ دائیں اور بائیںدونوں طرف سے دو ہٹے کٹے ” مشٹنڈے “قسم کے آدمیوں نے انھیں دونوں بازوﺅںسے پکڑ ا ہوا ہے اور کشاں کشاں ایک طرف کو لے چلے ہیں۔ یہ چھت دراصل ایک مندر کی تھی ، اباجان اس مندر میں کود پڑے تھے اور اب پکڑے ہوئے اس مندر کے پجاری کے سامنے پیش ہونے کے لیے لے جائے جارہے تھے۔
اس دالان کے دوسری طرف ایک تخت پر گاﺅ تکیہ سے ٹیک لگائے پجاری صاحب نیم دراز تھے، اباجان جو یوں پکڑ کر ان کے سامنے پیش کیے گئے تو وہ بھی مارے حیرت کے اٹھ بیٹھے اور اپنے سامنے فرش پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھا، پھر اباجان کی طرف دیکھ کر گالی دینے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اباجان نے کڑک کر کہا۔
” گالی نہیں دینا مہاراج“

” ابے تو سالے چور، اچکے ، ڈاکو! تجھے اور کیا کہوں؟“ پجاری کے ساتھ ساتھ اس کے چیلے بھی اباجان کی اس دیدہ دلیری پر حیران رہ گئے۔

”میں چور ڈاکونہیں ہوں مہاراج“

” تو پھر کیا بھیک مانگنے آیا ہے؟“

” نہیں مہاراج، بھیک مانگنے نہیں بلکہ بھیک دینے آیا ہوں۔“

اباجان کے اس حیرت انگیز انکشاف پر نہ صرف پجاری بلکہ اس کے چیلے اور دیگر حاضرین بھی اس قدر حیرت زدہ ہوئے کہ ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔

سب سے پہلے پجاری نے اپنے آپ پر قابو پایا اور کہنے لگے۔

” ابے تو میرے پوترے (پوتے)کے برابر ہے لونڈے۔ تو مجھے بھیک دے گا؟“

”جی مہاراج۔“

” اچھا تو پھر چل ٹھیک ہے۔ دے ،مجھے بھیک دے۔“ پجاری نے گویا ہار مانتے ہوئے کہا۔

اباجان نے نہایت اطمینان کے ساتھ دونوں اشخاص سے اپنے بازو چھڑوائے اور اسی اطمینان کے ساتھ چل کر پجاری کے ساتھ تخت پر بیٹھ گئے۔ اب تو سب لوگ بہت سٹ پٹائے، دوتین تو اٹھے اور اباجان کی طرف بڑھے تاکہ انہیں تخت سے اتار کر نیچے پھینک دیں، لیکن پجاری نے ہاتھ اٹھاکر انھیں اس حرکت سے باز رکھا اور اباجان کی طرف متوجہ ہوگئے۔

ابا جان نے تلاوت کے سے انداز میں ہاتھ با ندھے، آنکھیں نیم وا کیں اور چند ساعتوں کی خاموشی کے بعد سنسکرت میں مہابھارت اور راماین سے کچھ اشلوک پڑھنا شروع کردیے۔ یہ سننا تھا کہ پجاری سمیت تمام حاضرینِ محفل نے ہاتھ جوڑ دیے اور ہمہ تن گوش ہوگئے۔

پوری محفل پر سناٹا چھایا ہوا تھا،غالباً کوئی پندرہ بیس منٹ تک اباجان یہ اشلوک پڑھتے رہے اور حاضرین جھومتے رہے۔ اباجان نے پڑھنا ختم کیا تو کافی دیر تک محفل پر سناٹاچھایا رہا، آخر کچھ دیر بعد پجاری جی نے اباجان کے سامنے ہاتھ جوڑدئیے اور کہنے لگے۔

” دھنہ باد سادھو جی! بہت اچھے۔پر اب مجھے بھیک دے۔“

اب اباجان نے اللہ کا نام لیکر اپنی تقریر شروع کی اور اپنا موقف خوب دل کھول کر بیان کیا۔
اباجان کی تقریر ختم ہوئی تو محفل کا سناٹا برقرار تھا۔ تمام لوگوں پر ایک سکوت طاری تھا۔ بالآخر پجاری نے اس سکوت کو توڑا اور یوں گویا ہوئے۔

” بات تو تیری سولہ آنے ٹھیک ہے۔ جس طرح تو نے بیان کیا ہے، درحقیقت اسلام ہی وہ دین ہے جو اس وقت انسانوں کے مسائل کا حل بتلاتاہے۔ میں تیری باتوں سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، لیکن مسلمان ہونا اس وقت میرے بس میں نہیں ہے۔اس وقت میں اس وسیع علاقے کے ہندوﺅں کا مذہبی نمائیندہ اور سب سے بڑا پجاری ہوں اور اس حیثیت کو نہیں چھوڑ سکتا۔“

اسی اثناءمیں علاقے کا ڈاکیا جو اس محفل میں موجود تھا، اجازت لیکر آگے بڑھا اور علاقے کے مختلف لوگوں کی جانب سے پجاری کو بھیجے گئے منی آرڈرکا کاغذ بصد احترام پجاری صاحب کی خدمت میں پیش کرکے ان کے دستخط حاصل کیے اور جیب سے کئی ہزار کے نوٹ نکال کر پجاری کی خدمت میں پیش کردیئے۔


پجاری نے جو اس وقت تک اباجان کی شخصیت و کردار اور ان کے فن تقریر سے بے حد متاثر ہوچکے تھے ، وہ تمام روپے اٹھا کر اباجان کی گود میں ڈال دیئے اور کہا۔

” اتنا ضرور میں کرسکتا ہوں کہ تجھے خوش کردوں۔ لے یہ رکھ لے۔“

اباجان نے فوراً ہی وہ ہزاروں روپے واپس اٹھا کر پجاری کی جھولی میں ڈالتے ہوئے کہا۔

”مہاراج ! مجھے یہ روپے دے کر شرمندہ نہ کریں اور نہ ہی مجھے اس اعزاز سے محروم کریں جو میں نے ابھی آپ کے سامنے اپنے دین کا پرچار کرکے حاصل کیا ہے۔“

”تو مجھے پاگل لگتا ہے۔“ پجاری ہنس پڑے اور اٹھ کر اباجان کو گلے لگا لیا، اپنے ساتھ ناشتہ کروایا اور پھر اباجان کے اجازت مانگنے پر انھیں ساتھ لےکر پھاٹک تک چھوڑنے کے لیے گئے۔ اس طرح اباجان پجاری صاحب کے ساتھ اس ملاقات سے فارغ ہوکر روانہ ہوئے اور واپس اسی گاﺅں کی طرف بڑھے۔

اِدھر اُس ڈاکیے نے جو مسلمان تھا اور اباجان سے پہلے وہاں سے نکل آیا تھا، فوراً اپنی سائیکل سنبھالی اور تیز تیز پیڈل مارتا ہوا وہاں سے روانہ ہوا۔ گاﺅں میں پہنچتے ہی اس نے سب گاﺅں والوں کو جمع کرکے اباجان کی تعریفوں کے پل باندھ دیے کہ کمال کے مولوی صاحب ہیں،ہزاروں روپے ٹھکرا دیئے اور ہندو پجاری کو اپنی تقریر اور اپنے طرزِ عمل سے اس قدر زیادہ متاثر کردیا کہ اس نے انھیں گلے لگالیا ا ور پھاٹک تک انھیںچھوڑنے کے لیے آیا۔

اباجان گاﺅں پہنچے تو گاﺅں والوں نے ایک جلوس کی شکل میں ان کا استقبال ، اعزاز و اکرام کیا۔ اس دن ان کی نظروں میں اباجان کی قدر و منزلت کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص انھیں اپنا مہمان بنانا چاہتا تھا۔ ان کی ہر روز کی دعوتیں شروع ہوئیں جو ختم ہونے میں نہ آتی تھیں۔ جس دن بھی اباجان واپسی کا قصد کرتے ،لوگ رو رو کر ان سے درخواست کرتے کہ آپ نے ہمارے گھر تو ابھی کھانا کھایا ہی نہیں۔ ہمیں بھی اپنی مہمانی کا
شرف بخشیے۔ اسطرح اباجان کوئی پندرہ بیس دن اس گاﺅں میں رہے اور جب تک سب گاﺅں والوں کے ہاں دعوت نہ کھالی ان کی جان بخشی نہیں ہوئی۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اباجان کے ایک پیر بھائی اپنے دورے کے دوران ایک علاقے میں پہنچے تو وہاں ایک عجیب منظر دیکھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے سیرت کانفرنس کے نام سے اباجان کے لیکچرز کا ایک سلسلہ جاری تھا۔ قبلہ نے فوراً منتظمینِ جلسہ سے رابطہ قائم کیا اور فرمائش کی کہ جلسے میں پہلے ان کی تقریر رکھی جائے ورنہ آزاد جو ابھی بچے ہیں کہیں معاملہ کو بگاڑ نہ دیں۔ جلسہ شروع ہوا تو جوق در جوق لوگ چاروں طرف سے امڈے چلے آتے تھے۔ قبلہ بہت خوش ہوئے اور اپنی تقریر کا اعلان ہونے سے پہلے ہی اسٹیج پر پہنچ گئے۔ ادھر لوگوں نے اباجان کے بجائے کسی اور مقرر کو دیکھا تو کھسکنے لگے، مگرمنتظمین نے فوراً اس صورتحال کا اد راک کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ آج پہلے مہمان مقرر تقریر فرمایئں گے اور اس کے بعد حسب ِ معمول مولانا اسمٰعیل آزاد صاحب کی تقریر ہوگی۔

ان صاحب کی تقریر شروع ہوئی تو لوگ جو پچھلے کئی دنوں سے اباجان کی علمی تقریر سننے کے لیے جمع ہورہے تھے بڑی مشکل سے اس جذباتی قسم کی بے معنی اور بے سر و پا تقریر کو برداشت کیا اور اپنے تاثرات سے مقرر کو یہ احساس دلاتے رہے کہ ان کی تقریر ۔۔۔ ۔جوں ہی انھوں نے اپنی ”تقریر “ ختم کی اور اباجان اسٹیج پر پہنچے، مجمع میں گویا زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی، انھوں نے اپنی اپنی ڈائریاں سنبھال لیں اور نوٹس لینے کے لیے تیار ہوگئے۔

قبلہ پیر بھائی کے لئے یہ ایک انوکھا موقعہ تھا جب لوگ ایک مقرر کی تقریر سننے کے لیے اپنے اپنے قلم اور نوٹ بک وغیرہ سنبھال کر بیٹھے تھے۔ا باجان نے اپنی تقریرشروع کی جس میں سیرت نبوی ﷺکے پہلوﺅں سے منطقی استد لال کیا گیا تھا۔ ایک گھنٹے کی انتہائی دلچسپ اور معلوماتی تقریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا جو تقریباً آدھے گھنٹے تک جاری رہا، جس میں سامعین کے سوالات جس علمیت کاتقاضا کرتے ، اباجان کے جوابات بھی اسی علمیت کے حامل ہوتے ۔

اگلے دن حضرت نے صبح سویرے ناشتے کے بعد اپنی رسید بک سنبھالی اور بازار کی طرف چلے۔ ایک سیٹھ صاحب سے ملاقات ہوئی تو اپنا مدعا بیان کیا کہ مجاہدوں کی تربیت و تیاری اور جہاد کے لیے چندہ درکار ہے۔ ان سیٹھ صاحب نے فرمایا کہ

” آپ ہی کی پارٹی سے ایک مولوی اسمٰعیل آزاد پچھلے کئی دنوں سے یہاں مقیم ہے اور سیرت نبوی ﷺپر جلسے کر رہا ہے اور اس نے اپنی سیرحاصل گفتگو سے سب کو متاثر کیا ہے، اس نے تو آج تک ایسی کوئی بات نہیں کی “ ( یعنی کوئی چندہ وغیرہ نہیں مانگا)

حضرت نے فرمایا ، ” اسمٰعیل ابھی بچہ ہے اور اسے ابھی کام کی نوعیت سے متعلق زیادہ معلومات وغیرہ نہیں ہیں۔“

سیٹھ صاحب بولے۔” حضرت جی! آج میری اس تجوری میں کئی ہزار روپے موجود ہیں۔ آپ آزاد کو ساتھ لے آئیے۔ وہ اگر مجھ سے سارے روپے بھی مانگ لے تو میں بلا تامل اسے دیدوں گا۔“

” سچ؟“

” جی بالکل“

حضرت جی خوش ہوگئے۔ اباجان کو وہاں لانا کیا مشکل تھا۔ میں ابھی جاﺅں گا اور لے آﺅں گا، انھوں نے سوچا اور لپکے تاکہ جلد از جلد اباجان کو لے کر وہاں پہنچیں اور ہزاروں روپے کا چندہ وصول کرلیں۔ مسجد پہنچے تو اباجان لیٹے ہوئے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے، غالباً رات کی تقریر کی تیاری کر رہے تھے۔ وہاں پہنچتے ہی انھوں نے اباجان کو اٹھاتے ہوئے کہا۔

” اسمٰعیل بھائی اٹھو چلو!“

”لیکن کہاں بھائی؟“

”سیٹھ ۔۔کے ہاں۔ وہ کہتا ہے کہ اگر تم کہو تو وہ اپنی تجوری سے کئی ہزار روپے نکال کر ہمیں چندہ دیدے گا۔بس ابھی چلو تاکہ وہ ہمیں پیسے دیدے“

”لیکن میں اس کے پاس مانگنے نہیں جاﺅں گا۔ اگر اس کا خیال اچھے مقصد کے لیے چندہ دینا ہے تو وہ یوں ہی آپ کو دیدیتا۔ میری اس کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے۔“

خیر صاحب ! انھوں نے لاکھ اباجان کی منتیں کیں لیکن اباجان نے نہ جانا تھا اور وہ نہیں گئے اور یوں حضرت کا ہزاروں روپے کا چندہ اباجان کی ”ہٹ دھرمی “کی نظر ہوگیا۔جب وہ دوبارہ اکیلے سیٹھ صاحب کے ہاں پہنچے تو سیٹھ صاحب نے انھیں چودہ آنے چندہ دیکر اپنی جان چھڑائی۔

شہر آکولا میں جلسے کی روداد قاضی فیاض علی صاحب اور اباجان کے لیکچر کا واقعہ اکبر چچا کی زبانی سنیے۔

”۰۴۹۱ءکے دور میںشہر آکولامیں بغرض تبلیغی دورے کے موقع پر سی پی کے کانگریسی لیڈرنے ان مبلغین کو دعوت دی کہ وہ دودنوں میں اپنا موقف بیان کریں اور سامعین کے سوالات کے جواب دیں جسے انھوں نے بصد شکریہ منظور کرلیا اور طے پایا کہ پہلے دن قاضی فیاض علی ایڈووکیٹ اپنے جوشِ خطابت کے جوہر دکھائیں گے اور دوسرے دن مولانا محمد اسمٰعیل آزاد خطاب کریں گے۔ قاضی صاحب لوگوں کو متوجہ نہ کرسکے بلکہ انھوں نے جو مشکل اور گھمبیر اندازِ تقریر اختیار کیا وہ لوگوں کے سروں کے اوپر سے گزر گیا۔ انھوں نے اتحادِ بین المذاہب اور اسلام کو قبول کرنے کی دعوت ایک ساتھ دے ڈالی اس کے متعلق جو سوالات ہوئے وہ ان کا بھی سامنا نہ کرسکے۔ بالخصوص اتحاد کے ساتھ ساتھ اسلام قبول کرنے کی کیا تک ہے۔

شہر کے مسلمانوں کو اس پر بڑی خفت اٹھانی پڑی۔ دوسرے دن آزاد صاحب کا لیکچر تھا لیکن وہ سارا دن معمول کی تفریحی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ دوپہر کو جب وہ فٹبال کا میچ دیکھنے میں مصروف تھے، شہر کے چند بزرگ گھبراکران کے پاس پہنچے اور لیکچےرکی تیاری کرنے کی درخواست کی۔انھوں نے اطمینان دلایا کہ سب ٹھیک ہوجائے گا، فکر نہ کریں اور فی الوقت بیٹھ کر مغل محمڈن کو فتح حاصل کرتا ہوا دیکھیں۔

مقررہ وقت پر مولانا محمد اسمٰعیل آزاد صاحب کا لیکچر شروع ہوا۔ انھوں نے مذھب کی تاریخ بیان کی اور بتلایا کہ مذھبی رہنماﺅں نے معاشی اور اخلاقی اصول مرتب کیے، اور اخلاقی ضابطے جاری کیے۔ ہندوستانی مذھب کے رہنماﺅں نے پتر جنم اور چار طبقاتی نظام پر مشتمل مذھب ایجاد کیا ۔ اس کی اچھائی اور برائی سے قطع نظر، اس مذھبی بندھن نے ہندوستانی عوام کو منظم ہونے اور رہنے کا موقع دیا۔ہندوستانی تہذیب و تمدن، صنعت و حرفت ،زراعت اور رسم و رواج نے دنیاءسے خراج تحسین وصول کیا۔دنیا والے ہندوستان کو سونے کی چڑیا کا نام دیتے تھے۔

یہودیت اور عیسائیت نے عرب ممالک میں جنم لیا، ان الہامی مذاھب نے انسان کو روحانی اور مادی خوشحالی عطا کی۔ عیسائیت کو رومی شہنشاہوں نے قبول کیا اور عالم گیر مذھب بنادیا۔

یہ تمام مذاہب مخصوص علاقوں ، قبیلوں اور برادریوں کے لیے مبعوث ہوئے۔لیکن حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی کے طور پر سارے عالم اور رہتی دنیا تک کے لیے مبعوث ہوئے۔ آپ ﷺ کو اللہ کا آخری کلام قرآن شریف دیا گیا۔ یہ کتاب بنی نوع انسان کے لیے سرچشمہ ہدایت قرار دی گئی۔ ختم الرسل ﷺ اور آپ پر نازل کی ہوئی کتاب کا ماننا ہر مرد و عورت پر فرض قرار دیا گیا۔ حضرت محمد ﷺ نے تعلیم دی کہ تمام انسان آپس میں بھائی بھائی اور برابر ہیں۔ گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل ہے۔ فضیلت اسی کو حاصل ہے جو تقویٰ میںسب سے برتر ہو۔ اسلام نے دیگر مذاہب کو موجود رہنے کی ضمانت دی۔ اور مذاہب کو ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا حکم دیا۔ ایک ہزار سالہ اسلامی دور میں عربی زبان میں ہر مذہب اور تہذیب کے مفکروں کی تصانیف ترجمہ کی گیئں اور اسلامی دنیا سے تمام عالم میں ان کے ترجمے بھجوائے گئے۔ ذمیوں کو بھی شہری حقوق برابری کی بنیاد پر دیے گئے۔

ادھر نئی تہذیب نے دیگر مہذب ملکوں کو فتح کرکے نوآبادی بنالیا، اور انھیں تہذیب سکھانا اپنا احسان بھی قرار دیا۔ نوآبادیوں کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا۔ انکی تہذیب ، تمدن اور ثقافت کو ناکارہ قرار دیا۔ ادھر جمہوریت کے نام پر صرف اپنے عوام کو حقوق دیئے ۔ رد عمل میں کمیونزم اور سوشلزم کے نظام پیدا ہوئے۔ کمیونسٹ ریاست سویٹ یونین بھی اپنا دعویٰ پورا کرنے میں ناکام ہورہی ہے۔ ادھر اسلام نے سود اور دوسرے کی محنت پر قبضہ کرنے کی ممانعت کی ۔ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیاعدل و انصاف کو ریاست کا پہلا فرض قرار دیا۔

یہ لیکچر دو گھنٹے جاری رہا اور اس میں بڑی محنت اور تفصیل سے اپنا موقف بیان کیا گیا۔ تقرِ یر ختم ہوئی تو صدرمحفل نے سوال کا تقاضا کرتے ہوئے ” کوئی سوال، کوئی سوال؟“ کے الفاظ بار بار دھرائے لیکن کسی طرف سے کوئی سوال نہیں آیا، جس کے بعد صدرِ محفل نے بھائی صاحب کو مبارکباد دی کہ انھوں نے اپنا موقف بڑی محنت سے بیان کیا اور سامعین نے اس کی افادیت تسلیم کی۔

آکولا شہر کے مسلمان اس لیکچر کی کامیابی او ربھائی صاحب کی اس عزت افزائی اور پزیرائی سے بہت خوش ہوئے۔“

No comments:

Post a Comment